جہیز سے متعلق ایک اہم مسئلہ

جہیز سے متعلق ایک اہم مسئلہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ ہم نے اپنی لڑکی کی شادی جون 2020ء میں کی تھی اور فروری2022ء میں اس کا انتقال ہوگیا ہمارے پاس ایک اور لڑکی ہے جو کہ شادی شدہ تھی جس کا جون 2021ء میں ہم نے کسی وجہ طلاق کروا کر جدائی حاصل کر لی تھی اس طلاق شدہ لڑکی سے ہم اپنی فوت شدہ لڑکی کے شوہر کے ساتھ نکاح چاہتے تھے اور لڑکا والوں سے ہم نے کہا بھی مگر لڑکا والوں نے انکار کردیا۔
اب سوال یہ ہے کہ لڑکا والوں سے جہیز میں دیا ہوا سامان واپس لے سکتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ ہماری لڑکی کا انتقال ہو چکا ہے اور مجھے دوسری لڑکی کی شادی بھی کرنی ہے لہذا ہمیں شریعت کی روشنی میں بتائیں کہ لڑکا والوں سے جہیز میں دیا ہوا سارا سامان ہمیں ملنا چاہیے یا نہیں؟ اور اگر لڑکا والے نہ دیں تو ہم قانونی مدد لے سکتے ہیں یا نہیں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔
المستفتی شوکت علی رضوی قادری
مقام پورے پہلوان حاجی پٹی ضلع سلطان پور یوپی
8 ربیع الاول 1444ھ مطابق پانچ اکتوبر نمبر 2022ء

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون اللہ الملک الوھاب

ہمارے یہاں بموقع شادی جہیز میں جو سامان دیا جاتاہے اس کی مالک لڑکی ہوتی ہے، اگرچہ شوہر یا سسرال کے دوسرے افراد اسے عرفی اجازت سے ان سامانوں استعمال کرتے ہیں، لیکن یہ استعمال کرنا محض آپسی رواداری اور ابنساط کے طور پر بطور عاریت ہوتا ہے۔ استعمال کرنے سے دوسرے افراد مالک نہیں ہوسکتے۔ لہذا خدا نخواستہ اگر طلاق ہوجائے تو شوہر یا سسرال کا کوئی بھی شخص جہیز کا کوئی بھی سامان روکنے یا لینے کا حق دار نہیں ہوسکتا،بلکہ سارا سامان جہیز اس لڑکی کو ہی ملے گا۔ اور اگر اس کی موت ہو جائے تو سارا سامان جہیز اس کا ترکہ قرار پائے گا جو ترکہ کے قوانین کے مطابق تقسیم ہوگا جس میں شوہر بھی حصہ دار ہوگا۔
واضح رہے موت کے بعد واپسی کا مطالبہ کوئی معنی ہی نہیں رکھتا اور بہ صورت طلاق و حیاتِ زوجہ جہیز کی واپسی کا مطالبہ صرف زوجہ ہی کر سکتی ہے کہ وہی اس کی مالک ہے کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔
امام اہل سنت سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ غیر منقسم ہندوستان کا عرف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "جہیز ہمارے بلاد کے عرف عام شائع سے خاص ملک زوجہ ہوتا ہے جس میں شوہر کا کچھ حق نہیں، طلاق ہوئی تو کل لے لے گی اور مرگئی تو اسی کے ورثہ پر تقسیم ہوگا۔ (فتاویٰ رضویہ شریف ج پنجم قدیم ص ٥٣٠ )
اور بالعموم پوری دنیا کا عرف بیان فرماتے ہیں:
"…اور شک نہیں کہ اب عامہ بلاد عرب و عجم کا عرف غالب و ظاہر وفاش و مشتہر مطلقاً یہی ہے کہ جہیز جو دلہن کو دیا جاتا ہے دلہن ہی کی ملک سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ جہیز کہتے ہی اسے ہیں جو اس وقت بطور تملیک دلہن کے ساتھ بھیجا جاتا ہے۔كما سبق من قول الدر والبحر والفتح والتجنيس والذخيرة أن الأب يدفع مثله جهازا لا عارية۔ ہمارے بلاد میں عموماً شرفاء اوساط و عامہ اراذل سب کا یہی عرف ہے۔جہیز واپس لینے یا بیٹی کے قرض میں محسوب کرنے کو سخت عیب موجب طعن سمجھیں گے تو یہاں علی العموم تملیک ہی مفہوم (فتاویٰ رضویہ شریف قدیم ج پنجم ص ٥٤٥)
رد المحتار فتاویٰ علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ میں ہے:
"كل احد يعلم أن الجهاز ملك المرأة لا حق فيه لاحد۔” ہر شخص جانتا ہے کہ جہیز عورت کی ملکیت ہے اس میں کسی دوسرے کا کوئی حق نہیں۔ (رد المحتار،باب النفقہ ج ٢ص ٦٥٣ مطبوعہ احیاء التراث العربی بیروت)
اور اسی میں ہے:
"كل احد يعلم ان الجهاز ملك المرأة ولا يختص بشيء منه وانما المعروف انه يزيد في المهر لتاتي بجهاز كثير ليزين به بيته وينتفع به باذنها و يرثه هو واولاده اذا ماتت كما يزيده في مهر الغنية لاجل ذلك لا ليكون الجهاز كله او بعضه ملكا له ولا ليملك الانتفاع به وان لم تاذن۔”
ہر شخص جانتا ہے کہ جہیز عورت کی ملکیت کے اور اس میں سے کوئی بھی چیز مخصوص نہیں۔ اور عرف یہ ہے کہ شوہر مہر میں محض اس لئے اضافہ کرتا ہے کہ عورت بہت سارا جہیز لے کر آئے جس سے وہ اپنے گھر کو آراستہ کرے اور اس کی اجازت سے لطف اٹھائے اور جب وہ مر جائے تو شوہر خود اور اس کی اولاد اس مال جہیز کے وارث بنیں۔ جس طرح کہ مال دار عورت کے مہر میں اسی مقصد سے وہ اضافہ کرتا ہے،اس لیے نہیں کہ کل جہیز یا کچھ جہیز اس کی ملکیت ہو جائے اور نہ ہی اس لئے کہ وہ جہیز سے نفع اٹھانے کا مالک ہو جائے اگرچہ عورت اس کی اجازت نہ دے (رد المحتار،باب النفقہ ج ٢ص ٦٥٣ مطبوعہ احیاء التراث العربی بیروت)
دوسرے کی ملکیت کا شبہ زائل کرتے ہوئے سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
"۔۔۔ہاں مرد بلکہ بحالت ہمخانگی ان کے والدین بھی بعض اشیاے جہیز مثل ظروف و فروش وغیرہا اپنے استعمال میں لاتے ہیں اور عرفا اس سے ممانعت نہیں ہوتی، اس کی بنا ملک شوہر یا والدین شوہر پر نہیں، بلکہ باہمی انبساط کہ زن و شو کے املاک میں تفاوت نہیں سمجھا جاتا،جیسے عورتیں بے تکلف اموال شوہر استعمال میں رکھتی ہیں اس سے وہ ان کی ملک نہ ہو گئے۔ عقود الدریہ کتاب الدعوی و کتاب الفرائض میں بحر الرائق سے ہے: لا يكون استمتاعها بمشريه و رضاه بذلك دليلا على أنه ملكها كما تفهمه النساء والعوام و قد افتيت بذلك مرارا۔ "{شوہر کی خریدی ہوئی چیز کا استعمال کرنا اور شوہر کا اس پر راضی ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ چیز عورت کی ملکیت ہو گئی جیسا کہ عورتیں اور عوام سمجھتے ہیں ، بارہا میں نے اسی پر فتویٰ دیا ہے}(فتاویٰ رضویہ شریف قدیم ج پنجم ص٥٣٠)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ چونکہ لڑکی کا انتقال ہو چکا ہے اس لئےگزشتہ تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے صورت مسئولہ میں سائل کو بحکمِ شریعت جہیز میں دیا ہوا سارا سامان نہیں ملے گا ۔ بلکہ اس مرحومہ کے جتنے بھی شرعی وارثین ہیں بشمول شوہر اور والد کے سب کو شریعت کے مقررکردہ حصوں کے مطابق جہیز اور اس کی ملکیت کی دیگر تمام چیزیں بطور میراث ملیں گی جس کی تفصیل شرعی وارثین کی تفصیل معلوم ہونے پر بیان کی جاسکتی ہے۔
اور سسرال والوں پر لازم ہے کہ عورت مرحومہ کی جملہ جائیداد بشمول سامان جہیز میں شرعی تقسیم وراثت کو جاری کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالیں ورنہ رب العالمین کی نافرمانی اور دیگر وارثوں کی حق تلفی کے جرم میں مبتلا ہوں گے ۔
ہاں! سائل جہیز کا نہیں بلکہ اپنی فوت شدہ بیٹی کے ترکہ کا مطالبہ جائز طریقے سے کرنے کا مجاز ہے جس میں جھوٹ دھوکہ فساد اور سازش غرضیکہ کسی بھی خلاف شرع امر کی آمیزش نہ ہو۔
البتہ فریقین کے لئے نصیحت ہے کہ آپسی صلح و مصالحت کے ذریعے شرعی طریقے سے معاملات ختم کر لیں اور کورٹ جانے کا خیال ہرگز نہ رکھیں، کہ اس میں فریقین کے لئے بے شمار زحمتیں ہیں اور لمبے عرصے تک دونوں کے مال اور وقت کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم وہو الھادی الی سبیل الرشاد۔

کتبہ : محمد طیب علیمی
دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی ٩/ربیع الاول شریف ١٤٤٤ھ

الجواب صحیح : محمد نظام الدین قادری
خادم افتا و درس دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی

Leave a Reply