جائیداد کی تقسیم کا شرعی حکم کیا ہے ؟
الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ سوال بہت مجمل ہے اور بہت تفصیل طلب ہے ، مختصر یہ کی باپ کبھی جائیداد کی تقسیم اپنی زندگی میں کرتا ہے، کبھی اس کی وفات کے
بعد وارثین کرتے ہیں، باپ اگر اپنی زندگی میں اپنی اولاد میں تقسیم کرے تو حکم یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے سب کو برابر تقسیم کرے کسی کو کم
اور زیادہ نہ دے ۔ ارشاد رسالت ہے: "فاتقوا الله، واعدلوا بين اولادكم.”
اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں برابری کرو ۔
یہ افضل ہے اور یہ بھی جائز ہےکہ جتنا لڑکے کو دے اس کا نصف یعنی آدھا لڑکی کو دے ۔
اور اگر باپ کا انتقال ہو گیا اور اس نے اپنے اولاد میں صرف لڑکوں کو چھوڑا ہے ، بیوی اور بیٹی وغیرہ اس کا کوئی وارث نہیں تو ایسی صورت میں ہم
یہ حقیقت ترکہ میں جو بھی مال ہے وہ میت کے حقوق کی ادائیگی کے بعد ان کے درمیان برابرتقسیم ہوگا۔ اور اگر بیٹوں کے ساتھ بیٹی ہے ، تو
بٹوارہ اس طور پر ہوگا کہ ہر لڑکے کو جتنا ملے گا لڑکی کو اس کا آدھا ملے گا۔ اور اگر ان کے ساتھ ماں ،باپ بھی ہوں تو تقسیم کی صورت بدل جائے
گی ۔ آسان راستہ یہ ہے کہ جب کبھی جائیداد کی تقسیم کی حاجت در پیش ہو تو قریبی دارالافتا سے رجوع کرکے وارثوں کے حصے معلوم کرلیں ۔
والله تعالى اعلم بالصواب
کتبــــــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارک پور