جس جانور کی ساتھ بدفعلی کی گئی ہو تو اس جانور کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟
سائل : محمد ناصر مدنی فیصل آباد
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
جس جانور کے ساتھ بدفعلی کی گئی ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ جانور کو ذبح کر کے اس کے گوشت کو جلا دیا جائے اور اس کو پالا نہ جائے اس لئے کہ ایسے جانور کو زندہ رکھ کر یا اُسے ذبح کرکے اس سے نفع حاصل کرنا مکروہ ہے۔
چنانچہ تنویر الابصار مع درمختار میں ہے :
"(و) لایحد بوطی (بھیمۃ) بل یعزر و تذبح ثم تحرق و یکرہ الانتفاع بھا حیۃ و میتۃ”
یعنی اور حیوان سے بدفعلی کرنے پر حد نہیں لگائی جائے گی بلکہ اس پر تعزیر لگائی جائے گی اور جانور کو ذبح کیا جائے گا پھر اسے جلا دیا جائے گا اور اس جانور سے مردہ یا زندہ حالت میں نفع حاصل کرنا مکروہ ہے۔
اس کے تحت عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر عبدالعزیز عابدین شامی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"وھذا اذا کانت مما لایؤکل، فان کانت تؤکل جاز اکلھا عندہ۔ و قالا : تحرق ایضا، فان کانت الدابۃ لغیر الواطئ یطالب صاحبھا ان یدفعھا الیہ بالقیمۃ ثم تذبح”
یہ حکم اس وقت ہے جب جانور اس میں سے ہو کہ جس کو کھایا نہ جاتا ہو، پس اگر اس کو کھایا جاتا ہو تو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کو کھانا جائز ہے اور صاحبین نے فرمایا : اس کو بھی جلا دیا جائے گا، پس اگر جانور بدفعلی کرنے والے کے علاوہ کا ہو تو جانور کا مالک پہلے بدفعلی کرنے والے سے اس جانور کی قیمت کی ادائیگی کا مطالبہ کرے گا، پھر اسے ذبح کرے گا۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الحدود، باب الوطئ الذی یوجب الحد و الذی لایوجبہ، مطلب : فی وطء الدابۃ، جلد 6، صفحہ 41، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"نابالغ کو تنبیہ کریں، بالغ پر تعزیر ہے جس کا اختیار حاکم کو ہے، وہ جانور (جس سے بدفعلی کی گئی ہے، اسے) ذبح کرکے فنا کر دیا جائے، گوشت کھال جلائیں، پالا نہ جائے۔”
(فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 627، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"مرد نے چوپایہ سے وطی کی یا عورت نے بندر سے کرائی تو دونوں کو سزا دینگے اور اوس جانور کو ذبح کر کے جلا دیں، اوس سے نفع اوٹھانا مکروہ ہے۔”
(بہارشریعت، جلد 2، حصہ 9، صفحہ 380 مکتبۃ المدینہ کراچی)
مفتی ابوالخیر محمد نوراللہ نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"باقی اس بھینس (کہ جس کے ساتھ بدفعلی کی گئی ہے، اس) کے متعلق یہ چاہیے کہ اس کی منصفانہ قیمت اس لڑکے سے وصول کی جائے اور اس کو ذبح کر کے جلا دیا جائے اور کوئی کھانے وغیرہ کا نفع نہ اٹھایا جائے اور اس لڑکے کو قانون کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے کچھ زد و کوب کریں کہ آئندہ ایسے برے فعل کے نزدیک نہ جائے۔”
(فتاویٰ نوریہ، جلد 2، صفحہ 210، ناشر دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیرپور ضلع اوکاڑہ)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی