جہیز کا مطالبہ جبکہ شوہر کرتا ہے تو اس کا مالک کیوں نہیں ہوتا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جہیز کا مطالبہ جبکہ شوہر کرتا ہے تو اس جہیز کا مالک شہر کیوں نہیں ہوتا؟ بینوا و توجروا.
الجوابــــــــــــــــــــــ
جہیز سب عورت کا ہوتا ہے دوسرے کا اس میں کوئی حق نہیں. اس لیے کہ عورت اس کی مالک مستقل ہوتی ہے جیسا کہ ردالمختار جلد دوم صفحہ 319 میں ہے ” کل احد یعلم ان الجھاز للمراءۃ وانہ اذا طلقھا تاخذہ کلہ واذا ماتت یورث عنھا. ١ھ. اور سیدنا اعلی حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ اسی طرح سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : زیور وغیرہ جہیز کہ زید نے اپنی بیٹی کو دیا خاص ملک دختر ہے. شوہر کو کسی طرح کا استحقاق مالکانہ اس میں نہیں. نہ اس کا تصرف بے رضا. واذن زوجہ ہوسکے.
فی الدر المختار جھز ابنتہ بجھاز وسلمھا ذلک لیس لہ الاسترداد منھا ولا لورثتہ بعد ان سلمھا ذلک فی صحتہ بل تختص بہ وبہ یفتی ”
علامہ شامی فرماتے ہیں ” کل احد یعلم ان الجھاز ملک المراءۃ لا حق لاحد فیہ ١ھ. (فتاوی رضویہ جلد پنجم صفحہ ٥٢٢)
اور فرماتے ہیں شک نہیں کہ اب عامہ بلاد عرب و عجم کا عرف غالب و ظاہر وفاش و مشتہر مطلقا یہی کی جہیز جو دلہن کو دیا جاتا ہے دلہن کی ملک سمجھا جاتا ہے بلکہ جہیز کہتے ہی اسے ہیں جو اس وقت بطور تملیک دلہن کے ساتھ بھیجا جاتا ہے (فتاویٰ رضویہ جلد 15 صفحہ 545)
لہذا جہیز کی مالک عورت ہی ہوتی ہے شوہر نہیں ہوتا اگرچہ وہ جہیز کا مطالبہ کرتا ہے جیسے کہ مسجد کا متولی چندہ کا مطالبہ کرتا ہے مگر اس کا مالک نہیں ہوتا. البتہ کپڑا روپے وغیرہ جو کہ دلہن کی طرف سے دولہا کے مکان پر بطور لگن آتا ہے دولہا بعد قبضہ اس کا مالک ہوجاتا ہے اس میں یہی عرف عام ہے اگرچہ کہنے میں رواج مختلف ہے. ایسا ہی فتاوی رضویہ جلد پنجم صفحہ ٥٦١ پر ہے.
واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ : مفتی سمیر الدین حبیبی مصباحی
الجواب صحیح : مفتی جلال الدین احمد الامجدی