امام کے پیچھے قراءت ناجائز ہونے کااحادیث سے ثبوت

امام کے پیچھے قراءت ناجائز ہونے کااحادیث سے ثبوت

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایک شخص امام کے پیچھے قراءت کرتا ہے
۔
ظہر عصر نماز میں ۔ اپنے آپ کو سنی بھی کہتا ہے ۔ قراءت کے حوالے سے سے جو احادیث ہیں اس کا حوالہ پیش کرتا ہے ۔امام کی پیروی یقیناً وہ نہیں کر رہا
اس کو یہ بات بتائی جاتی ہے کہ حنفیوں کا یہی طریقہ ہے کہ امام کے پیچھے خاموش رہا جائے ۔ وہ حدیث مانگتا ہے ۔ کیا ایسے شخص کی نماز سنی امام کے پیچھے ہو گی ۔کیا فرماتے ہیں اس شخص کی نماز کے بارے میں؟

الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

بہت سارے سنی مثلاً امام شافعی علیہ الرحمہ کے مقلدین بھی امام کے پیچھے قراءت کرتے ہیں، اس لیے اگر سوال میں مذکور شخص شافعی مذہب والا ہے تو اس سے تعرض نہ کیا جائے۔اور اگر حنفی ہے تو اسے سمجھایا جائے کہ مذہبِ حنفی کی رو سے سرّی نماز میں بھی امام کے پیچھے قراءت ناجائز اور مکروہِ تحریمی ہے۔ہاں! سرّی نماز میں امام کے پیچھے قراءت مستحب ہونے کی بھی ایک روایت امام محمد رحمہ اللہ تعالی کی طرف منسوب ہے ،لیکن وہ ضعیف روایت ہے جس پر عمل جائز نہیں ہے۔ہم ذیل میں فتاوی رضویہ کا ایک مفصل اور مدلل فتوی نقل کرتے ہیں جس میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے بیش قیمت علمی افادات کے ساتھ متعدد صحیح اور مستند حدیثوں کی روشنی میں اس چیز کو ثابت کیا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کے لیے قراءت کی گنجائش نہیں ہے اور مخالفین کی طرف سے دلیل کے طور پر پیش کی جانے والی تمام حدیثوں کا شافی اور مسکت جواب بھی دیا ہے۔ تحریر فرماتے ہیں:

"مذہبِ حنفیہ دربارہ قرأتِ مقتدی عدمِ اباحت و کراہتِ تحریمیہ ہے۔ نماز سرّی میں روایتِ استحباب کہ حضرت امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ ﷲ تعالٰی علیہ کی طرف نسبت کی گئی محض ضعیف ، کما بسط المحقق علی الاطلاق فقیہ النفس مولٰنا کمال الملۃ والدین محمد رحمہ ﷲ تعالٰی، کما قالہ فی الدرالمختار۔
خود تصانیفِ امام محمد میں جا بجا عدمِ جواز مصرح ،’آثار میں فرماتے ہیں یہی مذہب ہمارا مختار اور اسی پر عامہ حدیث و اخبار وارد ، اور فرمایا ایک جماعتِ صحابہ رضوان ﷲ تعالٰی علیہم اجمعین قرأتِ مقتدی کو مفسدِ نماز کہتی ہے۔ اور اقوی الدلیلین پر عمل کرنے میں احتیاط ہے۔مؤطا میں بہت آثار روایت فرمائے جن سے عدمِ جواز ثابت ۔قالہ الشیخ مولٰینا عبدالحق المحدث الدہلوی قدس ﷲ سرہ العزیز فی اللمعات۔
با ایں ہمہ خلافِ تصریحاتِ امام ، ایک روایتِ مرجوجہ مجروحہ سے نمازِ سری میں جواز خواہ استحباب قراءت اُن کا مذہب ٹھہرانا اور فقہ حنفی میں اس کا وجود سمجھنا محض باطل و وہم عاطل۔

ہمارے علمائے مجتہدین بالاتفاق عدمِ جواز کے قائل ہیں اور یہی مذہب جمہور صحابہ و تابعین کا ہے حتّی کہ صاحبِ ہدایہ امام علامہ برہان الملۃ والدین مرغینانی رحمہ ﷲ تعالٰی نے دعوائے اجماعِ صحابہ کیا ہے۔رضی ﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔
احادیث و آثار کہ اس باب میں وارد بیحد وشمار، یہاں بخوفِ طوالت بیانِ بعض پر اقتصار:

( ۱) صحیح مسلم شریف میں سیّدنا ابو موسٰی اشعری رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے مروی سرور عالم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا صلّیتم فاقیموا صفوفکم ،ثم لیؤمکم احدکم ، فاذاکبر فکبروا، واذاقرأ فانصتوا۔

یعنی جب تم نماز پڑھو اپنی صفیں سیدھی کرو، پھر تم میں کوئی امامت کرے، وہ تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تم چپ رہو۔

(۲) ابوداؤد و نسائی اپنی اپنی سُنن میں سیدنا ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں سرورِ عالم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: انما الامام لیؤتم بہ، فاذا کبر فکبروا ،اذاقرأ فانصتوا۔ (ھذا الفظ النسائی)
یعنی امام تو اس لئے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی کہو۔ اورجب قرأت کرے خاموش رہو ۔یہ نسائی کے الفاظ ہیں۔
امام مسلم بن حجاج نیشاپوری رحمہ ﷲ تعالٰی اپنی صحیح میں اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک صحیح ہے۔

( ۳) ترمذی اپنی جامع میں سیدنا جابر بن عبد ﷲ انصاری رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے راوی :من صلی رکعۃ لم یقرء فیھا بام القراٰن فلم یصل الا ان یکون وراء الامام ۔
یعنی جو کوئی رکعت بے سورہ فاتحہ کے پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی مگر جب امام کے پیچھے ہو۔ھکذا رواہ مالک فی مؤطاہ مو قوفا۔اور امام ابو جعفر احمد بن سلامہ طحاوی رحمۃ ﷲ علیہ نے معانی الآثار میں اسے روایت کیا اور ارشاداتِ سیدمرسلین صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے قرار دیا۔وﷲ تعالٰی اعلم ۔
حافظ ابو عیسٰی ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(۴) سیدنا امام الائمہ مالک الازمہ سراج الاُمہ کاشف الغُمہ امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کوفی رضی ﷲ تعالٰی عنہ وعن مقلدیہ باحسان روایت فرماتے ہیں: حدثنا ابوالحسن موسٰی بن ابی عائشۃ عن عبدﷲ بن شداد بن الھاد عن جابر بن عبدﷲ رضی ﷲ تعالٰی عنھما عن النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ قال: من صلی خلف الامام فان قراءۃ الامام لہ قراءۃ ۔

یعنی حضور اقدس سید المرسلین صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کا پڑھنا اس کا پڑھنا ہے۔

فقیر کہتا ہے: یہ حدیث صحیح ہے رجال اس کے سب رجالِ صحاحِ ستّہ ہیں۔ورواہ محمد ھکذا مرفوعا من طریق اٰخر۔
حاصل حدیث کا یہ ہے کہ مقتدی کو پڑھنے کی کچھ ضرورت نہیں، امام کا پڑھنا کفایت کرتا ہے ۔ھکذا روی عند محمد رحمہ ﷲ تعالٰی مختصرا۔ ورواہ الامام تارۃ اخری مستوعبا۔
قال: صلی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم بالناس، فقرأ رجل خلفہ، فلما قضی الصلٰوۃ قال ایکم قرأ خلفی؟ ثلٰث مرات، فقال رجل: انا یا رسول ﷲ! صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم: من صلی خلف الامام فان قراءۃ الامام لہ قراءۃ۔
خلاصہ مضمون یہ ہے کہ سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی ایک شخص نے حضور کے پیچھے قرأت کی، سیّد اکرم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہوکر ارشاد فرمایا: کس نے میرے پیچھے پڑھا ،لوگ بسبب خوف حضور کے خاموش ہو رہے ، یہاں تک کہ تین بار بتکرار یہی استفسار فرمایا، آخر ایک شخص نے عرض کی، یارسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ! میں نے ۔ارشاد ہوا کہ جو امام کے پیچھے ہو اس کے لئے امام کا پڑھنا کافی ہے۔

( ۵) ابو حنیفہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ ایضا،عن حماد بن ابراہیم ان عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ لم یقرأ خلف الامام لا فی الرکعتین الاولین ولا فی غیرھما۔
یعنی سیّدناعبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ نے امام کے پیچھے قراءت نہ کی، نہ پہلی دو رکعتوں میں، نہ ان کے غیر میں۔
فقیر کہتا ہے: عبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ جو افاضلِ صحابہ و مومنین سابقین سے ہیں حضر و سفر میں ہمراہِ رکاب سعادت انتساب حضور رسالت مآب صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم رہتے اور بارگاہِ نبوت میں بے اذن لئے جانا اُن کے لئے جائز تھا، بعض صحابہ فرماتے ہیں : ہم نے راہ و روش سرورِ انبیا ء علیہ التحیۃ والثنا سے جو چال ڈھال ابن مسعود کی ملتی پائی کسی کی نہ پائی، خودحضور اکرم الاولین والآخرین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:رضیت لامتی ما رضی لھا ابن ام عبد، وکرھت لامتی ماکرہ لہا ابن ام عبد
میں نے اپنی امت کے لئے وہ پسند کیا جو عبد ﷲ بن مسعود اس کے لئے پسند کرے۔ اور میں نے اپنی امت کے لئے ناپسند کیا جو اُس کے لئے عبد ﷲ بن مسعود ناپسند کرے۔ گویا ان کی رائے حضورِ والا کی رائے اقدس ہے۔ اور معلوم ہے کہ جناب ابن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ جب مقتدی ہوتے فاتحہ وغیرہ کچھ نہیں پڑھتے تھے اور ان کے سب شاگردوں کا یہی وتیرہ تھا۔

(٦) محمدفی مؤطاہ من طریق سفیانین عن منصور بن المعتمر۔ وقال الثوری نا منصور وھذا لفظ ابن عینیۃ عن منصور بن المعتمر عن ابی وائل قال سئل عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ عن القراءۃ خلف الامام، قال انصت؛ فان فی الصلٰوۃ لشغلا ، سیکفیک ذلک الامام۔
خلاصہ یہ کہ سیّدنا ابن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے دربارہ قراءت مقتدی سوال ہوا، فرمایا خاموش رہ کہ نماز میں مشغولی ہے یعنی بیکار باتوں سے باز رہنا۔ عنقریب تجھے امام اس کام کی کفایت کردے گا۔ یعنی نماز میں تجھے لاطائل باتیں روا نہیں۔اور جب امام کی قراءت بعینہ اُس کی قراءت ٹھہرتی ہے تو پھر مقتدی کا خود قراءت کرنا محض لغو ناشائستہ ہے۔
فقیر کہتا ہے: یہ حدیث اعلٰی درجہ صحاح میں ہے ،اس کے سب رواۃ ائمہ کبار و رجالِ صحاحِ ستہ ہیں۔

(٧) واما حدیث الامام عن ابن مسعود فوصلہ محمد نامحمد بن ابان بن صالح القرشی عن حماد عن ابراہیم النخعی عن علقمۃ بن قیس ان عبدﷲ بن مسعود کان لایقرأ خلف الامام فیما یجھر و فیما یخافت فیہ فی الاولیین ولا فی الاخریین، و اذا صلی وحدہ قرأ فی الاولیین بفاتحۃ الکتاب وسورۃ ولم یقرأ فی الاخریین شیئا۔

حاصل یہ کہ حضرت ابن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ جب مقتدی ہوتے تو نماز میں جہریہ ہو یا سریہ کچھ نہ پڑھتے تھے، نہ پہلی رکعتوں میں، نہ پچھلی میں ۔ ہاں جب تنہا ہوتے تو صرف پہلیوں میں الحمد و سورت پڑھتے۔

(٨) ابو حنیفۃ عن حماد عن ابراہیم انہ قال لم یقرأ علقمۃ خلف الامام حرفا لا فیما یجھر فیہ القراءۃ ، ولا فیما لایجھر فیہ، ولا قرأ فی الاخریین بام الکتاب ولاغیرھا خلف الامام، ولا اصحاب عبدﷲ جمیعا۔
یعنی علقمہ بن قیس کہ کبارِ تابعین و اعاظمِ مجتہدین اور افقہِ تلامذہ سیّدنا بن مسعود ہیں امام کے پیچھے ایک حرف نہ پڑھتے، چاہے جہر کی قرأت ہو، چاہے آہستہ کی۔ اور نہ پچھلی رکعتوں میں فاتحہ پڑھتے اور نہ اور کچھ جب امام کے پیچھے ہوتے۔ اور نہ کسی نے حضرت کے اصحاب عبد ﷲ بن مسعود سے قرأت کی، رضی ﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔

(٩) محمد فی الموطا اخبرنا بکیر بن عامر،ثنا ابراہیم النخعی عن علقمۃ بن قیس قال لان اعض علی جمرۃ احب الی من ان اقرأ خلف الامام۔
یعنی حضرت علقمہ بن قیس فرماتے ہیں البتہ آگ کی چنگاری منہ میں لینا مجھے اس سے زیادہ پیاری ہے کہ میں امام کے پیچھے قرأت کروں۔

(١٠) محمد ایضا، اخبرنا اسرائیل بن یونس ثنا منصور عن ابراہیم قال ان اول من قرأ خلف الامام رجل متھم۔
یعنی ابراہیم بن سوید النخعی نے کہ رؤسائے تابعین وائمہ دین متین سے ہیں تحدیث و فقاہت ان کی آفتاب نیمروز ہے فرمایا: پہلے جس شخص نے امام کے پیچھے پڑھا وہ ایک مرد متہم تھا۔
حاصل یہ کہ امام کے پیچھے قراءت ایک بدعت ہے جو ایک بے اعتبار آدمی نے احداث کی۔
فقیر کہتا ہے: رجال اس حدیث کے رجالِ صحیحِ مسلم ہیں۔

(١١) امام مالک اپنی مؤطا میں اورامام احمد بن حنبل رحمہما ﷲ تعالٰی اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں: وھذا سیاق مالک عن نافع ان عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنھما کان اذا سئل ھل یقرأ احد خلف الامام؟ قال اذا صلی احدکم خلف امام فحسبہ قراءۃ الامام۔ واذا صلی وحدہ فلیقرأ۔ قال:وکان عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما لایقرأخلف الامام۔
یعنی سیدنا و ابن سیدنا عبد ﷲ بن امیرالمؤمنین عمر فاروق اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے جب دربارہ قرأتِ مقتدی سوال ہوتا فرماتے جب کوئی تم میں امام کے پیچھے نماز پڑھے تواسے قراءت امام کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو قراءت کرے۔
نافع کہتے ہیں عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما خود امام کے پیچھے قرأت نہ کرتے۔ فقیر کہتاہے: کہ یہ حدیث غایت درجہ کی صحیح الاسناد ہے، حتی کہ مالک عن نافع عن ابن عمر کو بہت محدثین نے صحیح ترین اسانید کہا۔

(١٢) محمد اخبرنا عبید ﷲ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب رضی ﷲ تعالٰی عنہ عن نافع عن ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ قال من صلی خلف الامام کفتہ قراءتہ۔
یعنی حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں مقتدی کو امام کا پڑھنا کافی ہے ۔
فقیر کہتا ہے: یہ سند بھی مثل سابق کے ہے اور اس کے رجال بھی رجالِ صحاحِ ستہ ہیں ، بلکہ بعض علمائے حدیث نے روایات نافع عن عبیداللہ بن عمر کو امام مالک پر ترجیح دی۔

(١٣) محمد اخبرنا عبد الرحمن بن عبداللہ المسعودی اخبرنی انس بن سیرین عن ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما انہ سئل عن القراءۃ خلف الامام قال تکفیک قراءۃ الامام۔
یعنی سیدنا ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے دربارہ قراءت استفسار ہوا، فرمایا تجھے امام کا پڑھنا بس کرتا ہے۔

(١۴) امام ابو جعفر احمد بن محمد طحاو ی رحمۃ ﷲ علیہ معانی الآثار میں روایت کرتے ہیں :حدثنا ابن وھب، فساق باسنادہ عن زید بن ثابت رضی ﷲ تعالٰی عنہ سمعہ یقول: لایقرأ المؤتم خلف الامام فی شیئ من صلاۃ۔
یعنی سیدنا زید بن ثابت انصاری رضی ﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں مقتدی امام کے پیچھے کسی نماز میں قرات نہ کرے یعنی نماز جہریہ ہو یا سریہ:

(١۵) محمد اخبرنا داؤد بن قیس ثنا عمر بن محمد بن زید عن موسٰی بن سعید بن زید بن ثابت الانصاری یحدثہ عن جدہ قال من قرأخلف الامام فلا صلٰوۃ لہ۔
یعنی حضرت زید بن ثابت انصاری رضی ﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں جو شخص امام کے پیچھے پڑھے اس کی نماز جاتی رہی ۔فقیر کہتا ہے یہ حدیث حسن ہے اور دارقطنی نے بطریق طاؤس اسے مرفوعاً روایت کیا۔

(١٦) الحافظ بن علی بن عمر الدار قطنی عن ابی حاتم بن حبان ثنی ابراہیم بن سعد عن احمد بن علی بن سلیمان الدوری عن عبدالرحمٰن المخزومی عن سفیان بن عیینہ عن ابن طاؤس عن ابیہ عن زید عن ثابت عن رسول ﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال من قرأخلف الامام فلا صلٰوۃ لہ۔
یعنی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی وعلیہ وسلم فرماتے ہیں :امام کے پیچھے پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی۔

(١٧) محمد ایضا اخبرنا داؤد بن قیس الفراء المدنی اخبرنی بعض ولد سعد بن ابی وقاص انہ ذکر لہ ان سعدا رضی ﷲ تعالٰی عنہ قال وددت ان الذی یقرأ خلف الامام فی فیہ جمرۃ۔
یعنی سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے کہ افاضل صحابہ و عشرہ مبشرہ و مقربانِ بارگاہ سے ہیں منقول ہے انھوں نے فرمایا میرا جی چاہتا ہے کہ امام کے پیچھے پڑھنے والے کے منہ میں انگارہ ہو۔
(١٨) محمد ایضا اخبرنا داؤد بن قیس الفراء ثنا محمد بن عجلان ان عمر بن الخطاب رضی ﷲ تعالٰی عنہ قال لیت فی فم الذی یقرأ خلف الامام حجرا۔
یعنی حضرت امیر المومنین فاروق اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا کاش جوشخص امام کے پیچھے قراءت کرے اُسکے منہ میں پتھر ہو۔

فقیر کہتا ہے: رجال اس حدیث کے بر شرط صحیح مسلم ہیں۔الحاصل ان احادیث صحیحہ و معتبرہ سے مذہب حنفیہ بحمد ﷲ ثابت ہوگیا۔
اب باقی رہے تمسکاتِ شافعیہ اُن میں عمدہ ترین دلائل جسے اُن کا مدار مذہب کہنا چاہئے حدیث صحیحین ہے۔ یعنی :لا صلٰوۃ الا بفاتحۃ الکتاب۔
کوئی نماز نہیں ہوتی بے فاتحہ کے۔
جواب اس حدیث سے چند طور پر ہے یہاں اسی قدر کافی کہ یہ حدیث تمھارے مفید، نہ ہمارے مضر، ہم خود مانتے ہیں کہ کوئی نماز ذاتِ رکوع سجود بے فاتحہ کے تمام نہیں، امام کی ہو، خواہ ماموم کی، مگر مقتدی کے حق میں خود رسول ﷲصلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس کے لئے امام کی قرأت کافی اور امام کا پڑھنا بعینہٖ اس کا پڑھنا ہے۔ کما مر سابقاً۔
پس خلافِ ارشادِ حضور والا تم نے کہاں سے نکال لیا کہ مقتدی جب تک خود نہ پڑھے گا نماز اس کی بے فاتحہ رہے گی اور فاسد ہوجائے گی۔
دوسری دلیل:حدیث مسلم : من صلی صلاۃ لم یقرأ فیھا بام القراٰن فھی خداج، ھی خداج، ھی خداج۔
حاصل یہ کہ جس نے کوئی نماز بے فاتحہ پڑھی وہ ناقص ہے ناقص ہے ناقص ہے۔
اس کا جواب بھی بعینہٖ مثل اول کے ہے۔نماز بے فاتحہ کا نقصان مسلّم، اور قراءتِ امام قراءتِ ماموم سے مغنی۔خلاصہ یہ کہ اس قسم کی احادیث اگرچہ لاکھوں ہوں تمھیں اس وقت بکار آمد ہوں گی جب ہمارے طور پر نمازِ مقتدی بے امّ الکتاب رہتی ہو وھو ممنوع۔
اور آخر حدیث میں قول حضرت سیّدنا ہریرہ رضی ﷲ تعالٰی عنہا: اقرأ بھا فی نفسک یا فارسی۔کہ شافعیہ اس سے بھی استناد کرتے ہیں، فقیر بتوفیق الہی اُس سے ایک جواب حسن طویل الذیل رکھتا ہے جس کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں۔

تیسری دلیل: حدیث عبادہ بن صامت رضی ﷲ تعالٰی عنہ :لا تفعلوا الا بام القراٰن۔

امام کے پیچھے اور کچھ نہ پڑھو سوائے فاتحہ کے۔

اولاً: یہ حدیث ضعیف ہے، اُن صحیح حدیثوں کی جو ہم نے مسلم اورترمذی ونسائی وموطائے امام مالک وموطائے امام محمد وغیرہا صحاح و معتبرات سے نقل کیں کب مقاومت کرسکتی ہے ،امام احمد بن حنبل وغیرہ حفّاظ نے اس کی تضعیف کی ، یحیی بن معین جیسے ناقدین جس کی نسبت امام ممدوح نے فرمایا جس حدیث کو یحیٰی نہ پہچانے حدیث ہی نہیں فرماتے ہیں: استثنائے فاتحہ غیر محفوظ ہے۔ثانیاً : خودشافعیہ اس حدیث پر دو وجہ سے عمل نہیں کرتے:ایک یہ کہ اس میں ماورائے فاتحہ سے نہی ہے اور ان کے نزدیک مقتدی کو ضمِ سورت بھی جائز ہے۔
صرح بہ الامام النووی فی شرح صحیح مسلم

دوسرے یہ کہ حدیث مذکور جس طریق سے ابوداؤد نے روایت کی بآواز بلند منادی کہ مقتدی کو جہراً فاتحہ پڑھنا روا اور یہ امر بالاجماع ممنوع۔
صرح بہ الشیخ فی اللمعات و یفید ہ الکلام النووی فی الشرح۔
پس جو خود اُن کے نزدیک متروک، ہم پر اُس سے کس طرح احتجاج کرتے ہیں۔بالجملہ ہمارا مذہبِ مہذب بحمد ﷲ حجج کافیہ و دلائل وافیہ سے ثابت ، اور مخالفین کے پاس کوئی دلیل قاطع ایسی نہیں کہ اُسے معاذ ﷲ باطل یا مضمحل کرسکے* مگر اس زمانہ پُرفتن کے بعض جہال بے لگام جنھوں نے ہوائے نفس کو اپنا امام بنایا اور انتظام اسلام کو درہم برہم کرنے کے لئے تقلید ائمہ کرام میں خدشات و اوہام پیدا کرتے ہیں جس ساز و سامان پر ائمہ مجتہدین خصوصاً امام الائمہ حضرت امام اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہ وعن مقلدیہ کی مخالفت اور جس بضاعت مزجات پر ادعائے اجتہاد وفقاہت ہے عقلائے منصفین کا معلوم اصل مقصود ان کا اغوائے عوام ہے کہ وہ بیچارے قرآن و حدیث سے ناواقف ہیں جو ان مدعیانِ خام کار نے کہہ دیا اُنھوں نے مان لیا اگرچہ خواص کی نظر میں یہ باتیں موجب ذلّت و باعث فضیحت ہوں ،ﷲ سبحٰنہ وتعالٰی وساوس شیطان سے امان بخشےاٰمین*۔ ھذا، والعلم عند واھب العلوم العالم بکل سرمکتوم”
(فتاوی رضویہ ج٣ ص٨٨ تا ٩٢)
فتاوی رضویہ کا یہ طویل اقتباس اس شخص کو سنایا جائےامید قوی ہے کہ اگر معاند نہیں ہے تو احادیث سن کر مان جائے گا ورنہ عناد کا کوئی علاج نہیں ہے۔

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔
٢/جمادی الآخرہ ١۴۴٣ھ//٦/جنوری ٢٠٢٢ء

1 thought on “امام کے پیچھے قراءت ناجائز ہونے کااحادیث سے ثبوت”

Leave a Reply