جن مدارس میں سادات تعلیم حاصل کرتے ہیں ان میں زکوۃ دینا ؟
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیانِ عظام مسٸلہ ذیل کے بارے میں، کہ زید و عمر زکٰوة کی رقم مدرسہ میں دینا چاہتے ہیں۔
مگر انکا کہنا ہے کہ اس مدرسہ میں (شہزادہِ رسول) آلِ سادات بھی زیر تعليم ہیں۔ اس لیے ہم زکٰوة کی رقم مدرسہ ھذٰا میں نہیں دیں گے۔ (کیونکہ آل سادات کے لیے زکات کا کھانا حرام ہے) مزید یہ بھی بتا دیں کہ، زید و عمر جو ایسا کہتے ہیں انکے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے۔
برائے کرم شرعی رہنمائی فرماکر شکریہ کا موقع عطا فرمائیں۔:
ساٸل:شکیل احمد بھٹ، گول، رام بن، جموں و کشمیر، انڈیا۔
باسمه تعالى وتقدس
الجواب بعون الملك الوهابــــــــــــــــ
زکٰوة کی رقم حیلہ شرعی (کسی فقیر کو زکٰوة دیکر اسکا مالک بنا دیا جائے پھر وہ اپنی طرف سے کارِ خیر، مثلاً مدرسہ یا مسجد وغیرہ کے لیے دیدے)کرکے نیک کاموں جیسے مدرسہ یا مسجد وغیرہ میں خرچ کرنا جائز ہے ۔
جب حیلہ شرعی کرلی جائے تو پھر اس رقم کا مدارس اسلامیہ میں جن میں سادات کرام بھی زیر تعلیم ہیں خرچ کرنا جائز ہوگا-
فتاوی امجدیہ میں ہے
"زکٰوة کا روپیہ حیلہ شرعیہ سے نیک کام میں خرچ کرنا جائز ہے۔
مثلاً فقیر کو روپیہ دیکر اسے مالک کردیا، پھر اس فقیر نے اس کے کہنے سے یا بطور خود مدرسہ یا مسجد کے مصارف کے لیے دیا۔
یا اس کو دوسری جنس کم قیمت سے خرید کر مدرسہ میں صرف کیا گیا۔ تو زکٰوة ادا ہوجائے گی،بلکہ دونوں کو ثواب ہوگا—- جب اس طرح زکٰوة ادا ہوجاتی ہے۔ تو اس حیلے کے ساتھ مدرسہ کی امداد کرنا اور اس مدرسہ میں اپنی اولاد کو تعلیم دلانا بھی جائز ہے”(ج۱ ص ۳۸۸)
زید اور عمرو کے لیے بہت بڑی سعادت اور خوش نصیبی اس میں ہوگی کہ اگر ان سے ہوسکے تو سادات کرام کو کچھ ہدیہ کی شکل میں پیش کر دیا کریں ورنہ حیلہ شرعی کرنے کے بعد مدرسہ کے ذمہ داران کو دیا کریں-
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"رہا یہ کہ پھر اس زمانہ پر آشوب میں حضرات سادات کرام کی مواسات کیوں کر ہو، اقول:بڑے مال والے اگر اپنے خالص مالوں سے بطور ہدیہ ان حضرات علیہ کی خدمت نہ کریں تو ان کی بے سعادتی ہے،وہ وقت یاد کریں جب ان حضرات کے جد اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سوا ظاہری آنکھوں کو بھی کوئی ملجا وماوی نہ ملے گا،کیا پسند نہیں آتا کہ وہ مال جو انھیں کے صدقے میں انھیں کی سرکار سے عطا ہوا،جسے عنقریب چھوڑ کر پھر ویسے ہی خالی ہاتھ زیر زمین جانے والے ہیں،ان کی خوشنودی کے لیے ان کے پاک مبارک بیٹوں پر اس کا ایک حصہ صرف کیا کریں کہ اس سخت حاجت کے دن اس جواد کریم رؤف ورحیم علیہ افضل الصلوة والتسلیم کے بھاری انعاموں،عظیم اکراموں سے مشرف ہوں ۔
ابن عساکر امیر المومنین مولا علی کرم اللہ وجہہ سے راوی،رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:من صنع الی اھل بیتی یدا کافاته علیھا یوم القیامة ۔
خطیب بغدادی امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی،رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:من صنع صنیعة الی احد من خلف عبد المطلب فى الدنيا فعلى مكافاته اذا لقينى-
الله اكبر،الله اكبر! قیامت کا دن،وہ قیامت کا دن،وہ سخت ضرورت سخت حاجت کا دن،اور ہم جیسے محتاج، اور صلہ عطا فرمانے کو محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سا صاحب التاج،خدا جانے کیا کچھ دیں اور کیسا کچھ نہال فرمادیں، ایک نگاہ لطف ان کی جملہ مہمات دو جہاں کو بس ہے،بلکہ خود یہی صلہ کروڑوں صلے سے اعلی وانفس ہے،جس کی طرف کلمہ کریمہ اذا لقینی(جب روز قیامت مجھ سے ملے گا-ت)اشارہ فرمانا ہے،بلفظ”اذا” تعبیر فرمانا بحمد اللہ بروز قیامت وعدہ وصال ودیدار محبوب ذی الجلال کا مژدہ سناتا ہے-مسلمانوں! اور کیا درکار ہے دوڑو اور اس دولت و سعادت کو لو-اور متوسط حال والے اگر مصارف مستحبہ کی وسعت نہیں دیکھتے تو بحمد اللہ وہ تدبیر ممکن ہے کہ زکوة کی زکوة ادا ہو اور خدمت سادات بھی بجا ہو یعنی کسی مسلمان مصرف زکوة معتمد علیہ کو کہ اس کی بات سے نہ پھرے،مال زکاة سے کچھ روپے بہ نیت زکاة دے کر مالک کر دے،پھر اس سے کہے تم اپنی طرف سے فلاں سید کی نظر کر دو اس میں دونوں مقصود حاصل ہوجائیں گے کہ زكاة تو اس فقیر کو گئی اور یہ جو سید نے پایا نذرانہ تھا،اس کا فرض ادا ہوگیا اور خدمت سید کا کامل ثواب اسے اور فقير دونوں کو ملا-
(فتاوی رضویہ ج ۴ ص ۴۸۹ تا ۴۹۰)
رہا زید وعمر کا یہ کہنا کہ ہم ایسے مدرسہ میں زکٰوة کی رقم خرچ نہیں کریں گے جس میں سادات کرام بھی زیر تعلیم ہیں۔کیونکہ سادات کرام کے لیے زکٰوة کا کھانا حرام ہے۔ تو ایسا انہوں نے مسئلہ (حیلہ شرعی کے جواز) کی جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے کہا ہے۔ لہذا انکو سمجھایا جائے کہ مدارس سے دین وایمان کی بقا ہے۔
اگر ہم زکٰوة کی رقم مدارس اسلامیہ میں خرچ نہیں کریں گے تو وہ بند ہوجائیں گے ان کے لیے سخت مشکلات کا اندیشہ ہے- جس سے دین کا بڑا نقصان ہوگا۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب ۔
کتبــــــــہ : محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ،پلانگڑ،تھنہ منڈی،راجوری،جموں وکشمیر
۲۷/رمضان المبارك مطابق ۲۱/مئی ۲۰۲۰ء
الجواب صحيح محمد نظام الدین قادری خادم دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی