نماز جنازہ کے بعد سلام پڑھنا کیسا ہے؟ از مفتی محمد طیب علیمی

نماز جنازہ کے بعد سلام پڑھنا کیسا ہے؟

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد سلام حضرت عرض خدمت یہ ہے کہ نماز جنازہ کے بعد سلام پڑھنا کیسا ہے؟
المستفتی ازہار علیمی ممبئی

الجواب بعون الملك الوهابـــــــــــــ

بسم الله الرحمن الرحيم
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
میت کو غسل دینے اس کی تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ یونہی تدفین میں جلدی کا حکم ہے ۔
حدیث شریف میں ہے: عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أسرعوا بالجنازة فإن تك صالحة فخير تقدمونها وإن يك سوى ذلك فشر تضعونه عن رقابكم۔

(صحيح البخاري کتاب الجنائز باب السرعة بالجنازة ص 176 مطبوعہ مجلس برکات مبارک پور )

عن سعيد المقبري عن أبيه أنه سمع أبا سعيد الخدري رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا وُضِعت الجَنَازَة واحْتَمَلَهَا الرجال على أَعْنَاقِهِم، فإن كانت صالحة، قالت: قَدِّمُونِي، وإن كانت غير صالحة، قالت: يا وَيْلها! أين تَذهبون بها؟ يسمعُ صوتها كل شيء إلا الإنسان، ولو سَمِعَه لصَعِق۔

(صحيح البخاري كتاب الجنائز باب حمل الرجال الجنازة دون النساء ص 175 مطبوعة مجلس بركات مبارک پور)

صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی علیہ الرحمہ بہار شریعت میں لکھتے ہیں: غسل و کفن و دفن میں جلدی چاہئے کہ حدیث میں اس کی بہت تاکید آئی ہے ۔ (ج 4 ص 809 مطبوعہ دعوت اسلامی)

اور فرماتے ہیں: جمعہ کے دن کسی کا انتقال ہوا تو اگر جمعہ سے پہلے تجہیز و تکفین ہوسکے تو پہلے ہی کرلیں اس خیال سے روک رکھنا کہ جمعہ کے بعد مجمع زیادہ ہوگا مکروہ ہے ۔ (ج 4 ص 840 مطبوعہ دعوت اسلامی)

مذکورہ حوالہ جات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مردے کی نماز جنازہ یا اس کی تدفین سے متعلق کسی بھی امر میں تاخیر مناسب نہیں ہے ۔ البتہ کسی معقول وجہ سے تاخیر ہو جائے تو اس کی بات الگ ہے ۔ رہا سوال نماز جنازہ کے بعد سلام پڑھنے کا، تو اس کا حکم یہ ہے کہ سلام پڑھنا اگر تدفین میں تاخیر کا باعث ہو تو بہ صراحت حدیث و فقہی جزئیات اس کی اجازت نہ ہوگی ۔ ہاں اگر کسی دوسری وجہ سے تدفین میں تاخیر ہو مثلا ابھی قبر تیار نہیں ہوئی ہے یا تختوں میں کچھ کمی ہے کہ خواہی نہ خواہی دس پانچ منٹ کی تاخیر ہوگی ہی ہوگی، تو سلام پڑھنے میں کچھ حرج نہیں ہے کہ پیارے آقا شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کی کثرت باعث برکت ہے اور شرع شریف میں امر محبوب و مرغوب ہے جس پر قرآن حکیم ناطق۔ ارشاد باری تعالی ہے: إن الله و ملئكته يصلون على النبي يا أيها الذين آمنوا صلوا عليه وسلموا تسليما ۔

(سورة الأحزاب آيت نمبر 56)

یہ آیت کریمہ اپنے اطلاق کے اعتبار سے کسی بھی وقت دورد و سلام پڑھنے کےلئے دلیل کافی و شافی ہے،چاہے فجر و عصر کے بعد ہو یا کسی اور نماز کے بعد ہو یا نماز جنازہ کے بعد ہو یا اذان سے پہلے ہو یا اذان کے بعد۔ یونہی دورد و سلام پڑھنا کسی بھی ہیئت پر ہو، چاہے بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر، آیت کا اطلاق سب کو شامل ہے ۔

لہذا نماز جنازہ کے بعد بھی سلام پڑھنے سے مطلقا منع نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ سلام کو اس قدر طول نہ دیا جائے جو تدفین میں تاخیر کا سبب بنے۔ ہاں! صفیں توڑ کر سلام پڑھا جائے اور نمازِ جنازہ کی صف کی ہیئت بدل دی جائے تاکہ کسی جاہل کو زیادت کا شبہہ نہ گزرے ۔

وہابیہ خذلہم اللہ بلا وجہ بہت سارے مقامات میں درود و سلام سے روکتے ہیں اور بدعت بتاتے ہیں،ان کے بہکاوے میں نہیں آنا چاہئے۔

بلکہ اس باب میں ایک مناسب صورت یہ ہے کہ نماز جنازہ ہوجانے کے بعد اگر تدفین میں کوئی مانع اور باعث تاخیر امر نہ ہو تو جنازہ رکھ کر صلوة سلام پڑھنے کے بجائے صلاة و سلام کے نغمات پڑھتے ہوئے جنازہ اٹھا کر چل دیں اور لحد تک یونہی پڑھتے جائیں تاکہ سلام کی بنا پر تدفین میں تاخیر بھی نہ ہو اور سلام کی برکتیں بھی حاصل رہیں ۔ اور اگر نماز کے بعد ایک آدھ بند سلام پڑھ لیں جو باعث تاخیر تدفین نہ ہو تو اس میں بھی حرج نہیں ۔

اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز مدخل کی ایک عبارت جس سے نماز جنازہ کے بعد مطلق دعا کی ممانعت کا شبہہ ہوتا ہے نقل کرکے فرماتے ہیں:
"دیکھو ان امام نے باآنکہ انکار حوادث میں مبالغہ شدیدہ رکھتے ہیں یہاں تک کہ بعض جگہ حد سے تجاوز واقع ہوگیا،کما نص علیہ الامام المحقق جلال الملۃ والدین السیوطی بعدنماز جنازہ میت کے لئے نفسِ دعا پر انکار نہ فرمایا بلکہ تطویلِ دعا کی ممانعت فرمائی کہ منافی تعجیل ہے”
(فتاوی رضویہ قدیم ج 4 ص21 مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)

نیز تحریر فرماتے ہیں:
"پس عبارات اسی منع تطویل دعاکی طرف راجع ہیں جس کے باعث امر تجہیز تعویق میں پڑے، ورنہ اگر کلماتِ یسیرہ کہے جائیں جیسا سوال میں مذکور یا ہنوز جنازہ لے چلنے میں کسی اورضرورت سے دیر ہو اور ایسی حالت میں دعائےطویل کرتے رہیں تو ہرگز زیرِمنع داخل نہیں کہ صورتِ اولٰی میں تاخیر ہی نہیں اور ثانیہ میں تاخیر بوجہ آخر ہے، نہ بغرضِ دعا۔ ولہذا فقہائے کرام نے "لایقوم للدعاء” فرمایا نہ ” لایدعو قائما” یا "لایدعو بعدھااصلا”
(فتاوی رضویہ قدیم ج4 ص 22 مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)

نیز تحریر فرماتے ہیں:
بالجملہ دُعائے مذکور کے جواز میں شک نہیں، ہاں دفعِ احتمالِ زیادت کو نقضِ صفوف کرلیں اسی قدر کافی ہے کہ اس کے بعد احتمالِ زیادت کا اصلاً محل نہیں ہے، جس طرح بعدِ ختمِ نمازِظہر ومغرب و عشاء ادائے سنن کے لئے مقتدیوں کو کسرِ صفوف مسنون، کہ اس کے بعد کسی آنے والے کو بقائے جماعت کا احتمال نہیں ہوسکتا”(فتاوی رضویہ قدیم ج 4 ص21 مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)

واللہ تعالی اعلم بالصواب

کتبہ محمد طیب دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی انڈیا
4 جمادی الاولی 1443ھ
الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری خادم درس و افتا دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی انڈیا

Leave a Reply