استخارہ کا صحیح طریقہ کیا ہے / استخارہ کیسے کیا جاتا ہے ؟

استخارہ کا صحیح طریقہ کیا ہے / استخارہ کیسے کیا جاتا ہے ؟

استخارہ کا معنی طریقہ کار تفصیل سے بیان کر دیں !! اور کیا کسی اور سے استخارہ کروا سکتے ہیں ؟ اور یہ کیوں کروایا جاتا ہے ? وضاحت درکار ہے براہ کرم تفصیلات بتا دیجیے ؟
(سائل محمد صابر علی لاہور)

الجـــــوابــــــــــــ بعون الملک الوھّاب

استخارہ کرنا جائز ہے اور حدیثِ مبارکہ سے ثابت بھی ہے اس کا معنی ہے خیر مانگنا یا کسی سے بھلائی کا مشورہ کرنا نیز کسی اور سے بھی استخارہ کروانا جائز ہے شرعاً کوئی حرج نہیں ہے اگر خواب میں کچھ نظر نہ آئے تو سات دن تک استخارہ کرنا بہتر ہے، مکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی ٹائم استخارہ کرنا جائز ہے-

جماعت محدثین نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا، فرماتے ہیں، کہ نبی کریم ﷺ ہم کو تمام امور میں استخارہ کی تعلیم فرماتے، جیسے قرآن کی سُورت تعلیم فرماتے تھے(حدیث شریف میں ہے) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ کُلِّهَا کَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ يَقُولُ إِذَا هَمَّ أَحَدُکُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْکَعْ رَکْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ ثُمَّ لِيَقُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِيمِ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِکْ لِي فِيهِ وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ کَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي قَالَ وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ–

یعنی: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں اپنے تمام معاملات میں استخارہ کرنے کی اسی طرح تعلیم دیتے تھے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھلاتے۔ آپ ﷺ فرماتے کہ جب کوئی اہم معاملہ تمہارے سامنے ہو تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے (اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَ اَسْأَ لُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَ تَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ اَوْقَالَ عَاجِلِ اَمْرِی وَاٰجِلِہٖ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِـبَۃِ اَمْرِیْ اَوْ قَالَ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَاٰجِلِہٖ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہٖ–

(یعنی: اے اللہ عزوجل میں تجھ سے استخارہ کرتا ہوں، تیرے علم کے ساتھ اور تیری قدرت کے ساتھ طلب قدرت کرتا ہوں، اور تجھ سے تیرے فضل عظیم کا سوال کرتا ہوں، اس لیے کہ تو قادر ہے اور میں قادر نہیں، اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا، اور تو غیبوں کا جاننے والا ہے، اے اللہ عزوجل اگر تیرے علم میں یہ ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے میرے دین و معیشت اور انجام کار میں یا فرمایا اس وقت اور آئندہ میں تُو اس کو میرے لیے مقدر کر دے اور آسان کر پھر میرے لیے اس میں برکت دے اور اگر تو جانتا ہے کہ میرے لیے یہ کام برا ہے میرے دین و معیشت اور انجام کار میں یا فرمایا اس وقت اور آئندہ میں تو اس کو مجھ سے پھیر دے اور مجھ کو اس سے پھیر اور میرے لیے خیر کو مقرر فرما جہاں بھی ہو پھر مجھے اس سے راضی کر–
(صحیح البخاری، رقم، 1162)

(مرآۃ المناجیح میں ہے) کہ استخارہ کے معنی ہیں خیر مانگنا یا کسی سے بھلائی کا مشورہ کرنا، چونکہ اس دعا و نماز میں بندہ الله سے گویا مشورہ کرتا ہے کہ فلاں کام کروں یا نہ کروں اسی لیے اسے استخارہ کہتے ہیں- بشرطیکہ وہ کام نہ حرام ہو نہ فرض و واجب اور نہ روزمرہ کا عادی کام۔ لہذا نماز پڑھنے، حج کرنے یا کھانا کھانے، پانی پینے پر استخارہ نہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کام کا پورا ارادہ نہ کیا ہو صرف خیال ہو جیسے کوئی کاروبار، شادی بیاہ، مکان کی تعمیر وغیرہ کا معمولی ارادہ ہو اور تردد ہو کہ نہ معلوم اس میں بھلائی ہوگی یا نہیں تو استخارہ کرے–
(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد2، حدیث 1323- نعیمی کتب خانہ گجرات)
(بہار شریعت میں ہے) بہتر یہ ہے کہ سات بار استخارہ کرے کہ ایک حدیث میں ہے، اے انس جب تو کسی کام کا قصد کرے تو اپنے رب عزوجل سے اس میں سات بار استخارہ کر پھر نظر کر تیرے دل میں کیا گذرا کہ بیشک اُسی میں خیر ہے، اور بعض مشایخ سے منقول ہے کہ دُعائے مذکور پڑھ کر باطہارت قبلہ رُو سو رہے اگر خواب میں سپیدی(سفیدی) یا سبزی دیکھے تو وہ کام بہتر ہے، اور سیاہی یا سُرخی دیکھے تو بُرا ہے، اس سے بچے، استخارہ کا وقت اس وقت تک ہے کہ ایک طرف رائے پوری جم نہ چکی ہو-

استخارہ میں اپنی حاجت کا ذکر کرے خواہ بجائے(ھٰذَا الْاَمْر کے حاجت کا نام لے یا اُس کے بعد اَوْ قَالَ عَاجِلِ اَمْرِیْ میں اَوْ شک راوی ہے، فقہا فرماتے ہیں، کہ جمع کرے یعنی یوں کہے۔وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ وَعَاجِلِ اَمْرِیْ وَاٰجِلِہٖ- حج اور جہاد اور دیگر نیک کاموں میں نفس فعل کے لیے استخارہ نہیں ہوسکتا، ہاں تعیین وقت کے لیے کرسکتے ہیں-

نوافل میں کونسی سورتیں پڑھیں

(مستحب یہ ہے کہ پہلی رکعت میں، قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَ اور دوسری میں قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ پڑھے اور بعض مشائخ فرماتے ہیں، کہ پہلی میں وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُؕ یُعْلِنُوْنَ تک اور دوسری میں وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ آخر آیت تک بھی پڑھے-
(بہار شریعت حصہ4، صفحہ682- مکتبۃ المدینہ)

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم ﷺ

کتبـــــــہ :ابورضا محمد عمران عطاری متخصص فی الفقہ

Leave a Reply