کیا حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ” نائبِ پروردگار” کہنا درست ہے؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس کے بارے میں کہ زید کہتا ہے کہ سرکار مصطفی ﷺ کو یا کسی کو نائب پروردگار نہیں کہنا چاہۓ کہ یہ درست نہیں ہے زید کا کہنا ہے کہ کوئی خدا کا نائب نہیں ہوسکتا ہے مظہر اور خلیفہ کہ سکتے ہو مگر نائب کہنا درست نہیں کیا زید کا کہنا درست ہے اگر نہیں تو زید کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے مفصل اور مدلل جواب عنایت فرمائیں سائل محمد حامدرضا نظامی برگدوا نیپال
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــ
زید کا یہ قول صحیح نہیں ہے کہ سرکار مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو "نائبِ پروردگار” کہنا درست نہیں۔ ہمارے سرکار پیارے مصطفی محبوب خالق الوری تو اللہ کی عطا سے اس کے نائبِ مطلق ہیں ۔خلیفہ اور نائب ایک ہی معنی میں ہے ۔ اس لیے جب حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اللہ کا خلیفہ کہنا درست ہے تو نائب کہنا بھی درست ہے ۔ امام اہل سنت مجدد دین وملت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے قرآن مقدس میں وارد کلمہ "خلیفہ” کا ترجمہ "نائب” سے کیا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:
"وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(سورہ بقرہ:۳۰)
(ترجمہ: کنزالعرفان:)
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں تو انہوں نے عرض کیا : کیا تو زمین میں اسے نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گاحالانکہ ہم تیری حمد کرتے ہوئے تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں ۔ فرمایا:بیشک میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔”
سند المحدثین امام شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں:
” وے صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم خلیفہ مطلق و نائب کل اقدس است مے کند و مے دہد ہر چہ خواہد باذنِ وے”
(أشعۃ اللمعات ج ۴ ، ص ۳۱۵)
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
’’حضورتمام ملک وملکوت پر اللہ عزوجل کے نائب مطلق ہیں ،جن کو رب عزوجل نے اپنے اسماء وصفات کے اسرار کا خلعت پہنایا اور ہر مفرد ومرکب میں تصرف کا اختیار دیاہے، دولھا بادشاہ کی شان دکھاتا ہے، اس کا حکم برات میں نافذ ہوتاہے، سب اس کی خدمت کرتے ہیں اور اپنے کام چھوڑ کر اس کے کام میں لگے ہوتے جس بات کو اس کا جی چاہے موجود کی جاتی ہے، چین میں ہوتاہے، سب براتی اس کی خدمت میں اور اس کے طفیل میں کھانا پاتے ہیں ، یوں ہی مصطفٰی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عالم میں بادشاہ حقیقی عزوجل کی شان دکھاتے ہیں ، تمام جہاں میں ان کا حکم نافذ ہے، سب ان کے خدمت گار و زیرِ فرمان ہیں ، جو وہ چاہتے ہیں اللہ عزوجل موجود کردیتاہے ۔
(( ما أری ربک إلّا یسارع في ھواک )) ، ’’صحیح بخاری ‘‘کی حدیث ہے کہ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کرتی ہیں : ’’میں حضور کے رب کو دیکھتی ہوں کہ حضور کی خواہش میں شتابی فرماتاہے‘‘۔ تمام جہاں حضور کے صدقہ میں حضور کا دیا کھاتاہے۔کہ (( إنّما أنا قاسم واللّٰہ المعطي )) ، ’’صحیح بخاری ‘‘کی حدیث ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’ہر نعمت کا دینے والا اللہ ہے اور بانٹنے والا میں ہوں ‘‘۔ یوں تشبیہ کامل ہوئی اور حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سلطنتِ الٰہی کے دولھا ٹھہرے، والحمداللہ رب العالمین‘‘۔( الفتاوی الرضویۃ جدید ج ۱۵،ص۲۸۷)
بدر الطریقہ، صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"حضور اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم، ﷲ عزوجل کے نائبِ مطلق ہیں ، تمام جہان حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)کے تحتِ تصرّف کر دیا گیا ، جو چاہیں کریں ، جسے جو چاہیں دیں ، جس سے جو چاہیں واپس لیں ، تمام جہان میں اُن کے حکم کا پھیرنے والا کوئی نہیں ، تمام جہان اُن کا محکوم ہے اور وہ اپنے رب کے سوا کسی کے محکوم نہیں ، تمام آدمیوں کےمالک ہیں ،جو اُنھیں اپنا مالک نہ جانے حلاوتِ سنّت سے محروم رہے، تمام زمین اُن کی ملک ہے، تمام جنت اُنکی جاگیر ہے، ملکوت السمٰواتِ والارض حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے زیر ِفرمان،جنت و نار کی کنجیاں دستِ اقدس میں دیدی گئیں ، رزق وخیر اور ہر قسم کی عطائیں حضور (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں”
(بہارِ شریعت ح١ ص ٨١ تا ٨۵)
گزشتہ حوالوں کی روشنی میں واضح ہے کہ حضور علیہ السلام کے لیے اور دیگر انبیائے کرام کے لیے نائب پروردگار بولنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبـــــــہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔
٢٣/جمادی الاولی ١۴۴٣ھ//٢٩/دسمبر ٢٠٢١ء