جھگڑے لڑائی میں دینے والی طلاق کا حکم از علامہ کمال احمد علیمی
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل میں زید اور اس کی بیوی میں جھگڑا ہوا جس کی وجہ سے جھگڑے ہی کے درمیان زید نے اپنی بیوی کو کہا میں تجھے ایک دو،تین طلاق دیا
اس کے بعد بیوی نے اپنے آپ کو زید سے الگ کر لیاہے جبکہ زید کہتا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دیا ہے
دریافت طلب امر یہ ہے کہ صورت مذکورہ میں طلاق واقع ہوئی کہ نہیں
قرآن وحدیث کی روشنی میں مکمل جواب عنایت فرمائیں
وصی اللہ نظامی احمدآباد گجرات
الجواب بعون اللہ الوھاب
اگر واقع میں زید نے مذکورہ الفاظ(میں نے تجھے ایک دو تین طلاق دیا) کہے ہیں تو عنداللہ عورت اس پر حرام ہوگئی، بے حلالہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی،چناں چہ قرآن مجید میں ہے :
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ- فان طلقھا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(البقرۃ :٢٣٠)
ترجمہ:پھر اگر شوہر بیوی کو (تیسری) طلاق دیدے تو اب وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے، پھر وہ دوسرا شوہراگر اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر ایک دوسرے کی طرف لوٹ آنے میں کچھ گناہ نہیں اگر وہ یہ سمجھیں کہ (اب) اللہ کی حدوں کو قائم رکھ لیں گے اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں وہ دانش مندوں کے لئے بیان کرتا ہے۔
رہا زید کا انکار تو اس سلسلے میں شریعت کا قانون ہے : البینة علی المدعي والیمین علی من أنکر. (مشکاة المصابیح، باب الأقضیة والشھادات، الفصل الأول، ص:۳۲۶)
اس قاعدے کے مطابق اگر عورت کے پاس دو عادل مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ہو تو وہ اس صورت میں حاکم شرعی کے یہاں دعوی کرے اورعورت طلاق دینے پر گواہ پیش کرے تو اس کے حق میں فیصلہ ہوگا، یعنی تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی،گواہی نہ پیش کرنے کی صورت میں شوہر سے انکار پر حلف رکھا جائے گا، اگر شوہر قسم کھا کر کہہ دے کہ طلاق نہیں دی ہے تو اس کا انکار معتبر ہوگا، اور طلاق نہیں واقع ہوگی،اور اگر شوہر حاکم شرعی کے سامنے قسم سے انکار کرے تو طلاق ثابت مانی جائے گی.لیکن اگر عورت کے پاس شرعی گواہی نہ ہو تو شوہر کے انکار کی صورت میں طلاق ثابت نہ ہوگی۔ایسی عورت میں عورت کو اگر طلاق کا یقین ہے تو شوہر کوخلع پر راضی کرے یا اور کسی طرح طلاق لے اور کسی طرح طلاق پر راضی نہ ہو تو شوہر کو اپنے اوپر قابو نہ دے پھر اگر وہ جبر کرے تو معذور ہے۔
فتاوی رضویہ شریف میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ہے :
"اگرواقع میں تین طلاقیں دی ہیں عند ﷲ عورت اُس پر حرام ہوگئی، بے حلالہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی۔قالﷲتعالٰی :فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔اور اس کا انکار ﷲعزّوجل کے یہاں کچھ نفع نہ دے گا، ان گواہوں پر فرض ہے کہ گواہی دیں اگر اُن میں دومرد یا ایک مرد دو عورتیں ثقہ عادل شرعی ہوں، طلاق ثابت ہوجائے گی اور اس کا انکار دُنیا میں بھی نہ سُنا جائے گا اور اگر ان میں ایسے گواہ نہ ہوں اور عورت کے سامنے طلاق نہ دی ہو تو عورت اس سے حلف لے اگر وہ حلف لے کہ میں نے طلاق نہ دی تو عورت اپنے آپ کو اس کی زوجہ سمجھے اگر اُس نے حلف جُھوٹا کیا تووبال اس پرہے اور اگر خود زوجہ کے سامنے اُسے تین طلاقیں دیں اور منکر ہوگیا اور گواہ عادل نہیں تو عورت جس طرح جانے اس سے رہائی لے اگر چہ اپنا مہر چھوڑکر، یا اور مال دے کر، اور اگر وُہ یُوں بھی نہ چھوڑے تو جس طرح بَن پڑے اس کے پاس سے بھاگے اور اُسے اپنے اُوپر قابو نہ دے۔ اور اگر یہ بھی نہ ممکن ہو تو کبھی اپنی خواہش سے اس کے ساتھ زن وشو کا برتاؤ نہ کرے، نہ اس کے مجبور کرنے پر اس سے راضی ہو، پھر وبال اس پر ہے، لایکلّف ﷲنفسا الا وسعھا”
(فتاوی رضویہ ج۵ص٦۵۴)
مزید اسی میں ہے :
"بحالتِ اختلاف، طلاق کا ثبوت گواہوں سے ہوگا اور دو گواہ عادل شرعی شہادت بروجہِ شرعی اداکریں کہ اس شخص نے اپنی زوجہ کو طلاق دی طلاق ثابت ہوجائے گی ۔ پھر اگر شوہر نفی کے گواہ دے گا یا اس بات کے کہ مطلّقہ بعد طلاق اس سے بولی کچھ اصلاً مسموع نہ ہوگا، ہاں اگر عورت گواہ بروجہ شرعی نہ دے سکے تو شوہر پر حلف رکھا جائے گا اگر حلف سے کہہ دے گا کہ اُس نے طلاق نہ دی طلاق ثابت نہ ہوگی اور اگر حاکمِ شرعی کے سامنے حلف سے انکار کرے گا تو طلاق ثابت مانی جائے گی ۔” (فتاوی رضویہ ج۵ ص٦٦٩).
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی
التصحیح :محمد نظام الدین قادری دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی
٢٥اگست ٢٠٢٣/ ٠٧ صفر ١٤٤٥ھ.