ضرورت کے تحت معتدہ کے گھر سے باہر نکلنے کا حکم

ضرورت کے تحت معتدہ کے گھر سے باہر نکلنے کا حکم

السلام علیکم حضرت

عورت عدت میں ہے اس کے شوہر جس کمپنی میں کام کرتے تھے وہاں اس کو دسخت کرنے کے لے اور کچھ پوچھ تاچھ کے لیے بلا رہے ہیں بغیر اس کے گئے اس کے شوہر کی رقم اس نہیں ملے گی ۔

تو کیا وہ عورت کمپنی میں دستخت کرنے کے لئے جا سکتی ہے ؟

سائل. عبدالرشيد پیڑا بستی

الجواب بعون الملک الوھاب

وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

اگر آفس تک بغیر گیے پیسہ نکلنے کی کوئی صورت نہ ہو تو سوال میں مذکورہ خاتون کا آفس میں جاکر دستخط بنانا جائز

ہے،کیوں کہ سوال سے ظاہر ہے کہ اگر وہ آفس میں جاکر دستخط نہیں بنائے گی تو اس کا حق مارا جاسکتا ہے اس لیے

ضرورت کے تحت اس کا گھر سے باہر نکلنا جائز ہے، بشرطے کہ رات واپس آکر اپنے گھر پر گزارے ۔

البحر الرائق میں ہے :

(قوله: ومعتدة الموت تخرج يوماً وبعض الليل ) لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لا نفقة لها، حتى لو كان

عندهاكفايتها صارتكالمطلقة؛ فلايحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلاً ولا نهاراً. والحاصل: أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة، فيتقدر بقدره، فمتى انقضت حاجتها لايحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها، كذا في فتح القدير”۔

(ج: ٤، ص: ١٦٦)

اسی میں ہے :
” والحاصل أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير وأقول: لو صح هذا عمم أصحابنا الحكم فقالوا: لاتخرج المعتدة عن طلاق أو موت إلا لضرورة؛ لأن المطلقة تخرج للضرورة بحسبها ليلا كان أو نهارا والمعتدة عن موت كذلك فأين الفرق؟ فالظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا، ولو كانت قادرة على النفقة ولهذا استدل أصحابنا بحديث «فريعة بنت أبي سعيد الخدري – رحمه الله تعالى – أن زوجها لما قتل أتت النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذنته في الانتقال إلى بني خدرة فقال لها: امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله» فدل على حكمين إباحة الخروج بالنهار وحرمة الانتقال حيث لم ينكر خروجها ومنعها من الانتقال وروى علقمة أن نسوة من همدان نعي إليهن أزواجهن فسألن ابن مسعود – رضي الله عنه – فقلن إنا نستوحش فأمرهن أن يجتمعن بالنهار، فإذا كان بالليل فلترجع كل امرأة إلى بيتها كذا في البدائع، وفي المحيط عزاء الثاني إلى النبي صلى الله عليه وسلم وفي الجوهرة يعني ببعض الليل مقدار ما تستكمل به حوائجها، وفي الظهيرية: والمتوفى عنها زوجها لا بأس بأن تتغيب عن بيتها أقل من نصف الليل، قال شمس الأئمة الحلواني: وهذه الرواية صحيحة اهـ. و لكن في الخانية والمتوفى عنها زوجها تخرج بالنهار لحاجتها إلى نفقتها ولا تبيت إلا في بيت زوجها اهـ.فظاهره أنها لو لم تكن محتاجة إلى النفقة لايباح لها *الخروج نهارًا كما فهمه المحقق ۔”

(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:٦، ص١٦٦)

فتاوی رضویہ شریف میں اسی طرح کا سوال ہوا، ذیل میں سوال وجواب دونوں درج کیے جاتے ہیں:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عورت جس کا خاوند مرگیا وہ گھرایام عدت میں اپنے کسی استحقاق وراثت

کے استحکام کے واسطے باہر گھر سے جاسکتی ہے یا نہیں، اور اگر باہر جائے تو کس قدرعرصہ تک اور اس کے باہر جانے

سے اور اس کے کسی حقوق میں فرق تو نہ آئے گا،بینوا توجروا۔

الجوابـــــــــــــــــــــ

سائل نے ظاہر کیا کہ عورت مسکینہ ہے، پانچ روپے کی ایک معاش کہ اس کے شوہر نے اسے لکھ دی تھی صرف وہی پاس رکھتی ہے، اور اہلکار کچہری کو کمیشن دے کر بلانے کی استطاعت اصلا نہیں اور اگر نہ جائے تو وہ جائداد اس کے نام نہ ہوگی، اور وہ جگہ جہاں جانا چاہتی ہے اس کے مکان عدت سے صرف چھ میل دور ہے، دن ہی دن میں جانا اور مکان میں واپس آنا ہوجائے گا،رات یہیں بسر آکر کرے گی اگر بات یوں ہے ہے تو صورت مذکورہ میں اسے جانا اور دن کے دن واپس آکر رات مکان عدت ہی میں بسر کرنے کی اجازت ہے، در مختار میں ہے

"معتدة موت تخرج فی الجدیدين و تبیت اکثر اللیل فی منزلھا لان نفقتھا علیھا فتحتاج للخروج حتی لو کان عندھا کفایتھا صارت کالمطلقة ولا یحل لها الخروج (فتح) وجوز فی القنیة خروجھا لاصلاح لابد لیا منه كذراعة ولاوکیل لھا” ردالمحتار میں ہے:
"قال فی الامور ولا بد قید ذلك بان تبیت فی بیت زوجھا”

واللہ اعلم بالصواب

(فتاوی رضویہ قدیم ج پنجم ص ٨٥٥)

بہار شریعت میں ہے :

” ’موت یافُرقت کے وقت جس مکان میں عورت کی سکونت(رہائش)تھی اُسی مکان میں عدت پوری کرے اوریہ جوکہاگیاہے کہ گھرسے باہرنہیں جاسکتی اس سے مراد یہی گھرہے اوراس گھر کو چھوڑ کر دوسرے مکان میں بھی سکونت نہیں کرسکتی مگربضرورت آج کل معمولی باتوں کوجس کی کچھ حاجت نہ ہومحض طبیعت کی خواہش کوضرورت بولاکرتے ہیں وہ یہاں مرادنہیں بلکہ ضرورت وہ ہے کہ اُس کے بغیرچارہ نہ ہو۔‘‘

( بھارشریعت حصہ٨،ج ٢ ، ص٢٤٥، مکتبۃ المدینہ کراچی )

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ :علامہ مفتی کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی
١٦ ربیع الثانی ١٤٤٣/ ٢٢نومبر ٢٠٢١
الجواب صحیح علامہ مفتی محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس و افتا جامعہ علیمیہ جمدا شاہی

Leave a Reply