اپنی قربانی کے لیےجانور خریدنے کے بعد اس میں دوسروں کو شریک کرنا کیسا ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے علماء ذوی الاحترام مسئلہ ذیل کے متعلق کہ ہمارے وہاں حصے والی قربانی کا طریقہ کار یہ ہے کہ ایک شخص جانور خریدتا ہے اپنے پیسے سے، پھر کچھ دن کھلانے کے بعد جنہیں اس میں حصہ لینا ہوتا ہے اس سے پیسے لے کر شامل کرتا ہے اور اپنا حصہ بھی قربانی کے لئے رکھتا ہے اور پیسہ اتنا متعین کر تا ہے کہ اتنے پیسے اسے مل جائیں جس سے جانور کی جو قیمت تھی اس سے زیادہ پیسے اسے مل جائیں اور اور اس طرح اس کی قربانی ہو جائے اور اسے منافع بھی مل جائے تو آیا اس طرح کرنا کیسا اور جو لوگ اس جانور میں شریک ہوئے اس کی قربانی ہوئی کہ نہیں؟ بینوا وتوجروا۔
محمد علقمہ اشرف۔
یکے از ابنائے قدیم : دارالعلوم علیمیہ ، بستی۔
الجواب:
اگر حصہ والی قربانی کے جانور کا خریدنے والا فقیر ہے، جس پر قربانی واجب نہیں، اور اس نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو اس میں دوسروں کو شریک نہیں کرسکتا، کیوں کہ فقیر اگر قربانی کی نیت سے جانور خریدے تو اس پر اسی معیّن جانور کی قربانی واجب ہوجاتی ہے۔
اور فقیر نے اس صورت میں اگر چھ لوگوں کو شریک کرلیا، تو فقیر کی قربانی ہوجائے گی اور اس کو اس جانور کے شرکاء کے چھ حصوں کا تاوان دینا ہوگا۔
اور اگر جانور کا خریدار ایسا مالک نصاب ہے، جس پر قربانی واجب ہے، تو اگر خریداری کے وقت ہی یہ نیت تھی کہ دوسروں کو شریک کروں گا تو بلا کراہت دوسروں کو شریک کرسکتا ہے۔ اور اگر خریداری کے وقت دوسروں کو شریک کرنے کی نیت نہ تھی تو دوسروں کو قربانی میں شریک کرنا مکروہ ہے،اس لیے کہ کسی جانور سے ادائے قربت کی نیت کرکے اس سے پِھر جانا ناپسندیدہ ہے۔لیکن چوں کہ بہ نیت قربانی خریدنے سے مالکِ نصاب پر اسی خاص جانور کی قربانی لازم نہیں ہے اس لیے وہ دوسروں کو شریک کرسکتا ہے۔ فتاوی عالم گیری میں ہے:
"وَلَوْ اشْتَرَى بَقَرَةً يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ بِهَا، ثُمَّ أَشْرَكَ فِيهَا سِتَّةً يُكْرَهُ وَيُجْزِيهِمْ؛ لِأَنَّهُ بِمَنْزِلَةِ سَبْعِ شِيَاهٍ حُكْمًا، إلَّا أَنْ يُرِيدَ حِينَ اشْتَرَاهَا أَنْ يُشْرِكَهُمْ فِيهَا فَلَا يُكْرَهُ، وَإِنْ فَعَلَ ذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا كَانَ أَحْسَنَ، وَهَذَا إذَا كَانَ مُوسِرًا، وَإِنْ كَانَ فَقِيرًا مُعْسِرًا فَقَدْ أَوْجَبَ بِالشِّرَاءِ، فَلَا يَجُوزُ أَنْ يُشْرِكَ فِيهَا، وَكَذَا لَوْ أَشْرَكَ فِيهَا سِتَّةً بَعْدَ مَا أَوْجَبَهَا لِنَفْسِهِ لَمْ يَسَعْهُ؛ لِأَنَّهُ أَوْجَبَهَا كُلَّهَا لِلَّهِ تَعَالَى، وَإِنْ أَشْرَكَ جَازَ، وَيَضْمَنُ سِتَّةَ أَسْبَاعِهَا”(فتاوی عالم گیری ج۵ ص٣٠۴)
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"قربانی کے لیے گائے خریدی،پھر اس میں چھ شخصوں کو شریک کر لیا ، سب کی قربانیاں ہو جائیں گی ، مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔ ہاں! اگر خریدنے ہی کے وقت اس کا یہ ارادہ تھا کہ اس میں دوسروں کو شریک کروں گا، تو مکروہ نہیں۔ اور اگر خریدنے سے پہلے ہی شرکت کر لی جائے تو یہ سب سے بہتر۔ اور اگر غیر مالک نصاب نے قربانی کے لیے گائے خریدی، تو خریدنے سے ہی اُس پر اُس گائے کی قربانی واجب ہوگئی اب وہ دوسرے کو شریک نہیں کرسکتا۔” (بہار شریعت ح١۵ ص ٣۵٣)
در مختار میں ہے:
(وَصَحَّ) (اشْتِرَاكُ سِتَّةٍ فِي بَدَنَةٍ شُرِيَتْ لِأُضْحِيَّةٍ) أَيْ إنْ نَوَى وَقْتَ الشِّرَاءِ الِاشْتِرَاكَ
(اسْتِحْسَانًا وَذَا) أَيْ الِاشْتِرَاكُ (قَبْلَ الشِّرَاءِ أَحَبُّ۔” انتہی ملتقطا (در مختارمع شامی ج٩ص۴۵٩)
علامہ شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"وَفِي الْهِدَايَةِ: وَالْأَحْسَنُ أَنْ يَفْعَلَ ذَلِكَ قَبْلَ الشِّرَاءِ لِيَكُونَ أَبْعَدَ عَنْ الْخِلَافِ وَعَنْ صُورَةِ الرُّجُوعِ فِي الْقُرْبَةِ اهـ” (رد المحتار ج٩ ص ۴۵٩)واللہ تعالی اعلم۔
اور جس صورت میں شریک کرنا جائز ہے ،اس صورت میں ظاہر یہ ہے کہ نفع لینا بھی جائز ہے، کیوں کہ یہ شریک کرنا بطورِ ہبہ نہیں ہوسکتا، کیوں کہ "مُشاع” (یعنی: غیر متعین حصہ) کا ہبہ کرنا صحیح نہیں (کما ہو مصرح فی عامة الکتب) تو یہ شریک کرنا بطور بیع ہوگا اور بیع عام طور پر نفع کے لیے ہوتی ہے۔ھذا ما ظہر لی،واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔یوپی۔٧/ذی الحجہ ١۴۴٣ھ//١٨/جولائی ٢٠٢١ء