جھینگا کھانا حلال ہے یا حرام ؟

جھینگا کھانا حلال ہے یا حرام ؟

الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سمندر اور دریا کے تمام جانور سوائے مچھلی کے احناف کے نزدیک حرام ہیں ،صرف مچھلی حلال ہے، اب جھینگا مچھلی ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف کی بناء پر جھینگے کے حلا ل یا حرام ہونے میں علماءِ کرام کا اختلاف ہوگیا، جن کے نزدیک جھینگا مچھلی کی قسم سے ہے ان کے نزدیک اس کا کھانا حلال ہے اور جن کے نزدیک جھینگا مچھلی کی قسم سے نہیں ہے ان کے نزدیک اس کا کھانا حرام ہے ۔بہرحال جب کسی چیز میں علماء کرام کا اختلاف ہو جائے تو اس سے بچنا بہتر ہوتا ہے۔

چنانچہ امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے جھینگے کے بارے میں فتوی رضویہ میں تفصیل کے ساتھ تحریر فرمایا ہے:
’’حمادیہ میں علماء کے دونوں قول نقل کئے ہیں، کہ بعض حرام کہتے ہیں اور بعض حلال۔’’حیث قال الدود الذی یقال لہ جھینکہ عند بعض العلماء لانہ لایشبہ السمک، و انما یباح عندنا من صید البحر انواع السمک، وھذا لایکون کذٰلک، وقال بعضہم حلال لانہ یسمی باسم السمک”

یعنی جہاں انھوں نے کہا کہ وہ کیڑا جسے جھینگا کہا جاتاہے بعض کے نزدیک حرام ہے کیونکہ وہ مچھلی کے مشابہ نہیں ہے۔جبکہ ہمارے نزدیک سمندری شکار میں مچھلی کی اقسام ہی مباح ہیں، اور جھینگا ان میں سے نہیں ہے۔ اور بعض نے کہا یہ حلال ہے کیونکہ اس کا نام مچھلی ہے۔

اقول (میں کہتا ہوں یعنی امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتےہیں):
عبارت حمادیہ سے ظاہر یہی ہے کہ ان کے نزدیک قول حرمت ہی مختار ہے کہ اسی کو تقدیم دی(یعنی پہلےذکرکیا)
والتقدیم اٰیۃ التقدیم (یعنی پہلے ذکر کرنا مقدم بنانے کی علامت ہے)

اور جھینگے کو "دود” یعنی کیڑا کہا او رکیڑے حرام ہیں، اور اہلِ حلت کی طرف سے دلیل میں یہ نہ کہا وہ مچھلی ہے بلکہ یہ کہ اس پر مچھلی کا نام بولا جاتاہے۔

تحقیق مقام یہ ہے کہ ہمارے مذہب میں مچھلی کے سوا تمام دریائی جانور مطلق حرام ہیں، تو جن کے خیال میں جھینگا مچھلی کی قسم سے نہیں ان کے نزدیک حرام ہواہی چاہئے مگر فقیر نے کتب لغت وکتب طب و کتب علم حیوان میں بالاتفاق اسی کی تصریح دیکھی کہ وہ مچھلی ہے۔ قاموس میں ہے:
’’الاربیان بالکسر سمک کالدود‘‘
اربیان کسرہ کے ساتھ، کیڑے کی طرح مچھلی ہے۔

مگر فقیر(امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن) نے جواہرالاخلاطری میں تصریح دیکھی ہے کہ ایسی چھوٹی مچھلیاں سب مکروہ تحریمی ہیں اور یہ کہ یہی صحیح تر ہے۔’’حیث قال السمک الصغار کلہا مکروھۃ کراۃ التحریم ھو الاصح‘‘ کہ چھوٹی تمام مچھلیاں مکروہ تحریمہ ہیں یہی صحیح ہے۔

جھینگے کی صورت تمام مچھلیوں سے بالکل جدا اور گنگچے وغیرہ کیڑوں سے بہت مشابہ ہے۔ اور لفظ ماہی غیر جنس سمک پر بھی بولا جاتاہے۔ جیسے ماہی سقنقور، حالانکہ وہ ناکے کا بچہ ہے کہ سواحل نیل پر خشکی میں پیدا ہوتا ہے۔ اور ریگ ماہی کہ قطعا حشرات الارض اور ہمارے ائمہ سے حلت روبیان میں کوئی نہی معلوم نہیں، اورمچھلی بھی ہے تو یہاں کے جھینگے ایسے ہی چھوٹے ہیں جن پر جواہر اخلاطی کی وہ تصحیح وارد ہوگی، بہرحال ایسے شبہہ واختلاف سے بے ضرورت بچنا ہی چاہئے ۔

{ملخصاً فتاوی رضویہ جلد20 صفحہ 334تا339رضافاؤنڈیشن لاہور}

المختصر جھینگا کھاناجائز ہے مگر بچنا بہتر ہے ۔

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم

کتبـــــــــہ : مفتی ابو اسید عبیدرضامدنی

Leave a Reply