بیوہ عورت عدت کہاں گزارے؟ از مفتی محمد نظام الدین قادری دارالعلوم علیمیہ

بیوہ عورت عدت کہاں گزارے؟

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔ استاذ گرامی حضور مفتی محمد نظام الدین صاحب قبلہ کی بارگاہ میں عرض ہے کہ ایک خاتون اپنی بیٹی کے ساتھ شہر میں رہتی تھیں وہ اپنی ساس کے انتقال پر اپنے سسرال آئی ہوئی تھی. اللہ کی مرضی کچھ ایسی کی اسی دوران ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا. ان کے شوہر بھی اپنی امی کے انتقال پر گھر آئے ہوئے تھے ورنہ وہ روزی روٹی کے سلسلے میں گھر سے باہر ہی رہتے ہیں اور ان کی بیوی اور بیٹی شہر میں رہتی تھیں.

ان کی بیٹی کا امتحان ہے اب اسے شہر جانا ہے اور وہاں رہ کر دو مہینے تقریباً امتحان دینا ہے، اس کے ساتھ جانے کے لیے کوئی محرم بھی نہیں ہے تو کیا وہ اپنی والدہ کے ساتھ سفر کر سکتی ہیں جو کہ ابھی عدت میں ہیں. تین گھنٹے کا سفر ہے جو کہ اپنی پرسنل گاڑی سے کرنا ہے.

اس بارے میں تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی_

محمد اظہر علیمی


الجواب:

شوہر کے انتقال کے بعد عورت کو اسی گھر میں عدت گزارنے کا حکم ہے کہ شوہر کے انتقال کے وقت جس گھر میں بطورِ سکونت رہ رہی تھی، خواہ وہ شوہر کا ذاتی گھر ہو یا کرایہ پر ہو۔اس لیے شوہو نے بیوی کی رہائش کا انتظام جس شہر میں رکھا ہو،انتقال کے بعد بیوی کو جلد از جلد اس شہر واپس جاکر اپنی سکونت والے گھر میں عدت گزارنے کا حکم ہے۔ اب اگر جہاں اس وقت عورت ہے اس جگہ اور رہائش والے شہر کے درمیان سفر شرعی کی مسافت یعنی بانوے کلو میٹر کی دوری ہے تو اس کے ہمراہ کسی محرم کا ہونا ضروری ہے ورنہ نہیں۔

اس لیے صورتِ مسئولہ میں اس عورت کی عدت گزارنے کا مقام اس کی سسرال نہیں ، بلکہ شہر کا رہائشی گھر ہے، کیوں کہ سائل کے بیان کے مطابق اس کی رہائش شہر میں تھی۔

مدقق علامہ علاو الدین حصکفی رحمہ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں:

"(طَلُقَتْ) أَوْ مَاتَ وَهِيَ زَائِرَةٌ (فِي غَيْرِ مَسْكَنِهَا عَادَتْ إلَيْهِ فَوْرًا) لِوُجُوبِهِ عَلَيْهَا” (در مختار مع شامی ج۵ ص٢٢۵ )

علامہ شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

"(قَوْلُهُ: فِي بَيْتٍ وَجَبَتْ فِيهِ) هُوَ مَا يُضَافُ إلَيْهِمَا بِالسُّكْنَى قَبْلَ الْفُرْقَةِ وَلَوْ غَيْرَ بَيْتِ الزَّوْجِ كَمَا مَرَّ آنِفًا، وَشَمِلَ بُيُوتَ الْأَخْبِيَةِ كَمَا فِي الشُّرُنْبُلَالِيَّةِ” (رد المحتار ج ۵ص٢٢۵)

صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

"موت یا فرقت کے وقت جس مکان میں عورت کی سکونت تھی اُسی مکان میں عدت پوری کرے اور یہ جو کہا گیاہے کہ گھر سے باہر نہیں جاسکتی اس سے مراد یہی گھر ہے . اور اس گھر کو چھوڑکر دوسرے مکان میں بھی سکونت نہیں کرسکتی مگر بضرورت اور ضرورت کی صورتیں ہم آگے لکھیں گے ۔ آج کل معمولی باتوں کو جس کی کچھ حاجت نہ ہو محض طبیعت کی خواہش کو ضرورت بولا کرتے ہیں وہ یہاں مراد نہیں ۔ بلکہ ضرورت وہ ہے کہ اُس کے بغیر چارہ نہ ہو۔” (بہارِ شریعت ح ٨ص ٢۴٧)

نیز تحریر فرماتے ہیں:

” عورت اپنے میکے گئی تھی ، یا کسی کام کے لیے کہیں اور گئی اُس وقت شوہر نے طلاق دی یا مر گیا، تو فوراً بلا توقف وہاں سے واپس آئے”(بہارِ شریعت ح ٨ ص٢۴٧)

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔ یوپی۔

١٨/ذو القعدہ ١۴۴٢ھ//٣٠/جون٢٠٢١ء

1 thought on “بیوہ عورت عدت کہاں گزارے؟ از مفتی محمد نظام الدین قادری دارالعلوم علیمیہ”

Leave a Reply