ولد الزنا نماز پڑھائے تو اسکے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں ؟

ولد الزنا نماز پڑھائے تو اسکے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر ولد الزنا نماز پڑھائے تو اسکے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں ؟

سائل : محمد شفیق بہرائچ شریف، یوپی

بسم اللہ الرحمن الرحیم،

الجواب بعون الملك الوهاب

صورت مسئولہ میں نماز ہو جائے گی۔ولد الزنا کی امامت کا حکم یہ ہے کہ اگر حاضرین میں سے کوئی مسائل طہارت و نماز اس سے زیادہ جانتا ہو تو مکروہ تنزیہی ہے ۔ لیکن اگر وہی مسائل طہارت و نماز زیادہ جانتا ہو تو کوئی کراہت نہیں.

در مختار میں ہے
ویکرہ (تنزیھا) إمامة عبد و فاسق و أعمی إلا أن یکون أعلم القوم ۔

کتاب الصلوۃ باب الامامت( ص ٧٧ )دار الکتب العلمیہ بیروت

رد المحتار میں ہے
لکن مابحثه فی البحر صرح به في الإختیار حیث قال: ولو عدمت: أی علة الکراھة بأن کان الأعرابي أفضل من الحضری والعبد من الحر وولدالزنا من ولد الرشدۃ والأعمیٰ من البصیر فالحکم بالضد ۱ھ

کتاب الصلوٰۃ باب الامامت( ص ٢٩٩ )دار عالم الکتب ریاض

فتاویٰ عالمگیری میں ہے
وتجوز إمامة الأعرابي والأعمی والعبد وولد الزنا والفاسق کذا في الخلاصة. إلا أنھا تکرہ ھکذا في المتون

کتاب الصلوۃ باب الامامت (ص ٩٤ )دار الکتب العلمیہ بیروت

فتاوی رضویہ میں ہے : ولد الزنا کی امامت مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولی ہے جبکہ وہ سب حاضرین میں مسائل طہارت ونماز کا علم زائد نہ رکھتا ہو، في الدر المختار کرہ إمامة عبد وأعرابي و ولدالزنا الٰی قوله إلا أن یکون أعلم القوم۔ درمختار میں ہے غلام ،اعرابی، ولد الزنا کی امامت مکروہ ہے،البتہ اس صورت میں مکروہ نہیں جبکہ وہ دوسری قوم سے زیادہ صاحب علم ہو ۔

فتاویٰ رضویہ مترجم (ج ٦ ص ٤٥٨ )مطبوعہ مرکز اہلسنت برکات رضا

اسی طرح فتاوی فیض الرسول باب الامامت (ج ١ ص ٣٠٥ )دار الاشاعت فیض الرسول میں ہے۔

واللہ تعالی اعلم ورسولہ بالصواب،

کتبــــــــہ : مفتی منظورالقادری،خادم التدریس لدرجات العالیہ

دارالعلوم معین الاسلام چھتونہ میگھولی کلاں مہراجگنج یوپی۔

Leave a Reply