اسلام میں کس تاریخ کا اعتبار کیا جاتا ہے شمسی یا قمری ؟
کیا فرماتے علماے کرام ومفتیان ذوی الاحترام کہ: اسلام میں کس تاریخ کا اعتبار کیا جاتا ہے شمسی یا قمری ؟
اور متوفی عنہا زوجھا کی عدت کیا ہے اس کا تعین کس طرح کیا جاے؟
ایسے ہی کبر سنی یا صغر سنی کی وجہ سے جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ان کے طلاق کی عدت کیا ہے اور اس کی تعیین کی تفصیل کیا ہے ؟
اور کفارہ صوم میں کیا تفصیل ہے بحوالہ جواب عنایت فرماکر عند اللہ موجور ہوں۔
بسم الله الرحمٰن الرحیم
الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شریعتِ طاہرہ میں قمری تاریخ کا اعتبار ہے نہ کہ تاریخ شمسی وغیرہ کا اس لیے مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ اپنے کار وبار ، لین دین ، زکاۃ اور تمام احکام اسلام میں عربی اور قمری تاریخ ہی کا اعتبار کریں ۔
ارشاد باری تعالٰی ہے :
"یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِؕ قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّؕ”اھ
ترجمئہ کنزالایمان : تم سے نئے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ تم فرمادو،یہ لوگوں اور حج کے لئے وقت کی علامتیں ہیں ۔
(القمرآن الکریم: السورۃ: البقرۃ،آیت: ١٨٩ پارہ: ١)
مدارک التنزیل میں ہے:
” مواقیت للناس والحج ای معالم یوّقت بھا الناس مزارعھم ومتاجرھم ومحال دیونھم وصومھم وفطرھم وعدۃ نسائھم وایام حیضھن ومدۃ حملھن وغیر ذلک ومعالم للحج یعرف بھا وقتہ” اھ
ترجمہ : مواقیت للناس والحج یعنی علامات جن سے لوگ اپنی مزارعت، اجارہ، قرض اور دیون کی ادائیگی ، روزہ، افطار ، عورتوں کی عدت، حیض کے ایام اور حمل کی مدت وغیرہ کا وقت معلوم کریں گے اور حج کی علامات جن سے لوگ اس کا وقت پہچان سکیں گے ۔
(مدارک التنزیل تفسیر نسفی : ج: 1ص: 97)
ارشادِ باری تعالٰی ہے :
"اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ”اھ
ترجمئہ کنزالایمان:
بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہ سیدھا دین ہے۔
(القرآن الکریم : السورۃ: التوبة، آیت: ٣٦)
معالم التنزیل میں ہے :
” المراد منہ الشھور الھلالیۃ وھی الشھور اللتی یعتد بھا المسلمون فی صیامھم وحجھم واعیادھم وسائر امورھم ” اھ
ترجمہ : اس سے مراد قمری مہینے ہیں اور ان مہینوں کے ذریعہ مسلمان اپنے روزوں، حج، عیدوں اور تمام امور کا حساب لگاتے ہیں ۔
(معالم التنزیل علی ھامش تفسیر الخازن : ج: 3، ص: 89، مصطفیٰ البانی مصر)
تفسیر نسفی میں ہے :
"المراد بیان ان احکام الشرع تبتنی علی الشھور القمریۃ المحسوبۃ بالاھلۃ دون الشمسیۃ "اھ
ترجمہ : مراد یہ ہے کہ شرعی احکام قمری مہینوں پر مبنی ہیں جو چاند کے حساب سے ہوتے ہیں شمسی مہینوں پر نہیں ۔
(مدارک التنزیل : ج: 2، ص: 125، دارالکتاب العربی بیروت )
متوفی عنہا زوجھا کی عدت کیا ہے اس کا تعین کس طرح کیا جاے؟
متوفٰی عنھا زوجھا اگر حمل والی ہے تو اس کی عدت وضع حمل ہے ۔
ارشاد باری تعالٰی ہے :
"اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّؕ”اھ
ترجمئہ کنزالایمان: اور حمل والیوں کی میعاد یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جَن لیں ۔
(القرآن الکریم : السورۃ : الطلاق، آیت: 4، پارہ 28)
اور اگر حمل والی نہیں ہے تو اس کی عدت قمری مہینے سے چار ماہ دس دن ہے ۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:
” وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ” اھ
ترجمئہ کنزالایمان :
اور تم میں سے جو مرجائیں اور بیویاں چھوڑیں تو وہ بیویاں چار مہینے اوردس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔
(القرآن الکریم :السورۃ البقرۃ : 234، پارہ : 2)
چار ماہ دس دن کا تعین کس طور پر کرنا ہے اس کی تفصیل یہ ہے : اگر عدت کی شروعات چاند کی پہلی تاریخ سے ہو تو پورے چار ماہ دس دن ہے اگر چہ ان میں سے کچھ مہینے انتیس ہی کے کیوں نہ ہوں ۔ لیکن اگر عدت کی شروعات درمیان ماہ سے ہو تو ایک سو تیس دن عدت گزارنا واجب ہوگا۔ فتاوی رضویہ میں ہے :
"حاملہ کی عدت وضع حمل ہے مطلقہ ہو یا بیوہ، اور غیر حاملہ بیوہ کی عدت اگر خاوند مہینے کی پہلی شب یا پہلی تاریخ میں مرا اگر چہ عصر کے وقت، چار مہینے دس دن یعنی چار ہلال اور اس پانچواں ہلال پر وقت وفات شوہر کے اعتبار سے دس دن کامل اور گزر جائیں۔ اور پہلی تاریخ کے سوا اور کسی تاریخ میں مرا تو ایک سو تیس دن کامل لئے جائیں”اھ ایسے ہی بہار شریعت میں ہے ۔
(الفتاوی الرضویہ : ج: 13، ص: 294-295/ بہار شریعت : ج: 2، ح: 8، ص: 238)
جن عورتوں کو کبر سنی یا صغر سنی کی وجہ سے حیض نہیں آتا ان کے طلاق کی عدت تین ماہ ہے ۔
ارشادِ باری تعالٰی ہے:
” وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ” اھ
ترجمئہ کنزالایمان:
اور تمہاری عورتوں میں جنہیں حیض کی امید نہ رہی اگر تمہیں کچھ شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی جنہیں ابھی حیض نہیں آیا۔
(القرآن الکریم : السورۃ : الطلاق، آیت: ٤، پارہ ٢٨)
مذکوہ تین ماہ کس طرح گزارنا ہے اس کی تفصیل یہ ہےاگر عدت کی ابتدا چاند کی پہلی تاریخ سے ہو تو مکمل تین ماہ اگر چہ ان میں سے کوئی ماہ انتیس کا ہو اور اگر عدت کی ابتدا درمیان ماہ سے ہو تو پورے نوے دن ہے۔ فتاوی ہندیہ وغیرہ میں ہے:
” فان اتفق ذلک فی غرۃ الشھر اعتبرت الشھور بالاھلۃ وان نقص العدۃ عن ثلاثین یوما، وان اتفق ذلک خلافہ فعند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالٰی واحدی الروایتین عن ابی یوسف رحمہ الله تعالٰی یعتبر فی ذلک عددالایام تسعون یوما فی الطلاق. وفی الوفاۃ یعتبر مائۃ وثلاثون یوما کذا فی المحیط” اھ
(الفتاویٰ الھندیۃ : ج: 1،ص: 527، کتاب الطلاق، الباب : الثالث عشر فی العدۃ/ الجوھرۃ والنیرۃ: ص: 96، کتاب العدۃ ، الجزء الثاني )
روزہ کا اور اسی طرح ظہار کا کفارہ اگر روزہ سے ادا کرنا چاہے تو مسلسل دوماہ روزہ رکھنے سے کفارہ صوم وکفارہ ظہار ادا ہوگا ۔ اس کی تفصیل بہار شریعت میں یہ ہے ۔ اگر روزہ (چاند کی) پہلی تاریخ سے رکھے تو دوسرے مہینہ کے مکمل ہونے پر کفارہ ادا ہوجاے گا اگر چہ دونوں مہینے انتیس کے ہوں ۔اور اگر پہلی تاریخ سے نہ رکھے ہوں تو ساٹھ پورے رکھنے ہوں گے۔ اور اگر پندرہ روزے رکھنے کے بعد چاند ہوا پھر اس مہینے کے روزے رکھ لیے اور یہ انتیس دن کا مہینہ ہو اس کے بعد پندرہ دن اور رکھ لے کہ انسٹھ دن ہوئے جب بھی کفارہ ادا ہوجاے گا۔
درمختار میں ہے :
” صام شھرین ولو ثمانیۃ وخمسین بالھلال والا فستین یوما ” اھ
اس کے تحت ردالمحتار میں ہے :
” حاصلہ انہ اذا ابتداء الصوم فی اول الشھر کفارہ صوم شھرین تامین او ناقصین، وکذا لو کان احدھما تاما والآخر ناقصا. قولہ "والا” ای : وان لم یکن صومہ فی اول الشھر برویۃ الھلال بان غم او صام فی اثناء الشھر فانہ یصوم ستین یوما. وفی کافی الحاکم : وان صام شھرا بالھلال تسعۃ وعشرین وقد صام قبلہ خمسۃ عشر وبعدہ خمسۃ عشر یوما اجزأه” اھ
(الدرالمختار مع ردالمحتار : ج: 5، ص: 140، کتاب الطلاق، باب الکفارۃ )
واللہ تعالٰی اعلم
عبدالقادر المصباحی الجامعی
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
مقام : مہیپت گنج، ضلع : گونڈہ، یو پی، انڈیا
١٨ جمادی الاوّل ١٤٤٣ھ