ارتداد کی روک تھام کے لئے جدوجہدکی ضرورت ہے
حضورتاجدارختم نبوت ﷺکافرمان عالی شان
حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ وَہْبٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّہِ، قَالَ:قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِی أَثَرَۃً وَأُمُورًا تُنْکِرُونَہَا قَالُوا:فَمَا تَأْمُرُنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ۔
ترجمہ : حضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:عنقریب تم میرے بعد ایسی نشانیاں اور ایسے امور دیکھو گے جسے تم منکر سمجھو گے لوگوں نے کہا کہ یارسول اللہ ﷺ!آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟فرمایا :تم لوگوں کو ان کا حق دے دواور اپنا حق اللہ سے ما نگو۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۹:۴۷)
آج امت بے شمار فتنوں کا سامنا کر رہی ہے ایک سے ایک منکر کام سامنے آرہا ہے بے حیائی ،بے حجابی، رشوت ،لوٹ کھسوٹ سودخوری ،بے ایمانی ظلم و زیادتی، عیاری ،مکاری، دغا بازی، غیبت ،آپسی چپقلش ،استہزاء و مذاق اور ذمہ داریوں میں سستی و غیرہ غرضیکہ آج امت بے شمار منکرات کا شکار ہے انہیں میں سے ایک ارتداد ہے بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ وقت کا سب سے بڑا منکر کام ارتدادہے۔
اہل اسلام کے لڑکے اور لڑکیاں ارتداد کا شکار کیسے ہو ئے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیایہ لڑکے اور لڑکیاں نادان تھے؟ یا اس کے پس پردہ کوئی اور بات ہے ؟لیکن ان تمام پر گفتگو سے پہلے ارتداد کا لغوی و شرعی معنی جان لینا ضروری ہے ۔
ارتداد کا لغوی اوراصلاحی معنی
الرجوع عن الشیء إلی غیرہ الرجوع عن دین الإسلام إلی الکفر، سواء بالنیۃ او بالفعل المکفر او بالقول و سواء قالہ استہزاء ً او عناداً او اعتقاداً۔
ترجمہ :الشیخ وہبہ الزحیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف لوٹ جانے کا نام ارتداد ہے ۔ارتداد کا اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہیں کہ دین اسلام سے کفر کی طرف لوٹ جانے کا نام ارتدادہے خواہ اس کی اس نے نیت کی ہو یا کفریہ کام کیا ہو یا بات کہی ہوچاہے وہ بات اس نے استہزاء کے طور پر کہی ہو یا بغض و عناد کے طور پر یا اعتقادی طور پر۔
(الفقہ الاسلامی و ادلتہ للزحیلی(۷:۵۵۷۶)
فتنہ ارتداد میں مبتلاء لوگوں میں دین دشمنی کے مختلف زاویئے
فتنہ ارتداد میں مبتلاء لوگوں میں ہرایک فرد تفسیر بالرائے، انکارِ اِجماع، انکارِ سزائے ارتدادو رجم، اقدامی جہاد کے انکاراور تصوف واہل تصوف کے استہزاء میں بعینہ غامدی اصغر ہے۔
اِن افکار کا یقینی نتیجہ مذہب بیزاری، دینی تشکیک وتذبذب، تمام امت اسلامیہ کی تجہیل اور تحمیق اور قدیم علماء امت اور حاملین دین کو ناقابل اعتماد مجرم قرار دینا اور اسلام کی پوری تاریخ تاریک در تاریک دِکھلانا ہے۔ ان لبرل کے وضع کردہ فہم دین کے اُصولوں کے نتیجے میں کیا کچھ ہمارے ہاتھ سے جاتا ہے؟ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم کی تفسیر وتشریح میں جو کچھ صاحبِ قرآن ﷺنے فرمایا وہ ناقابل اعتبار ٹھہرا کہ قرآن سمجھنے کا مدار فقط عربی دانی ہے۔ اقوالِ صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم ، تشریحاتِ مفسرین اور فقہاء کرام کے قرآن سے اخذ کردہ مسائل واحکام سب بیک جنبش قلم ناقابل التفات ٹھہرے۔ سنت رسول ﷺاور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم کی پابندی بھی غیر لازم ہوئی کہ سنت تو دین ابراہیمی کی روایت ہے۔
ارتداد کی یہ کوششیں نئی نہیں ہیں بلکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دور میں بھی مسلمانوں کو دین سے بر گشتہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔یہودیوںنے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے باہم طے کیا کہ صبح کو مسلمان ہوجائیںاور شام کو کافر ہو جا ئیںتاکہ مسلمانوں کے دلوں میں بھی اسلام کے بارے میں شک پیدا ہو کہ یہ لوگ قبول اسلام کے بعد دوبارہ اپنے دین میں چلے گئے ہیں تو ممکن ہے کہ اسلام میں ایسے عیوب اور خامیاں ہوں جو ان کے علم میں آئی ہوںاسی کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے اللہ تعالی نے فرمایا :
{وَقَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُوْٓا اٰخِرَہ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ}(۷۲){وَلَا تُؤْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَکُمْ قُلْ اِنَّ الْہُدٰی ہُدَی اللہِ اَنْ یُّؤْتٰٓی اَحَدٌ مِّثْلَ مَآ اُوْتِیْتُمْ اَوْ یُحَآجُّوْکُمْ عِنْدَ رَبِّکُمْ قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآء ُ وَاللہُ وٰسِعٌ عَلِیْمٌ}(۷۳)سورۃ آل عمران)
ترجمہ کنزالایمان :اور کتابیوں کا ایک گروہ بولا وہ جو ایمان والوں پر اترا صبح کو اس پر ایمان لاؤ اور شام کو منکر ہوجاؤ شاید وہ پھرجائیںاور یقین نہ لاؤ مگر اس کا جو تمہارے دین کا پیرو ہو تم فرمادو کہ اللہ ہی کی ہدایت ہدایت ہے(یقین کا ہے کا نہ لاؤ)اس کا کہ کسی کو ملے جیسا تمہیں ملا یا کوئی تم پر حجت لاسکے تمہارے رب کے پاس تم فرمادو کہ فضل تو اللہ ہی کے ہاتھ ہے جسے چاہے دے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔
عبداللہ بن ابی سرح کامرتدہونا
عَنْ عِکْرِمَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:کَانَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِی سَرْحٍ یَکْتُبُ لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَزَلَّہُ الشَّیْطَانُ، فَلَحِقَ بِالْکُفَّارِ، فَأَمَرَ بِہِ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُقْتَلَ یَوْمَ الْفَتْحِ، فَاسْتَجَارَ لَہُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَأَجَارَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نامی شخص حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاکاتب تھا، پھر شیطان نے اس کو بہکا لیا، اور وہ کافروں سے جا ملا توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فتح مکہ کے دن اس کے قتل کا حکم دیا، پھرحضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے اس کے لیے امان مانگی تو آپ ﷺنے اسے امان دی۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر السَِّجِسْتانی (۴:۱۲۸)