مدارس دینیہ کے طلبہ میں نفلی عبادات کارجحان کیوں ختم ہوتاجارہاہے؟
مدارس دینیہ کے طلبہ کیلئے صحیح انداز اور طرزِ زندگی وہی ہے جوحضورتاجدارختم نبوتﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا،اور ان کے بعد جتنے بھی آج تک علمائے کرام آئے ہیں ان کا طریقہ کار صحیح ہے اور وہ یہ ہے کہ سب کے سب نوافل اور نفلی عبادات کا خصوصی طور پر اہتمام کرتے تھے، حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی سنت کے شیدائی تھے، حقیقت یہ ہے کہ نبوی سنتوں پر عمل کرنے کیلئے سب سے آگے طلبہ کو ہی ہونا چاہے، نیز سب سے پہلے سنتیں ادا کرنے کا حکم بھی انہی کو ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس طرح حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی سنت کو مبارکہ عملی طور پر سیکھنے کیلئے وقت دیں گے، لہذا طلبہ کو چاہیے کہ جو کچھ بھی پڑھیں اس پر عمل بھی کریں، اطاعت گزاری اور عبادات سر انجام دینے کیلئے دوسروں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
اگر ہم علمائے کرام کی جانب سے عبادات کو دی جانے والی اہمیت اور اس عبادت گزاری کیلئے عزم و ہمت کاذکر کرنا شروع کر دیں تو بات بہت ہی لمبی ہو جائے گی۔
تہجدترک کرنے پرامام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ کاطالب علم کو ڈانٹنا
بَاتَ عِنْدَ الْإِمَامِ أَحْمَدَ رَجُلٌ فَوَضَعَ عِنْدَہُ مَاء ً قَالَ الرَّجُلُ:فَلَمْ أَقُمْ بِاللَّیْلِ وَلَمْ اسْتَعْمِلْ الْمَاء َ، فَلَمَّا أَصْبَحْت قَالَ لِی:لِمَ لَا تَسْتَعْمِلُ الْمَاء َ؟ فَاسْتَحْیَیْت وَسَکَتُّ فَقَالَ:سُبْحَانَ اللَّہِ سُبْحَانَ اللَّہِ مَا سَمِعْت بِصَاحِبِ حَدِیثٍ لَا یَقُومُ بِاللَّیْلِ وَجَرَتْ ہَذِہِ الْقِصَّۃُ مَعَہُ لِرَجُلٍ آخَرَ، فَقَالَ لَہُ:أَنَا مُسَافِرٌ قَالَ:وَإِنْ کُنْتَ مُسَافِرًاحَجَّ مَسْرُوقٌ فَمَا نَامَ إلَّا سَاجِدًا.
ترجمہ :امام المقدسی الحنبلی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایک طالب علم نے امام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ کے پاس رات گزاری توآپ رضی اللہ عنہ نے رات کے وقت اس کے پاس وضوکرنے کے لئے پانی رکھ دیاتوجب صبح ہوئی تودیکھاکہ پانی پڑاہے اوراس نے نماز تہجدبھی ادانہیں کی، وہ طالب علم کہتاہے کہ مجھے امام احمدرضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے پانی استعمال کیوں نہیں کیا؟ ، میں حیاء کی وجہ سے خاموش رہا، امام رضی اللہ عنہ کہنے لگے سبحان اللہ سبحان اللہ ، میں نے توآج تک کوئی حدیث شریف کاطالب علم نہیں دیکھاجوتہجدنہ پڑھتاہو
اس نے کہاکہ میں مسافرہوں ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اگرتومسافرہے توسن حضرت سیدنامسروق رحمہ اللہ تعالی نے حج کے لئے سفرکیاتوسارے راستے میں جب بھی سوئے سجدے میں ہی سوئے تھے۔
(الآداب الشرعیۃ والمنح المرعیۃ:محمد بن مفلح بن محمد بن مفرج، أبو عبد اللہ، شمس الدین المقدسی الحنبلی (۲:۱۶۹)
اگر امام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ کسی شاگرد کو اپنے پاس قیام کے دوران رات کو تہجد ادا نہ کرنے پر ڈانٹ پلاتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں:میں نے آج تک علم حدیث کے ایسے کسی طالب علم کے بارے میں نہیں سنا جو رات کو تہجد نہ پڑھتا ہوتو اگر آج یہ سن لیں کہ علم حدیث کا طالب علم سنت مؤکدہ کی پابندی نہیں کرتا تو پھر کیا حال ہوگا؟اگر طالب علم علمائے کرام کی بات’’حصولِ علم نفل عبادات سے افضل ہے‘‘کو غلط انداز سے سمجھے اور پھر اسی کے مطابق عمل کرنے لگے تو عبادات کی پابندی ہی ختم ہو جائے، بلکہ ایسے نفل روزے بھی نہ رکھے جن کی تاکید کی گئی ہے، زبان ذکر الہی سے تر نہ رہے، (نفل)عمرہ کرنے کیلئے سفر نہ کرے لوگوں کی بھلائی کا کوئی کام سر انجام نہ دے، اور ان سب امور کیلئے دلیل یہ دے کہ وہ حصولِ علم میں مصروف ہے!ایسے شخص کو شیطان کے وار سے بچنا چاہیے -اللہ تعالی ہمیں اس سے بچائے،شیطان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ طالب علم کا دل اجاڑ دے، مسئلوں میں پھنسا کر اس کی عمل سے توجہ ہٹا دے، اور نیکی کی دعوت دینے سے بھی دور کر دے۔
امام الخطیب البغدادی المتوفی:۴۶۳ھ)رحمہ اللہ تعالی کی وصیت
ثُمَّ إِنِّی مُوصِیکَ یَا طَالِبَ الْعِلْمِ بِإِخْلَاصِ النِّیَّۃِ فِی طَلَبِہِ، وَإِجْہَادِ النَّفْسِ عَلَی الْعَمَلِ بِمُوجَبِہِ، فَإِنَّ الْعِلْمَ شَجَرَۃٌ وَالْعَمَلَ ثَمَرَۃٌ، وَلَیْسَ یُعَدُّ عَالِمًا مَنْ لَمْ یَکُنْ بِعِلْمِہِ عَامِلًا، وَقِیلَ:الْعِلْمُ وَالِدٌ وَالْعَمَلُ مَوْلُودٌ، وَالْعِلْمُ مَعَ الْعَمَلِ، وَالرِّوَایَۃُ مَعَ الدِّرَایَۃِ فَلَا تَأْنَسْ بِالْعَمَلِ مَا دُمْتَ مُسْتَوْحِشًا مِنَ الْعِلْمِ، وَلَا تَأْنَسْ بِالْعِلْمِ مَا کُنْتَ مُقَصِّرًا فِی الْعَمَلِ وَلَکِنِ اجْمَعْ بَیْنَہُمَا، وَإِنْ قَلَّ نَصِیبُکَ مِنْہُمَا۔
ترجمہ :امام أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی المتوفی:۴۶۳ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ طالب علم!میں آپ کو حصولِ علم کیلئے نیت خالص کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، جب علم حاصل ہو جائے تو اپنے آپ کو عمل پر مجبور کرو، کیونکہ علم شجر ہے تو عمل اس کا ثمر، علم پر عمل نہ کرنے والا کسی صورت میں عالم نہیں ہو سکتا، جب تک آپ صاحب علم نہیں ہیں آپ عمل سے مانوس نہیں ہو سکتے، اور اگر عمل میں کمی ہو تو تب بھی علم سے مانوس نہیں ہو سکتے، اس لیے علم و عمل دونوں یکساں حاصل کرو، چاہے علم و عمل تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں۔ مختصراً۔
(اقتضاء العلم العمل:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی:۱۴)
بلکہ کچھ اسلاف طلبہ کیلئے اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ طالب علم روز مرہ امور سے ہٹ کر کوئی علم حاصل کرے، چنانچہ وہ نا قابل عمل علم سے روکا کرتے تھے۔
عَنِ ابْنِ وَہْبٍ، قَالَ:قِیْلَ لِمَالِکٍ:مَا تَقُوْلُ فِی طَلَبِ العِلْمِ؟قَالَ:حَسَنٌ، جَمِیْلٌ، لَکِنِ انْظُرِ الَّذِی یَلْزَمُکَ مِنْ حِیْنَ تُصبِحُ إِلَی أَنْ تُمْسِیَ، فَالزَمْہُ.
ترجمہ :امام ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدناامام مالک رضی اللہ عنہ سے کہا گیا:حصول علم کیسا عمل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا:بہت اچھا عمل ہے، لیکن صرف روز مرہ کے امور سے متعلق علم حاصل کرو۔
(سیر أعلام النبلاء :شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۷:۱۷۹)
ہمارے علمائے کرام اس بات کو بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ حصولِ علم نفل عبادات سے بہتر ہے، لیکن اس کے باوجود حصولِ علم اور نفل عبادات میں تصادم نہیں سمجھتے تھے، نیز ان کے نزدیک اگر طالب علم خاطر خواہ نفل عبادات نہیں کرتا ، سنت مؤکدہ پر خصوصی توجہ نہیں دیتا تو یہ نیت میں فتور ، غلط فہمی ، اور شیطانی چال میں پھنس جانے کی دلیل ہے۔
امام الذہبی رحمہ اللہ تعالی کا اس مسئلہ میں بہت ہی شاندارکلام
قُلْتُ:ہَذِہِ مَسْأَلَۃٌ مُخْتَلَفٌ فِیْہَا:ہَلْ طَلَبُ العِلْمِ أَفْضَلُ أَوْ صَلاَۃُ النَّافِلَۃِ،وَالتِّلاَوَۃُ، وَالذِّکرُ؟فَأَمَّا مَنْ کَانَ مُخلِصاً للہِ فِی طَلَبِ العِلمِ، وَذِہنُہ جَیِّدٌ فَالعِلْمُ أَوْلَی، وَلَکِنْ مَعَ حَظٍّ مِنْ صَلاَۃٍ، وَتَعَبُّدٍ فَإِنْ رَأَیتَہ مُجِدّاً فِی طَلَبِ العِلْمِ لاَ حظَّ لَہُ فِی القُرُبَاتِ فَہَذَا کَسلاَنُ مَہِیْنٌ، وَلَیْسَ ہُوَ بِصَادِقٍ فِی حُسنِ نِیَّتِہ، وَأَمَّا مَنْ کَانَ طَلَبُہ الحَدِیْثَ، وَالفِقْہَ غِیَّۃً، وَمَحبَّۃً نَفْسَانِیَّۃً فَالعِبَادَۃُ فِی حَقِّہ أَفْضَلُ بَلْ مَا بَیْنَہُمَا أَفْعَلُ تَفْضِیلٍ، وَہَذَا تَقسِیْمٌ فِی الجُمْلَۃِ فَقَلَّ، وَاللہِ مَنْ رَأَیتُہ مُخلِصاً فِی طَلَبِ العِلْمِ دَعْنَا مِنْ ہَذَا کُلِّہ فَلَیْسَ طَلَبُ الحَدِیْثِ الیَوْمَ عَلَی الوَضعِ المُتَعَارَفِ مِنْ حَیِّزِ طَلَبِ العِلْمِ بَلْ اصْطِلاَحٌ، وَطَلَبُ أَسَانِیْدَ عَالِیَۃٍ، وَأَخْذٌ عَنْ شَیْخٍ لاَ یَعِی، وَتَسمِیْعٌ لِطِفلٍ یَلْعَبُ، وَلاَ یَفْہَمُ أَوْ لِرَضِیعٍ یَبْکِی أَوْ لِفَقِیْہٍ یَتَحَدَّثُ مَعَ حَدَثٍ أَوْ آخَرَ یَنسَخُ، وَفَاضِلُہُم مَشْغُوْلٌ عَنِ الحَدِیْثِ بِکِتَابَۃِ الأَسْمَاء ِ أَوْ بِالنُّعَاسِ، والقاریء إِنْ کَانَ لَہُ مُشَارَکَۃٌ فَلَیْسَ عِنْدَہُ مِنَ الفَضِیْلَۃِ أَکْثَرَ مِنْ قِرَاء ۃِ مَا فِی الجُزْء ِ سَوَاء ٌ تَصَحَّفَ عَلَیْہِ الاسْمُ أَوِ اخْتَبَطَ المَتْنُ أَوْ کَانَ مِنَ المَوْضُوْعَاتِ فَالعِلْمُ عَنْ ہَؤُلاَء ِ بمعزل، والعمل لا أکاد أداہ بَلْ أَرَی أُمُوْراً سَیِّئَۃً نَسْأَلُ اللہَ العَفْوَ.
ترجمہ :امام شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی المتوفی :۷۷۸ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں کہ حصولِ علم افضل ہے یا نفل نماز، تلاوت اور ذکر وغیرہ؟ اس بارے میں اختلاف ہے، تاہم جو طالب علم حصولِ علم کیلئے مخلص ہو، اچھے ذہن کا مالک ہو تو حصولِ علم کو ترجیح دینی چاہیے، لیکن پھر بھی نفل عبادات کا اہتمام لازمی کرے، چنانچہ اگر کوئی طالب علم حصولِ علم کیلئے تو بہت سنجیدہ ہو لیکن نفل عبادات کا اہتمام نہ کرے تو وہ حقیقت میں سست اور کاہل ہے، بلکہ حصولِ علم کیلئے حسن نیت کے دعوے میں سچا بھی نہیں ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص علم حدیث اور فقہ کبھی کبھار حاصل کرے اور دل کیا تو درس میں حاضر ہو گیا وگرنہ نہیں تو ایسے شخص کیلئے عبادات میں مشغول رہنا افضل ہے، بلکہ اس شخص کیلئے سرے سے موازنہ ہے ہی نہیں!یہ تو تھی اجمالی سی تقسیم۔ اللہ تعالی کی قسم!کم ہی لوگ ہیں جنہیں حصولِ علم کیلئے مخلص پایا۔
قصہ مختصر کہ آج کل جس انداز سے علم حدیث طلب کیا جاتا ہے وہ حصولِ علم کے زمرے میں ہی شامل نہیں ہوتا، بلکہ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ سند عالی ہو جائے ، القابات مل جائیں، اس کیلئے کبھی تو کسی جاہل سے سند لی جاتی ہے تو کبھی نا سمجھ کھیلتے کودتے بچے کو اٹھا کر سماعِ حدیث کروایا جاتا ہے، یا روتے ہوئے شیر خوار بچے کو حدیث سنائی جاتی ہے، یا عصرِ حاضر کے کسی مسئلہ پر گفتگو کرنے والے فقیہ کی مجلس میں بچے کو لایا جاتا ہے، یا کسی کیلئے کتاب کا قلمی نسخہ تیار کیا جاتا ہے۔
علمِ حدیث حاصل کرنے والوں میں سب سے اچھے شخص کی صورت حال یوں ہوتی ہے کہ وہ حدیث سنتے ہوئے راویوں کے نام لکھ رہا ہوتا ہے یا اونگھ لے رہا ہوتا ہے، متن حدیث پڑھنے والے کی اگرچہ دیگر افراد سے زیادہ کارکردگی ہوتی ہے لیکن اس کا ہدف بھی یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پڑھ ڈالوں، چاہے راوی کا نام ہی پڑھتے ہوئے تبدیل ہو جائے یا متن میں خرابی آ جائے یا حدیث ہی سرے سے موضوعات میں شامل ہو۔ایسے لوگوں سے علم کوسوں دور ہوتا ہے، تو عمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مجھے ایسی حرکتیں گناہ لگتی ہیں، اللہ تعالی ہی ہمیں بچائے۔
(سیر أعلام النبلاء :شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۷:۱۶۷)
اور ہمیں یہ خدشہ ہے کہ آج کل کے بہت سے طلبہ کی صورت حال انہیں لوگوں جیسی ہے جن کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے درد دل بیان کیا ہے کہ وہ حصولِ علم میں مشغول تو رہتے ہیں لیکن علم کا تقاضا یعنی عمل نہیں کرتے۔
ہم امام ابن الحاج مالکی رحمہ اللہ کی ایک لمبی نصیحت نقل کرتے ہیں جس میں انہوں نے طالب علم کو مختلف نفل عبادات کی پابندی کرنے کی تلقین فرمائی ، بلکہ انہیں حصولِ علم کے نام پر عبادت کوترک کرنے سے بھی منع کیا، کیونکہ یہ عبادات ہی اصل علم ہیں۔
امام ابن الحاج المتوفی:۷۳۷ھ) رحمہ اللہ تعالی کی طلبہ کے لئے بہت ہی قیمتی نصیحتیں
وَیَنْبَغِی لَہُ أَنْ لَا یُخَلِّیَ نَفْسَہُ مِنْ الْعِبَادَاتِ، وَأَنْ یَکُونَ لَہُ وِرْدٌ مِنْ کُلِّ شَیْء ٍ مِنْہَا إذْ أَنَّہَا سَبَبُ الْإِعَانَۃِ عَلَی مَا أَخَذَ بِسَبِیلِہِ لِقَوْلِہِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ :وَاسْتَعِینُوا بِالْغُدْوَۃِ، وَالرَّوْحَۃِ، وَشَیْء ٍ مِنْ الدُّلْجَۃِ انْتَہَی.
وَمَا یُسْتَعَانُ بِہِ لَا یُتْرَکُ فَانْظُرْ رَحِمَنَا اللَّہُ تَعَالَی، وَإِیَّاکَ لِحِکْمَۃِ الشَّرْعِ فِی قَوْلِہِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ -: وَاسْتَعِینُوا بِالْغُدْوَۃِ، وَالرَّوْحَۃِ، وَشَیْء ٍ مِنْ الدُّلْجَۃِ فَعَمَّ الطَّرَفَیْنِ، وَجَعَلَ مِنْ الثَّالِثِ جُزْء ًا، وَالْغُدْوَۃُ ہُوَ مَا کَانَ مِنْ طُلُوعِ الشَّمْسِ إلَی الزَّوَالِ، وَالرَّوْحَۃُ مَا کَانَ مِنْ الزَّوَالِ إلَی الْغُرُوبِ، وَالْمُکَلَّفُ لَا یَخْلُو حَالُہُ مِنْ أَحَدِ أَمْرَیْنِ إمَّا أَنْ یَشْتَغِلَ فِی غُدْوَتِہِ، أَوْ فِی رَوْحَتِہِ بِشَیْء ٍ مِنْ أَعْمَالِ الْآخِرَۃِ، أَوْ بِشَیْء ٍ مِنْ أَسْبَابِ الدُّنْیَا، فَإِنْ کَانَ مِنْ أَعْمَالِ الْآخِرَۃِ فَہِیَ الِاسْتِعَانَۃُ الْحَقِیقِیَّۃُ لِقِصَّۃِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَأَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا لَمَّا أَنْ بَعَثَہُمَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إلَی الْیَمَنِ یُعَلِّمَانِ النَّاسَ الدِّینَ فَافْتَرَقَا لِذَلِکَ، ثُمَّ اجْتَمَعَا فَقَالَ أَحَدُہُمَا لِلْآخَرِ:کَیْفَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَالَ:أَقْرَأُہُ قَائِمًا، وَقَاعِدًا، وَمُضْطَجِعًا، وَأَفُوقُہُ تَفْوِیقًا، وَلَا أَنَامُ، وَقَالَ مُعَاذٌ: رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَمَّا أَنَا فَأَقُومُ، وَأَنَامُ، وَأَحْتَسِبُ نَوْمَتِی کَمَا أَحْتَسِبُ قَوْمَتِی فَلَمْ، یُسَلِّمْ أَحَدُہُمَا لِلْآخَرِ حَتَّی أَتَیَا إلَی النَّبِی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَا لَہُ ذَلِکَ فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ لِأَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ:رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْک یَعْنِی مُعَاذًا الَّذِی کَانَ یَحْتَسِبُ نَوْمَہُ کَقِیَامِہِ لَکِنَّ ہَذَا بِشَرْطٍ یُشْتَرَطُ فِیہِ، وَہُوَ أَنْ یَکُونَ مَاشِیًا عَلَی مِنْہَاجِہِمْ فِی تَصَرُّفَاتِہِمْ، وَلِأَیِّ شَیْء ٍ کَانُوا یَتَصَرَّفُونَ، وَحُسْنِ نِیَّاتِہِمْ فِی ذَلِکَ کُلِّہِ، وَلِقَوْلِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ :مَا مِنْ حَسَنَۃٍ إلَّا، وَلَہَا أُخَیَّاتٌ، وَإِنْ کَانَ فِی سَبَبٍ مِنْ أَسْبَابِ الدُّنْیَا فَذَلِکَ عَوْنٌ لَہُ عَلَی الطَّاعَۃِ وَقَدْ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ :لَأَنْ أَمُوتَ بَیْنَ شُعْبَتَیْ رِجْلِی أَبْتَغِی مِنْ فَضْلِ اللَّہِ أَحَبُّ إلَیَّ مِنْ أَنْ أَمُوتَ عَلَی فِرَاشِی، وَقَدْ کَانَ بَنُو إسْرَائِیلَ إذَا أَرَادَ أَحَدُہُمْ أَنْ یَتَعَلَّمَ الْعِلْمَ انْقَطَعَ لِلْعِبَادَۃِ أَرْبَعِینَ سَنَۃً حَتَّی یَصْفُوَ بِہَا قَلْبُہُ، وَیَنْشَرِحَ صَدْرُہُ، فَحِینَئِذٍ یَأْخُذُ فِی تَعَلُّمِ الْعِلْمِ، وَذَلِکَ لِطُولِ أَعْمَارِہِمْ، وَأَمَّا ہَذِہِ الْأُمَّۃُ فَقَدْ قَالَ مَالِکٌرَحِمَہُ اللَّہُ :أَدْرَکْت النَّاسَ، وَہُمْ یَتَعَلَّمُونَ الْعِلْمَ إلَی أَنْ یَصِلَ أَحَدُہُمْ أَرْبَعِینَ سَنَۃً فَیَنْقَطِعَ لِلْعِبَادَۃِ، وَیَطْوِیَ الْفِرَاشَ انْتَہَی.وَمَعْنَی طَیِّ الْفِرَاشِ مِثْلُ مَا کَانَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ یَفْعَلُ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ ، وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَطْوِی فِرَاشَہُ، وَیَشُدُّ مِئْزَرَہُ، وَیُوقِظُ أَہْلَہُ، وَیَقُومُ اللَّیْلَ کُلَّہُ ، وَإِذَا کَانَ ذَلِکَ کَذَلِکَ فَیَحْتَاجُ فِی أَوَّلِ طَلَبِہِ الْعِلْمَ أَنْ یَمْزُجَہُ بِالتَّعَبُّدِ، إذْ أَنَّہُ لَیْسَ ثَمَّ عُمُرٌ طَوِیلٌ فِی الْغَالِبِ فِی ہَذَا الزَّمَانِ حَتَّی یَتْرُکَ لَہُ بُرْہَۃً مِنْہُ فَیُخْشَی عَلَیْہِ أَنْ یَمُوتَ، وَہُوَ فِی السَّبَبِ قَبْلَ وُصُولِہِ لِلْمَقْصُودِ، وَقَدْ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْعُودٍ: رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ تَعَلَّمُوا مَا شِئْتُمْ أَنْ تَتَعَلَّمُوا فَلَنْ یَأْجُرَکُمْ اللَّہُ عَلَیْہِ حَتَّی تَعْمَلُوا؛ وَلِأَنَّ الْعِلْمَ کَالشَّجَرَۃِ، وَالتَّعَبُّدَ کَالثَّمَرَۃِ، فَإِذَا کَانَتْ الشَّجَرَۃُ لَا ثَمَرَ لَہَا فَلَیْسَ لَہَا فَائِدَۃٌ کُلِّیَّۃٌ، وَإِنْ کَانَتْ حَسَنَۃَ الْمَنْظَرِ نَاعِمَۃً، وَقَدْ یُنْتَفَعُ بِہَا لِلظِّلِّ وَغَیْرِہِ،وَلَکِنَّ الَّذِی عَلَیْہِ الْمُعَوَّلُ قَدْ عُدِمَ مِنْہَا، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَیْضًا:رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ تَکَلَّمُوا بِالْحَقِّ تُعْرَفُوا بِہِ، وَاعْمَلُوا بِہِ تَکُونُوا مِنْ أَہْلِہِ انْتَہَی وَلْیُحْذَرْ أَنْ یَتَکَلَّفَ مِنْ الْعَمَلِ مَا عَلَیْہِ فِیہِ مَشَقَّۃٌ، أَوْ یُخِلَّ بِاشْتِغَالِہِ بِالْعِلْمِ، إذْ أَنَّ اشْتِغَالَہُ بِالْعِلْمِ أَفْضَلُ کَمَا تَقَدَّمَ، وَہَذَا بَابٌ کَثِیرًا مَا یَدْخُلُ مِنْہُ الشَّیْطَانُ عَلَی الْمُشْتَغِلِینَ بِالْعِلْمِ إذَا عَجَزَ عَنْ تَرْکِہِمْ لَہُ فَیَأْمُرُہُمْ بِکَثْرَۃِ الْأَوْرَادِ حَتَّی یَنْقُصَ اشْتِغَالُہُمْ؛ لِأَنَّ الْعِلْمَ ہُوَ الْعُدَّۃُ الَّتِی یَتَلَقَّی بِہَا، وَیُحَذِّرُ مِنْہُ بِہَا فَإِذَا عَجَزَ عَنْ التَّرْکِ رَجَعَ إلَی بَابِ النَّقْصِ، وَہُوَ بَابٌ قَدْ یَغْمُضُ عَلَی کَثِیرٍ مِنْ طَلَبَۃِ الْعِلْمِ؛ لِأَنَّہُ بَابُ خَیْرٍ، وَعَادَۃُ الشَّیْطَانِ لَا یَأْمُرُ بِخَیْرٍ فَیَلْتَبِسُ الْأَمْرُ عَلَی الطَّالِبِ فَیُخِلُّ بِحَالِہِ، وَکَانَ سَیِّدِی أَبُو مُحَمَّدٍ – رَحِمَہُ اللَّہُ تَعَالَی یَقُولُ:یَنْبَغِی لِطَالِبِ الْعِلْمِ أَنْ یَکُونَ عَمَلُہُ فِی عِلْمِہِ مِثْلَ الْمِلْحِ فِی الْعَجِینِ إنْ عُدِمَ مِنْہُ لَمْ یَنْتَفِعْ بِہِ، وَالْقَلِیلُ مِنْہُ یُصْلِحُہُ، وَإِذَا کَانَ ذَلِکَ کَذَلِکَ فَیَنْبَغِی لَہُ أَنْ یَشُدَّ یَدَہُ عَلَی مُدَاوَمَتِہِ عَلَی فِعْلِ السُّنَنِ، وَالرَّوَاتِبِ، وَمَا کَانَ مِنْہَا تَبَعًا لِلْفَرْضِ قَبْلَہُ، أَوْ بَعْدَہُ، فَإِظْہَارُہَا فِی الْمَسْجِدِ أَفْضَلُ مِنْ فِعْلِہَا فِی بَیْتِہِ کَمَا کَانَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ یَفْعَلُ مَا عَدَا مَوْضِعَیْنِ، فَإِنَّہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کَانَ لَا یَفْعَلُہُمَا إلَّا فِی بَیْتِہِ، وَہُمَا الرُّکُوعُ بَعْدَ صَلَاۃِ الْجُمُعَۃِ، وَالرُّکُوعُ بَعْدَ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ.أَمَّا الْجُمُعَۃُ فَقَدْ تَبَیَّنَ ذَلِکَ فِی قِصَّۃِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ لَمَّا أَنْ قَامَ بَعْضُ النَّاسِ یَرْکَعُ بَعْدَ الْجُمُعَۃِ، فَأَقْعَدَہُ عُمَرُ، وَقَالَ لَہُ:اجْلِسْ تُشْبِہُ الْجُمُعَۃُ بِمَنْ فَاتَتْہُ رَکْعَتَانِ مِنْ الظُّہْرِ، وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْظُرُ إلَیْہِ فَلَمْ یَعِبْ عَلَیْہِ ،وَلِأَنَّہَا لَوْ صُلِّیَتْ فِی الْمَسْجِدِ لَکَانَ ذَلِکَ ذَرِیعَۃٌ لِأَہْلِ الْبِدَعِ الَّذِینَ لَا یَرَوْنَ صِحَّۃَ صَلَاۃِ الْجُمُعَۃِ إلَّا خَلْفَ إمَامٍ مَعْصُومٍ، وَأَمَّا الْمَغْرِبُ فَمِنْ بَابِ اللُّطْفِ، وَالرَّحْمَۃِ، وَالشَّفَقَۃِ عَلَی الْأُمَّۃِ؛ لِأَنَّ الْغَالِبَ مِنْہُمْ أَنَّہُمْ کَانُوا صِیَامًا، وَأَنَّ مَنْ کَانَ فِی الْبَیْتِ مِنْ النِّسَاء ِ، وَالصِّبْیَانِ یَنْتَظِرُونَ صَاحِبَ الْبَیْتِ حَتَّی یَأْتِیَ فَیَأْکُلُونَ مَعَہُ، فَلَوْ رَکَعَ فِی الْمَسْجِدِ لَتَشَوَّفُوا إلَی مَجِیئِہِ، أَلَا تَرَی أَنَّہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کَانَ إذَا سَمِعَ، وَہُوَ فِی الصَّلَاۃِ بُکَاء َ الصَّبِیِّ یُخَفِّفُ مَخَافَۃَ أَنْ تُفْتَتَنَ أُمُّہُ سِیَّمَا فِی حَقِّ لْعَالِمِ، وَالْمُتَعَلِّمِ؛ لِأَنَّہُمَا قُدْوَۃٌ کَمَا تَقَدَّمَ.وَہَذَا کُلُّہُ بَعْدَ تَحْصِیلِ الْفَرَائِضِ، وَکَذَلِکَ قَضَاء ُ الْفَوَائِتِ إنْ کَانَتْ عَلَیْہِ؛ لِأَنَّہُ لَا یَفْعَلُ السُّنَنَ، وَعَلَیْہِ شَیْء ٌ مِنْ ذَلِکَ، وَکَذَلِکَ لَا یُخَلِّی نَفْسَہُ مِنْ رُکُوعِ الضُّحَی لِقَوْلِ عَائِشَۃَ:رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا لَوْ نُشِرْ لِی أَبَوَایَ مَا تَرَکْتہَا، وَمَعْنَاہُ لَوْ أُحْیِیَا لِی، وَقَامَا مِنْ قَبْرَیْہِمَا مَا اشْتَغَلْت بِہِمَا عَنْہَا، وَکَذَلِکَ یُحَافِظُ عَلَی قِیَامِ اللَّیْلِ، وَلَا یُخَلِّی نَفْسَہُ مِنْہُ، وَہُوَ خَمْسُ تَسْلِیمَاتٍ غَیْرَ الْوِتْرِ، وَیَقْرَأُ فِیہَا بِمَا خَفَّ مِنْ الْقُرْآنِ یَکُونُ لَہُ فِی تِلْکَ الرَّکَعَاتِ حِزْبٌ مَعْلُومٌ مِنْ حِزْبَیْنِ إلَی ثَلَاثَۃٍ؛ لِأَنَّ أَحَبَّ الْعَمَلِ إلَی اللَّہِ أَدْوَمُہُ، وَإِنْ قَلَّ کَمَا جَاء َ فِی الْحَدِیثِ، فَإِنْ کَانَ الْحِزْبُ عَلَی ہَذَا الْمِقْدَارِ فَالْغَالِبُ أَنَّہُ قَلَّ أَنْ یَفُوتَ لِقِلَّۃِ الْمَشَقَّۃِ فِیہِ، وَإِنْ کَانَ حَافِظًا لِلْقُرْآنِ فَہَذَا الْمِقْدَارُ مِنْ التِّلَاوَۃِ یَکْفِیہِ مَعَ اشْتِغَالِہِ بِالْعِلْمِ، وَلَا یَنْسَی الْخَتْمَۃَ فِی الْغَالِبِ إذَا دَامَ عَلَی ذَلِکَ، وَقَدْ ذَکَرَ الْبَاجِیُّ رَحِمَہُ اللَّہُ فِی شَرْحِ الْمُوَطَّأِ مَا مَعْنَاہُ: أَنَّہُ لَمْ یَزَلْ النَّاسُ یَقُومُونَ فِی بُیُوتِہِمْ طُولَ السَّنَۃِ بِہَذَا الْمِقْدَارِ الَّذِی یَقُومُونَ بِہِ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ فِی الْمَسَاجِدِ، لَکِنْ لَمَّا أَنْ کَانَ فِی النَّاسِ مَنْ لَمْ یَجْمَعْ الْقُرْآنَ کُلَّہُ جُعِلَ لَہُمْ شَہْرُ رَمَضَانَ فِی السَّنَۃِ یَجْمَعُونَ فِیہِ فِی الْمَسَاجِدِ لِیَسْمَعَ مَنْ لَمْ یَجْمَعْ الْخَتْمَۃَ کَلَامَ رَبِّہِ، فَإِنْ قَامَ مِنْ اللَّیْلِ، وَوَجَدَ مَعَہُ الْکَسَلَ، وَثِقَلَ النَّوْمِ، فَإِذَا کَانَ الْحِزْبُ عَلَی مَا وَصَفْنَاہُ سَہُلَ عَلَیْہِ أَمْرُہُ، وَأَتَی بِہِ، وَرَجَعَ إلَی النَّوْمِ إنْ لَمْ یَطْلُعْ عَلَیْہِ الْفَجْرُ، وَعَلَی ہَذَا دَرَجَ مَنْ مَضَی أَلَا تَرَی أَنَّہُمْ قَدْ قَالُوا فِیمَنْ فَاتَہُ وِرْدُہُ مِنْ اللَّیْلِ: إنَّ لَہُ أَنْ یُصَلِّیَہُ مَا بَیْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ، وَصَلَاۃِ الصُّبْحِ، وَقَدْ کَانُوا یُغْلِسُونَ بِصَلَاۃِ الصُّبْحِ کَمَا ہُوَ فِی الْحَدِیثِ مَشْہُورٌ مَعْلُومٌ، وَذَلِکَ أَدَلُّ دَلِیلٍ عَلَی خِفَّۃِ الْوَرْدِ، وَہَذَا الَّذِی تَقَدَّمَ ذِکْرُہُ إنَّمَا ہُوَ مَعَ عَدَمِ وُجُودِ الْجِدِّ، وَالِاجْتِہَادِ، وَأَمَّا مَعَ النَّشَاطِ، وَقُوَّۃِ الْعَزْمِ فَیَأْخُذُ مِنْ ذَلِکَ مَا اسْتَطَاعَ، وَمَا وَجَدَ إلَیْہِ السَّبِیلَ فَإِنْ وَجَدَ حَلَاوَۃَ الْمُنَاجَاۃِ فِی التِّلَاوَۃِ فَلْیَمْضِ فِیہَا، وَلَا یَقْتَصِرْ عَلَی حِزْبِہِ الْمُعْتَادِ، وَلَوْ خَتَمَ الْخَتْمَۃَ، وَابْتَدَأَہَا ثَانِیًا، وَثَالِثًا، وَہَکَذَا أَلَا تَرَی أَنَّہُ لَوْ قَرَأَ مَثَلًا فِی الرَّکْعَۃِ الْأُولَی بِحِزْبٍ فَالْمَشْرُوعُ فِی الثَّانِیَۃِ أَنْ یَقْرَأَ فِیہَا بِمِثْلِ الْأُولَی، أَوْ أَقَلَّ،فَلَوْ وَجَدَ الْحَلَاوَۃَ فِی الثَّانِیَۃِ فَلْیَمْضِ لِسَبِیلِہِ مَا دَامَ یَجِدُ ذَلِکَ، وَلَوْ طَالَ الْأَمْرُ، فَإِنْ طَلَعَ عَلَیْہِ الْفَجْرُ فَلْیَرْجِعْ عَمَّا ہُوَ بِصَدَدِہِ إلَی الِاشْتِغَالِ بِفَرْضِ الْوَقْتِ لَکِنْ یُکْمِلُ خَمْسَ تَسْلِیمَاتٍ مُخَفَّفَۃٍ کَمَا لَوْ نَامَ عَنْ حِزْبِہِ فَإِنَّہُ یُوقِعُہُ مَا بَیْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ، وَصَلَاۃِ الصُّبْحِ کَمَا تَقَدَّمَ، وَکَانَ سَیِّدِی أَبُو مُحَمَّدٍ رَحِمَہُ اللَّہُ یَقُولُ:مَا یَنْبَغِی لِلْمَرْء ِ إذَا وَجَدَ الْحَلَاوَۃَ فِی شَیْء ٍ أَنْ یَنْتَقِلَ عَنْہُ. مِثْلَ أَنْ یَجِدَ الْحَلَاوَۃَ فِی الدُّعَاء ِ فِی غَیْرِ الصَّلَاۃِ فَلَا یَقْطَعُہُ، وَلَا یَنْظُرُ إلَی غَیْرِہِ مِنْ الْأَوْرَادِ، وَکَذَلِکَ إنْ وَجَدَ الْحَلَاوَۃَ فِی الرُّکُوعِ فَلَا یَرْفَعُ، وَکَذَلِکَ إنْ وَجَدَہَا فِی السُّجُودِ اللَّہُمَّ إلَّا أَنْ یَخَافَ عَلَی فَوَاتِ الْفَرَائِضِ فِی الْجَمَاعَۃِ فَلْیَقْطَعْ ذَلِکَ لِأَجْلِہَاوَقَدْ کَانَ السَّلَفُ رِضْوَانُ اللَّہِ عَلَیْہِمْ یُغْلِسُونَ بِصَلَاۃِ الصُّبْحِ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ غَیْرُ جَمَاعَۃٍ وَاحِدَۃٍ؛ لِأَنَّ الْمَقْصُودَ الْأَعْظَمَ بِطَلَبِ الْعِلْمِ، وَقِیَامِ اللَّیْلِ، وَغَیْرِہِمَا مِمَّا یُقَرِّبُ مِنْ اللَّہِ تَعَالَی إنَّمَا ذَلِکَ کُلُّہُ لَعَلَّ أَنْ یَحْصُلَ لَہُ شَیْء ٌ مِمَّا تَقَدَّمَ ذِکْرُہُ مِنْ الْحَلَاوَۃِ فِی الْمُنَاجَاۃِ فِی وِرْدِہِ، أَوْ الدُّعَاء ِ، أَوْ غَیْرِہِمَا، إلَّا أَنْ یَعْرِضَ الْفَرْضُ فَیَفْعَلَ کَمَا سَبَقَ، وَقَدْ وَرَدَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہُ مَرَّ فِی وِرْدِہِ بِقَوْلِہِ تَعَالَی (إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ)(المائدۃ: ۱۱۸)فَبَقِیَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ یُکَرِّرُہَا حَتَّی طَلَعَ الْفَجْرُ ، وَقَدْ حُکِیَ عَنْ أَبِی یَزِیدَ الْبِسْطَامِیِّ رَحِمَہُ اللَّہُ ، وَنَفَعَنَا بِہِ أَنَّہُ خَرَجَ لَیْلَۃً مِنْ الْمَسْجِدِ، وَقَدْ صَلَّی الْعِشَاء َ فَخَرَجَ خَلْفَہُ بَعْضُ إخْوَانِہِ، وَہُوَ لَمْ یَشْعُرْ بِہِ، فَإِذَا ہُوَ قَدْ رَفَعَ رِجْلَہُ الْیُمْنَی فَوَضَعَہَا عَلَی رُکْبَتِہِ الْیُسْرَی، وَقَبَضَ عَلَی لِحْیَتِہِ بِیَدِہِ، وَرَفَعَ رَأْسَہُ شَاخِصًا إلَی السَّمَاء ِ، فَوَقَفَ الرَّجُلُ خَلْفَہُ یَنْتَظِرُہُ إلَی أَنْ طَلَعَ الْفَجْرُ فَلَمَّا أَنْ طَلَعَ الْفَجْرُ رَجَعَ أَبُو یَزِیدَ إلَی الْمَسْجِدِ لِصَلَاۃِ الصُّبْحِ، فَرَجَعَ الرَّجُلُ خَلْفَہُ، فَانْظُرْ رَحِمَنَا اللَّہُ تَعَالَی وَإِیَّاکَ إلَی الْحَالَۃِ الَّتِی کَانَ فِیہَا أَبُو یَزِیدَ، وَإِلَی تَرْکِہِ مَا کَانَ فِیہِ، وَإِتْیَانِہِ إلَی الْفَرْضِ فِی جَمَاعَۃٍ مَعَ أَنَّہُمْ قَدْ قَالُوا فِیمَنْ کَانَ الْقُرْآنُ یَنْفَلِتُ مِنْہُ لِقِلَّۃِ حِفْظِہِ:فَلْیَقُمْ بِہِ فِی اللَّیْلِ فِی الصَّلَاۃِ، فَإِنَّ ذَلِکَ یُثَبِّتُہُ لَہُ، وَمَا ذَاکَ إلَّا لِبَرَکَۃِ امْتِثَالِ السُّنَّۃِفِی قِیَامِ اللَّیْلِ سِیَّمَا إنْ کَانَ فِی الثُّلُثِ الْآخِرِ مِنْہُ لِمَا وَرَدَ فِی ذَلِکَ مِنْ الْبَرَکَاتِ، وَالْخَیْرَاتِ أَلَا تَرَی إلَی عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ یَنْزِلُ رَبُّنَا کُلَّ لَیْلَۃٍ إلَی سَمَاء ِ الدُّنْیَا فِی الثُّلُثِ الْآخِرِ مِنْ اللَّیْلِ فَیَقُولُ:ہَلْ مِنْ دَاعٍ فَأَسْتَجِیبَ لَہُ؟ ہَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَہُ؟ إلَخْ، وَمَعْنَی النُّزُولِ ہَاہُنَا نُزُولُ طَوْلٍ وَمَنٍّ، وَتَفَضُّلٍ، وَکَرَمٍ عَلَی عِبَادِہِ، لَا نُزُولُ انْتِقَالٍ تَعَالَی اللَّہُ عَنْ ذَلِکَ عُلُوًّا کَبِیرًا، وَفِی قِیَامِ اللَّیْلِ مِنْ الْفَوَائِدِ جُمْلَۃٌ، فَلَا یَنْبَغِی لِطَالِبِ الْعِلْمِ أَنْ یَفُوتَہُ مِنْہَا شَیْء ٌ فَمِنْہَا:أَنْ یَحُطَّ الذُّنُوبَ کَمَا یَحُطُّ الرِّیحُ الْعَاصِفُ الْوَرَقَ الْیَابِسَ مِنْ الشَّجَرَۃِ.الثَّانِی:أَنَّہُ یُنَوِّرُ الْقَلْبَ.الثَّالِثُ: أَنَّہُ یُحَسِّنُ الْوَجْہَ الرَّابِعُ: أَنَّہُ یُذْہِبُ الْکَسَلَ، وَیُنَشِّطُ الْبَدَنَ الْخَامِسُ:أَنَّ مَوْضِعَہُ تَرَاہُ الْمَلَائِکَۃُ مِنْ السَّمَاء ِ کَمَا یَتَرَاء َی الْکَوْکَبُ الدُّرِّیُّ لَنَا فِی السَّمَاء ِوَقَدْ رَوَی التِّرْمِذِیُّ عَنْ بِلَالٍ، وَأَبِی أُمَامَۃَ قَالَا:إنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ فَإِنَّہُ دَأْبُ الصَّالِحِینَ قَبْلَکُمْ، وَقُرْبَۃٌ إلَی اللَّہِ تَعَالَی، وَمَنْہَاۃٌ عَنْ الْإِثْمِ، وَتَکْفِیرٌ لِلسَّیِّئَاتِ، وَمَطْرَدَۃٌ لِلدَّاء ِ عَنْ الْجَسَدِ وَرَوَی أَبُو دَاوُد فِی سُنَنِہِ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ:صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ قَامَ بِعَشْرِ آیَاتٍ لَمْ یُکْتَبْ مِنْ الْغَافِلِینَ، وَمَنْ قَامَ بِمِائَۃِ آیَۃٍ کُتِبَ مِنْ الْقَانِتِینَ، وَمَنْ قَامَ بِأَلْفِ آیَۃٍ کُتِبَ مِنْ الْمُقَنْطِرِینَ ، وَلَعَلَّک تَقُولُ: إنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ إنْ فَعَلَ مَا ذَکَرْتُمُوہُ تَعَطَّلَتْ عَلَیْہِ وَظَائِفُہُ مِنْ الدَّرْسِ، وَالْمُطَالَعَۃِ، وَالْبَحْثِ فَالْجَوَابُ:أَنَّ نَفْحَۃً مِنْ ہَذِہِ النَّفَحَاتِ تَعُودُ عَلَی طَالِبِ الْعِلْمِ بِالْبَرَکَاتِ، وَالْأَنْوَارِ، وَالتُّحَفِ مَا قَدْ یَعْجِزُ الْوَاصِفُ عَنْ وَصْفِہِ، وَبِبَرَکَۃِ ذَلِکَ یَحْصُلُ لَہُ أَضْعَافُ ذَلِکَ فِیمَا بَعْدُ، مَعَ أَنَّ ہَذَا أَمْرٌ عَزِیزٌ قَلَّ أَنْ یَقَعَ إلَّا لِلْمُعْتَنِی بِہِ، وَالْعِلْمُ وَالْعَمَلُ إنَّمَا ہُمَا وَسِیلَتَانِ لِمِثْلِ ہَذِہِ النَّفَحَاتِ.وَقَدْ قَال عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ إنَّ لِلَّہِ نَفَحَاتٍ فَتَعَرَّضُوا لِنَفَحَاتِ اللَّہِ انْتَہَی وَمَا تَقَدَّمَ ذِکْرُہُ فِیمَا حَکَاہُ الْبَاجِیُّ، وَغَیْرُہُ مِنْ أَنَّ عَادَۃَ السَّلَفِ مَضَتْ عَلَی فِعْلِ ہَذِہِ الصَّلَاۃِ طُولَ السَّنَۃِ فِی الْبُیُوتِ یُؤْخَذُ مِنْہُ الدَّلِیلُ الْوَاضِحُ عَلَی أَنَّ ذَلِکَ لَا یُفْعَلُ فِی الْمَسَاجِدِ، وَلَا فِی الْمَوَاضِعِ الْمَشْہُورَۃِ إلَّا فِی قِیَامِ رَمَضَانَ وَحْدَہُ، وَإِذَا کَانَ ذَلِکَ کَذَلِکَ فَفِعْلُ الْقِیَامِ فِی غَیْرِ رَمَضَانَ فِی غَیْرِ الْبُیُوتِ بِدْعَۃٌ، وَقَدْ تَقَدَّمَ غَیْرَ مَرَّۃٍ أَنَّ الْبِدْعَۃَ لَا تَأْتِی إلَّا بِشَرٍّ، وَالْخَیْرَ کُلَّہُ فِی الِاتِّبَاعِ، وَقَدْ نَصَّ عُلَمَاؤُنَا رَحْمَۃُ اللَّہِ عَلَیْہِمْ أَنَّ ذَلِکَ یُمْنَعُ فِی غَیْرِ رَمَضَانَ إنْ فُعِلَ فِی غَیْرِ الْبُیُوتِ کَمَا تَقَدَّمَ لَکِنَّ قِیَامَ السُّنَّۃِ فِی الْبُیُوتِ فِیمَا عَدَا رَمَضَانَ مُخَالِفٌ لِقِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ فِی کَوْنِہِ یُفْعَلُ بَعْدَ النَّوْمِ فِی الْغَالِبِ، وَقَدْ یُفْعَلُ قَبْلَہُ، وَیَکْفِی.وَکَثِیرٌ مِنْہُمْ مَنْ یَفْعَلُہُ قَبْلَ النَّوْمِ، وَبَعْدَہُ، وَالْغَالِبُ أَنَّ فِعْلَہُ بَعْدَ النَّوْمِ أَکْثَرُ، وَلَا یَجْمَعُونَ لَہُ، وَلَا یُشْہِرُونَہُ بِخِلَافِ قِیَامِ رَمَضَانَ فِی الْمَسَاجِدِ فَإِنَّہُ لَا یُفْعَلُ إلَّا قَبْلَ النَّوْمِ، وَلِأَجْلِ ہَذَا الْمَعْنَی قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ :والَّتِی یَنَامُونَ عَنْہَا أَفْضَلُ یَعْنِی مَنْ نَامَ أَوَّلَ اللَّیْلِ، وَقَامَ آخِرَہُ فَہُوَ أَفْضَلُ مِمَّنْ قَامَ أَوَّلَہُ فَقَطْ، وَأَمَّا قِیَامُ السَّلَفِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ فَذَلِکَ أَفْضَلُ عَلَی کُلِّ حَالٍ إلَّا أَنَّہُمْ کَانُوا إذَا فَرَغُوا مِنْ قِیَامِہِمْ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ یَسْتَعْجِلُونَ الْخَدَمَ بِالطَّعَامِ مَخَافَۃَ طُلُوعِ الْفَجْرِ، وَلَا شَکَّ أَنَّ مَنْ قَامَ اللَّیْلَ کُلَّہُ أَفْضَلُ مِمَّنْ قَامَ بَعْضَہُ؛ لِأَنَّہُ حَازَ فَضْلَ اللَّیْلِ کُلِّہِ فَتَحَصَّلَ مِنْ ہَذَا أَنَّ قِیَامَ اللَّیْلِ یَنْقَسِمُ عَلَی أَرْبَعَۃِ أَقْسَامٍ: إمَّا أَنْ یَقُومَ اللَّیْلَ کُلَّہُ، وَلَا شَکَّ فِی فَضِیلَتِہِ، أَوْ یَقُومَ أَوَّلَہُ، وَآخِرَہُ، وَہُوَ قَرِیبٌ مِنْ الْأَوَّلِ، أَوْ یَقُومَ آخِرَہُ دُونَ أَوَّلِہِ، وَہُوَ الْمُشَارُ إلَیْہِ بِالْأَفْضَلِیَّۃِ بِقَوْلِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ :وَاَلَّتِی یَنَامُونَ عَنْہَا أَفْضَلُ، وَإِمَّا أَنْ یَقُومَ أَوَّلَہُ دُونَ آخِرِہِ، وَہُوَ الْمَفْضُولُ مِنْ قَوْلِ عُمَرَرَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَیَنْبَغِی لَہُ أَنْ یُحَافِظَ عَلَی وِرْدِ الصَّوْمِ، وَلَا یَنْبَغِی لَہُ أَنْ یَتَعَلَّلَ بِأَنَّہُ مَشْغُولٌ عَنْہُ بِطَلَبِ الْعِلْمِ، إذْ صِیَامُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ فِی الشَّہْرِ لَیْسَ فِیہَا کَبِیرُ مَشَقَّۃٍ فِی الْغَالِبِ سِیَّمَا عَلَی مَا کَانَ یَصُومُہَا مَالِکٌ رَحِمَہُ اللَّہُ ،فَإِنَّہُ کَانَ یُفْطِرُ تِسْعَۃَ أَیَّامٍ، وَیَصُومُ عَاشِرَہَا، وَہَذَا کَمَا تَقَدَّمَ فِی صَلَاۃِ اللَّیْلِ فَإِنْ وَجَدَ النَّشَاطَ، وَالْقُوَّۃَ عَلَی أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ بَادَرَ إلَیْہِ مَعَ عَدَمِ وُقُوعِ الْخَلَلِ فِیمَا ہُوَ بِسَبِیلِہِ، فَإِنْ ادَّعَی أَنَّہُ یَعْجِزُ عَنْ صَوْمِ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ فِی الشَّہْرِمَعَ طَلَبِ الْعِلْمِ فَیَنْبَغِی لِہَذَا أَنْ یَتْرُکَ طَلَبَ الْعِلْمِ فِی تِلْکَ الثَّلَاثَۃِ، وَیَصُومَہَا، لِئَلَّا تَفُوتَہُ ہَذِہِ الْفَضِیلَۃُ الْعُظْمَی لِقَوْلِہِ:عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ الْحَسَنَۃُ بِعَشْرٍ فَیَکُونُ ذَلِکَ کَصِیَامِ الدَّہْرِ، ثُمَّ کَذَلِکَ یَکُونُ حَالُہُ فِی جَمِیعِ الْأَعْمَالِ لَا یُخَلِّی نَفْسَہُ مِنْ شَیْء ٍ مِنْہَا کَمَا تَقَدَّمَ.وَیَکُونُ الْغَالِبُ عَلَیْہِ اشْتِغَالَہُ بِالدَّرْسِ، وَالْمُطَالَعَۃِ، وَالتَّفَہُّمِ، وَالْبَحْثِ مَعَ الْإِخْوَانِ الَّذِینَ یُرْتَجَی النَّفْعُ بِہِمْ، وَلِقَاء ِ مَشَایِخِ الْعِلْمِ الَّذِینَ جَعَلَہُمْ اللَّہُ سَبَبًا لِلْفَتْحِ، وَالْخَیْرِ، وَیُوَاظِبُ عَلَی ذَلِکَ۔
ترجمہ :امام أبو عبد اللہ محمد بن محمد بن محمد العبدری الفاسی المالکی الشہیر بابن الحاج المتوفی:۷۳۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ طالب علم کو چاہیے کہ اپنے آپ کو عبادات سے دور مت کرے، بلکہ ہر قسم کی کچھ نہ کچھ نفل عبادات ضرور کرے، کیونکہ یہ حصولِ علم کیلئے بھر پور ممد و معاون ثابت ہوگی؛ اس کی دلیل حضورتاجدارختم نبوتﷺ کا فرمان ہے: صبح و شام کی نمازاور رات کے قیام کے ذریعے تعاون حاصل کرو،اسے بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے۔
بنو اسرائیل میں سے جب کوئی علم حاصل کرنا چاہتا تو قلبی صفائی اور شرح صدر کیلئے پہلے چالیس سال تک محو عبادت رہتا، پھر کہیں جا کر علم حاصل کرتا تھا، کیونکہ ان کی عمریں بہت لمبی ہوتی تھیں، لیکن اس امت کے بارے میں امام مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ چالیس سال کی عمر تک علم حاصل کرتے پھر عبادت کیلئے یکسو ہو جاتے، اور بستر گول ہی رکھتے تھے۔
یہاں بستر گول رکھنے سے مراد ویسا ہی عمل ہے جو آپ ﷺ رمضان المباک کے آخری عشرے میں کیا کرتے تھے کہ سونے کی بجائے کمر کس کے اہل خانہ سمیت رات بھر عبادت گزاری کرتے تھے۔
اگر معاملہ ایسے ہی ہے تو حصول علم کی ابتدا میں ہی عبادت گزاری شروع کر دے، کیونکہ آج کل عمر اتنی لمبی نہیں ہوتی کہ بعد میں عبادت گزاری کا وقت ملے، ورنہ تو مقصد زندگی پانے سے پہلے ہی موت کے خدشات زیادہ ہوتے جائیں گے۔
حضرت سیدناعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ:جو کچھ سیکھنا ہے سیکھ لو، تمہیں اللہ تعالی کی طرف سے صرف اسی وقت اجر ملے گا جب تم اس پر عمل کرو گے۔
اور چونکہ علم کی حیثیت شجر اور عبادت کی حیثیت ثمر کی طرح ہے اس لیے شجر بے ثمر کا بالکل کوئی فائدہ نہیں ہوتا، چاہے دیکھنے میں آنکھوں کو لبھائے بھی سہی لیکن اصل مقصود ثمر نہ ہونے کی وجہ سے اس کا سایہ وغیرہ بھی اصل ہدف کے مقابلے میں معمولی ہے۔طالب علم کو ایسی عبادات سے گریز کرنا چاہیے جن میں معمول سے زیادہ مشقت ہو، یا حصولِ علم میں رکاوٹ بنے؛ کیونکہ حصولِ علم نفل عبادات سے افضل ہے، جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے، لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے بہت سے طالب علم شیطان کے دھوکے میں آ جاتے ہیں؛ کیونکہ شیطان انہیں حصولِ علم سے روک نہیں پاتا تو پھر انہیں ایسے ورد اور اذکار میں مشغول کرنے کی کوشش کرتا ہے جن سے حصولِ علم میں رکاوٹیں پیدا ہوں، اس لیے کہ علم ہی واحد ہتھیار ہے جس کے ذریعے اپنا دفاع ممکن ہے، اور شیطان سے بچاؤ کا امکان ہے، چنانچہ جب شیطان مکمل طور پر حصولِ علم سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو پھر علم کی مقدار یا معیار متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے، نتیجتاً یہ ہوتا ہے کہ طالب علم اس بات کی طرف توجہ نہیں دیتے (اور دل میں کہتے ہیں)کہ ذکر و اذکار بھی نیکی میں شامل ہیں اور شیطان نیکی کا حکم نہیں دے سکتا، اس طرح طالب علم آسانی سے شیطان کے دھوکے میں آ جاتا ہے اور علم کی مقدار یا معیار میں کمی کا باعث بنتا ہے۔
اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو طالب علم کو مؤکدہ اور غیر مؤکدہ سنتوں کی ادائیگی کیلئے کمر کس لینی چاہیے یہ سنتیں فرضوں سے پہلے ہوں یا بعد میں۔لیکن یہ بات واضح رہے کہ سنتوں کا اہتمام فرائض اور قضا نمازیں ہونے کی صورت میں ان سب کی ادائیگی کے بعد ہی کرے؛ کیونکہ اگر فرائض میں سے کچھ باقی ہو تو نفل عبادت نہیں کی جا سکتی۔
طالب علم کو چاہیے کہ نماز اشراق مت چھوڑے ؛ کیونکہ حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:اگر میرے والدین بھی دوبارہ زندہ ہو جائیں تو میں نماز اشراق نہیں چھوڑ سکتی ،میرے والدین کے دوبارہ زندہ ہونے کی خوشی بھی مجھے ان کی ادائیگی سے غافل نہیں کر سکتی۔
اسی طرح قیام اللیل کا خصوصی اہتمام کرے، اپنے آپ کو قیام اللیل سے محروم مت رکھے، قیام اللیل کی مقدار وتروں کے علاوہ دس رکعات ہیں، ان رکعات میں قرآن کریم کی تلاوت کرے اور ہر رکعت میں معینہ مقدار میں تلاوت ہو کہ روزانہ دو یا تین پارے پڑھ لے؛ کیونکہ اللہ تعالی کو ایسے اعمال پسند ہیں جو ہمیشہ کیے جائیں چاہے کم ہی کیوں نہ ہوں، جیسے کہ حدیث میں بھی آیا ہے، قیام اللیل میں بہت سے فوائد ہیں اس لیے طالب علم کو ان فوائد سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ بات آئے کہ اگر طالب علم آپ کی بتلائی ہوئی باتوں پر عمل پیرا ہونا شروع ہو جائے تو اس سے طالب علم کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہونگی؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان عبادات کی برکتوں سے طالب علم پراتنی رحمتیں اور عنایتیں ہوتی ہیں جنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ ان برکتوں کی بدولت اسے بعد میں کئی گنا زیادہ برکتیں حاصل ہوتی ہیں، اگرچہ برکتوں کا حصول بہت کم ہوتا ہے کیونکہ علم و عمل دونوں کو یکجا کرنے والے ہی بہت کم ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ علم و عمل یکجا ہوں تو بہت سی برکتیں حاصل ہوتی ہیں۔
طالب علم کو نفلی روزوں کا اہتمام بھی کرنا چاہیے، یہ مت کہے کہ وہ حصولِ علم میں مشغول ہے؛ کیونکہ عام طور پر ایک ماہ میں تین دن کے روزے رکھنے سے کوئی مشقت نہیں ہوتی، اور اگر کسی شخص کا معمول بن جائے تو بالکل محسوس بھی نہیں ہوتا؛ یہی وجہ ہے کہ امام مالک رضی اللہ عنہ اس پر عمل اس طرح کرتے کہ ہر دسویں دن روزہ رکھتے۔
روزوں کا معاملہ بھی نماز کی طرح ہے جیسے کہ پہلے گزرا ہے، یعنی کہ اگر ۳روزے رکھنے سے زیادہ کی ہمت ہو تو پھر زیادہ روزے رکھ لے لیکن یہ خیال رہے کہ اصل ہدف کے حصول میں کمی نہ آئے۔اگر طالب علم کا یہ کہنا ہو کہ وہ دوران تعلیم ایک ماہ میں تین روزے نہیں رکھ سکتا تو ایسا طالب علم تین دن چھٹی کر لے اور روزہ رکھے، تا کہ وہ اس عظیم فضیلت سے محروم نہ رہے۔اسی طرح طالب علم کو چاہیے کہ ہر قسم کی عبادت میں سے کچھ نہ کچھ ضرور عمل میں لائے، جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے، زیادہ وقت سبق یاد کرے، مطالعہ، غور و فکر پر مشتمل تعلیمی سرگرمیوں میں صرف کرے ، اور اچھے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ، اپنے ان اساتذہ کی مجلس اختیار کرے جنہیں اللہ تعالی نے خیر و بھلائی کا ذریعہ بنایا ہے، اور ہمیشہ ان سب باتوں پر کار بند رہے۔ مختصراً۔
(عبارت ہم نے اہل ذوق علماء کرام نے کے لئے مکمل نقل کردی ہے اورترجمہ میں اختصارسے کام لیاہے تاکہ اہل علم حضرات اس کومزیدپڑھ سکیں) یہ مکمل گفتگو بہت ہی نفیس ہے، ہمیں اس پر عمل پیرا رہنے کی بہت ہی اشد ضرورت ہے۔
(المدخل:أبو عبد اللہ محمد بن محمد بن محمد العبدری الفاسی المالکی الشہیر بابن الحاج (۲:۱۳۲)
طلبہ کیلئے نصیحت یہ ہے کہ طلب علم کے ساتھ ساتھ،عبادات پرزوردیں، اس طرح وہ دہرا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں گے، ان شاء اللہ انہیں اجر اور علم دونوں ملیں گے۔