حروف کا صحیح تلفظ نہ کرنے والے کی امامت کا حکم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں
کہ مولانا حامد صاحب تقریباً سنہ ٢٠١٠ء سے چپاکھور کی جامع مسجد میں امام ہے، جب کچھ علمائے کرام نے ان کی اقتداء میں نماز ادا کی تو قرآت میں ایسی غلطی نظر آئی جس سے معنی میں فساد پایا جاتا ہے ۔
بعد ازیں علمائے کرام نے مشورہ کیا کہ عوام الناس کے درمیان امام صاحب کی غلطیوں کو بیان نہ کیا جائے کیونکہ ایک عالم دین کی غلطیوں کو عوام الناس کے درمیان بیان کرنا دیگر علماء کی بھی اہانت کا سبب ہے ،
بعد ازیں علمائے کرام امام صاحب کے پاس گۓ اور ان کی غلطیوں سے انہیں آگاہ کیا، تو امام صاحب نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ہم سدھار کرلینگے۔
لیکن اب تک انہوں نے اپنی قرآت درست نہیں کی، مزید یہ کہ امام صاحب امامت کے دوران ہی کچھ لوگوں سے رشتہ جوڑ لیے اور اسی رشتہ کی بناء پہ وہ متکبر ہوۓ ۔
امام صاحب کو آگاہ کرنے سے لیکر اب تک کسی بھی عالمِ دین نے ان کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھی ، کیونکہ یہ علمائے کرام باہر کہیں دوسری جگہ دینی خدمات انجام دے رہے تھے
اب تک جتنے علمائے کرام نے ان کی اقتداء میں نماز ادا کی ہیں، سبھوں نے اپنی اپنی نمازوں کا اعادہ کرلیا ہے۔
امام صاحب کو ان کی غلطیوں پہ آگاہ سے لیکر اب تک علمائے کرام مسجد کی کمیٹی اور امام صاحب کو آگاہ کرتے رہے، لیکن امام صاحب اور دیگر لوگوں نے علمائے کرام کے فرمان کو انسنی کردی۔
اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے علمائے کرام ایک دن نماز ظہر ادا کرنے مسجد پہونچے اور امام صاحب سے کہا
کہ آپ کی نظر میں ہم میں سے جو افضل ہے ان کو امامت کےلیے آگے بڑھائیے ،اس وقت بھی انہوں نے ان سنی کر دی اور جماعت قائم کرلی خود امامت کے مصلیٰ پہ کھڑے ہوگئے۔
تو اسی وقت علمائے کرام نے دوسری جماعت قائم کرلی۔
جب سارے لوگ نماز سے فارغ ہوۓ تو سوال کیا گیا
کہ کیا بیک وقت ایک ہی مسجد میں دو جماعت قائم کرنا درست ہے؟
اور اس امام صاحب کے پیچھے نماز کیوں نہیں ہوگی؟
اس پہ علمائے کرام نے جواباً ارشاد فرمایا کہ ان کی قرأت درست نہیں ہے جو کہ مفسد نماز ہے اور مفسد نماز ہونے کی بناء پہ دوسری جماعت قائم کر سکتے ہیں۔
بعد ازیں امام صاحب کے پیروکاروں نے علمائے کرام کو گالی گلوچ کی
اور مارنے کی بھی دھمکی دی،
امام صاحب کی غلطیاں کچھ اس طرح ہیں۔
انّا اعطینٰک الکوثر
کے بجائے
انا اتینک الکوسر ،
قل
کے بجاے
کل،
و لا الضالین
کے بجائے
ولا الدالین،
مفلحون
کے بجائے
مفلھون،
اور ترمیھم بحجارۃ من سجیل فجعلھم کعصف ماکول
کے بجائے
ترمیھم بھجارت من سجیل فجلھم کئاسف ماکول،، اور اسی طرح بہت سی جگہوں پہ اب دریافت طلب امر یہ ہے
١۔ کہ صورت مذکورہ میں امام صاحب (مولانا حامد صاحب) کی اقتداء میں نماز ہوگی یا نہیں
٢۔ اگر نہیں ہوگی تو ان نمازوں کا کیا حکم ہے جو ان کی اقتداء میں پڑھی گئی ہیں
٣۔ اور جو لوگ ان ساری غلطیوں کو جاننے کے باوجود ان کی اقتداء میں نماز پڑھے اور ان کی طرفداری کریں ان کے بارے کیا حکم ہے
٤۔ اور جن لوگوں نے علمائے کرام کو گالی ہے ان کے بارے کیا حکم ہے
٥۔ اور صورت مذکورہ میں بیک وقت ایک ہی مسجد میں دو جماعت قائم کرنا کیسا ہے؟
بینوا توجروا
المستفتیان علمائے چپاکھور پوسٹ ہاٹ بلرام پور آباد ہور ضلع کٹیہار بہار
الجواب
سوال میں مذکور مثالوں سے ظاہر یہ ہے کہ امام مذکور عام طور پر "ض” کو "د” ۔ اور "ح” کو”ھ” ۔ اور "ع” کو "ء” کی آواز میں پڑھتا ہے، اگر ایسا ہے تو اس کو امام بنانا جائز نہیں، بلکہ اس صورت میں اگر وہ تا حدِّ ادنی امید دن رات تصحیحِ حروف میں کوششِ بلیغ نہ کرتا رہے، تو خود اس کی اپنی نماز بھی نہ ہوگی، امام اہلِ سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز سے اس شخص کی امامت کے بارے میں سوال ہوا جو سورہ فاتحہ میں بجائے "الحمد” اور "الرحمن” اور "الرحیم” کے "الہمد” اور "الرھمٰن” اور "الرھیم” پڑھتا ہے تو آپ نے جواباً تحریر فرمایا:
"اُسے امام بنانا ہرگز جائز نہیں اورنماز اس کے پیچھے نادرست ہے کہ اگر وہ شخص ح کے ادا پر بالفعل قادر ہے اور باوجود اس کے اپنی بے خیالی یا بے پروائی سے کلمات مذکورہ میں ھ پڑھتا ہے ۔تو خود اس کی نماز فاسد وباطل ،اوروں کی اسکے پیچھے کیا ہوسکے،اور اگر بالفعل ح پر قادر نہیں اور سیکھنے پر جان لڑاکر کوشش نہ کی تو بھی خود اس کی نماز محض اکارت ، اور اس کے پیچھےہر شخص کی باطل، اور اگر ایک ناکافی زمانہ تک کوشش کر چکا پھر چھوڑ دی جب بھی خود اس کی نماز پڑھی بے پڑھی سب ایک سی ، اور اُس کے صدقے میں سب کی گئی، اور اگر برابر حد درجہ کی کوشش کئے جاتا ہے مگر کسی طرح ح نہیں لکلتی تو اُس کاحکم مثل اُمّی کے ہے کہ اگر کسی صحیح پڑھنے والے کے پیچھے نماز مل سکے اور اقتداء نہ کرے بلکہ تنہا پڑھے تو بھی اسکی نماز باطل ، پھر امام ہونا تو دوسرا درجہ ہے”
فتاوی رضویہ ج٣ص٩۴)
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
(٢) جو نمازیں امامِ مذکور کی اقتدا میں پڑھی گئیں اگر ان نمازوں میں بھی امامِ مذکور نے مفسدِ نماز قراءت کی تھی تو ان نمازوں کا دہرانا ضروری ہے۔ کیوں کہ مفسدِ نماز قراءت کی وجہ سے جب نمازیں نہیں ہوئیں تو فرض ان لوگوں کے ذمہ باقی ہے ۔
یہیں سے ظاہر ہوا کہ آبادی کے علماء نے امام صاحب کی اصلاح کی جو کوششیں کیں ان میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ سورش اور فتنہ سے عوام کو بچاتے ہوئے اور دیگر مصالح کی رعایت کے ساتھ جب تک جوازِ نماز کی حد تک امام مذکور کی قراءت صحیح نہ ہوجاتی کسی طرح ان کو امامت سے فوری طور پر روکنے کی کوشش کرتے اور اسی وقت عوام کو اصل مسئلہ سے بھی آگاہ کردینا چاہیے تھا ۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
(٣) (۴) جن لوگوں نے مسئلہ جاننے کے باوجود امامِ مذکور کی اقتدا میں نماز پڑھنا جاری رکھا اور ناحق ان امام کی طرف داری کی وہ سخت گنہگار ہیں ۔ اور جن لوگوں نے علمائے کرام کو گالی دی وہ سخت جفا کار اور گنہگار ہیں ان پر بہر حال صدق دل سے توبہ ضروری ہے، اور اگر نامزد گالی دی ہو تو ان سے معافی مانگنا بھی ضروری ہے۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
(۵) صورتِ مسئولہ میں اگر علمائے کرام مذکورہ امام کو نہ ہٹا سکیں تو دوسری جماعت قائم کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر فتنہ اور عوامِ اہل سنت میں سورش کا اندیشہ ہو تو امامِ مذکور کی عین جماعت کے وقت دوسری جماعت نہ قائم کریں، بلکہ بعد میں کریں تو بہتر ہے۔اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
"اگرکفروارتداد کے سوا اور کوئی وجہ ایسی ہو جس کے سبب اس کے پیچھے نماز باتفاق روایات باطل محض ہوتی ہو تو جب بھی یہ جماعت ثانیہ قطعاً جائز ہوگی، لما ذکرنا ان الجماعۃ الاولٰی لیست بجماعۃ فی الحقیقۃ لبطلان الصلاۃ بالاقتداء بالامام الاول ۔ لیکن اس فعل میں اگرکوئی غرض صحیح شرعی نہ ہو تو اس تقدیر پراس سے احترازاولٰی ہے،ختم جماعت کاانتظار کرکے اپنی جماعت کرلے۔وھذا کلہ ظاھر جدا، لاخفاء فیہ عند عقل سلیم وراء نبیہ”
(فتاوی رضویہ ج٣ص٣۴۵)
اور بہتر یہ ہے اس علاقہ ودیار میں کوئی ایسے بڑے عالمِ دین یا پیر جن کی بات آبادی کے لوگ تسلیم کرلیں اُن کے ذریعہ عوام کی فہمائش کی کوشش کرلی جائے، ہوسکتا ہے ان کی فہمائش سے مسئلہ سلجھ جائے اور بہ یک وقت ایک مسجد میں بہ یک وقت تفریقِ جماعت کی ظاہری خرابی سے نجات مل جائے ۔
واللہ الموفق لکل خیر۔ وھو سبحانہ وتعالی اعلم۔
ضروری تنبیہ سائل نے اپنے سوال میں امامِ مذکور کے بارے میں یہ بھی لکھا کہ "وہ متکبر ہوئے” ۔ بغیر دلیلِ شرعی کسی مسلمان کی طرف تکبر کی نسبت جائز نہیں ہے۔ تکبر کا تعلق قلب سے ہے اور قلب کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔جب تک خود آدمی اپنے دل کے حال کی خبر نہ دے ہم تکبر کا حکم نہیں لگاسکتے، کیوں کہ یہ بدگمانی ہے اور بد گمانی حرام۔
واللہ تعالی اعلم۔
کتبہ: محمد نظام الدین قادری، خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔یوپی۔
١٧/شوال المکرم ١۴۴٢ھ//٣٠/مئی ٢٠٢١ء
2 thoughts on “حروف کا صحیح تلفظ نہ کرنے والے کی امامت کا حکم”