جس کی بیوی زانیہ ہو ایسے کو مسجد کا صدر یا متولی بنانا کیسا ہے ؟
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ محمد یونس مغل جو کہ جامع مسجد بھروٹ گلی کا صدر اور متولی بھی ہے اس کو لیکر مقتدیوں میں اختلاف ہو گیا کہ یونس کی بیوی زانیہ ہے اس کے تعلقات غیر مرد کے ساتھ ہیں جس کی شواہد بہت ساری ننگی تصویریں اور کال ریکارڈنگ ہیں جن کا بدکاری کرنے والے مرد نے اقرار کرلیا ہے یہ شخص شادی شدہ ہے، اور عورت کو اس پر کوئی انکار نہیں، یہ سب جاننے کے بعد ثابت ہوجاتا ہے کہ یونس کی بیوی بدچلن ہے، پہلے تو یونس صاحب ماننے کو تیار نہیں تھے کہ میری بیوی غلط ہے لیکن جب شواہد ملنے کے بعد یونس صاحب کو پوچھا تو بولے کہ میرے بس میں نہیں مارپیٹ بھی خوب کی سمجھایا بھی بہت لیکن بیوی باز آنی والی نہیں تو ایسی صورت میں یونس صاحب اور اس کی بیوی اور زانی غیر مرد کے بارے میں شرعی حکم کیا ہوگا؟
المستفتیان: اہل محلہ بھروٹ گلی
باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب بعون الملک الوھاب:۔
برتقدیر صدق سوال صورت مسؤلہ میں اگر اس شخص نے محمد یونس کی بیوی کے ساتھ زنا کے ارتکاب کا صاف صاف اقرار کرلیا ہے تو اس کو زانی مانا جائے گا یوں ہی اگر یونس کی بیوی نے زناکاری کا صاف صاف اقرار کرلیا ہے تو اس کو بھی زانیہ مانا جائے گا، لیکن اگر مرد کسی عورت کے ساتھ زنا کا اقرار کرتا ہو اور عورت انکار نہ کرتی ہو یعنی خاموش رہتی ہو اور تردید نہ کرتی ہو تو یہ خاموشی یا تردید نہ کرنا زنا کا اقرار نہیں ہوگا،یوں ہی کال ریکارڈنگ یا ننگی تصویروں سے زنا کا ثبوت نہیں ہوگا۔ ہاں اگر یونس کی بیوی صاف صاف زنا کا اقرار کرتی ہو تو وہ زانیہ مانی جائے گی۔
اب اگر زنا کرنے والے مرد اور عورت شادی شدہ ہوں اور زنا کا شرعی ثبوت حاصل ہوجائے تو شریعت اسلامیہ کی رو سے زنا کی سزا رجم ہے یعنی انہیں اس قدر پھتر مارے جائیں کہ یہ مرجائیں۔ لیکن ہمارے یہاں چونکہ اسلامی حکومت نہیں ہے اس لیے یہاں حد نافذ نہیں کی جاسکتی۔ اب ان کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ جب تک زنا کا اقرار کرنے والا علانیہ توبہ صادقہ کرکے اس بری حرکت سے باز نہیں آتا ان کو برادری سے خارج کیا جائے مسلمان ان سے کسی طرح کا کوئی میل جول نہ رکھیں۔
فتاوی رضویہ میں ہے: ” مرد جو اپنے زنا کا اقرار کرتا ہے اسے زانی مانا جائے گا۔ اسلامی سلطنت ہوتی تو سزا پاتا اب اسی قدر ہوسکتا ہے کہ اسے برادری سے خارج کیا جائے مسلمان اس سے میل جول چھوڑدیں جبتک علانیہ توبہ نہ کرلے "(ج ۵ ص ۹۷۸) جہاں تک یونس صاحب کی بات ہے تو صورت مستفسرہ میں مذکور ہے کہ اس نے بیوی کو مارپیٹ بھی کی اور سجھایا بھی بہت لیکن وہ بری حرکتوں سے باز نہیں آتی، ایسی صورت میں شرعا یونس صاحب پر کچھ الزام نہیں بلکہ گناہ کا سارا وبال عورت پر ہے۔ بیوی کے بدچلن ہونے کی وجہ سے یونس صاحب کو جبکہ وہ اسے اپنی استطاعت کے مطابق برے کاموں سےمنع بھی کررہے ہیں۔ مسجد کی صدارت اور تولیت سے نہ ہٹایا جائے۔
واضح رہے کہ شوہر پر یہ واجب نہیں ہے کہ بد کردار عورت کو طلاق دے ہی ڈالے۔
اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں "اس شخص پر اتنا واجب ہے کہ اس عورت کو سمجھائے فہمائش کرے اگر کسی سختی جائز پر قدرت رکھتا ہو اسے بجالائے جو بندوبست اس کے ہاتھ میں ہو اس میں کوتاہی نہ کرے اگر یہ شخص یہ سب باتیں کرتا ہے اور وہ باز نہیں آتی تو اس کا وبال اسی پر ہے اسپر کچھ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک کے گناہ میں دوسرے کو نہیں پکڑتا قال الله تعالٰی وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اُخْرَی”(فتاوی رضویہ ج ۵ ص ۹۸۳ تا ۹۸۴)۔
در مختار میں ہے:
"لایجب علی الزوج تطلیق الفاجرۃ”
(در مختار، کتاب الحظر والاباحۃ)
والله تعالی أعلم
کتبہ:۔ محمد ارشاد رضا علیمیؔ غفرلہ خادم دار العلوم رضویہ اشرفیہ ایتی راجوری جموں وکشمیر٢٧/ذی الحجہ ١٤٤٥ھ مطابق ٤/جولائی ٢٠٢٤ء
الجواب صحیح :محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی
Rely on BWER Company for superior weighbridge solutions in Iraq, offering advanced designs, unmatched precision, and tailored services for diverse industrial applications.