آقاے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں از جمیل اختر مصباحی

عصبیت سے اجتناب:

نبی کریم ﷺنے اپنی زندگی میں جتنی بھی جنگیںلڑی ہیں، ان کاواحدمقصداُس خالق کے کلمہ کو چہار دانگ ِعالم میںبلنداورغالب کرناتھا، جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا، ان جنگوںمیںنہ توذاتی مفادکا دخل تھااورناہی کسی عصبیت کااثر۔ جب ہم تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں اورجنگوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں توہمیں صاف طور پر نظرآتاہے کہ لڑائیاں مفادپرستی اورعصبیت کی شکاررہی ہیں، کہیںقومی عصبیت کی جنگ ہے تو کہیں لسانی تنگ نظری کی لڑائی، کہیں معدنی تیل کے لیے معرکہ ہے توکہیں زمین داری کے لیے ہنگامہ، کہیں بادشاہت کامفادکارفرماہے توکہیں صدارت کی غرض درپیش، کہیں ٹکنالوجی کی ترقی کا حسدہے تو کہیں معاشی استحکام کی جلن، غرض کسی نہ کسی مفاد اور عصبیت کے تحت جنگیں لڑی گئی ہیں۔ موجودہ زمانے میں ہم کھل کراس کامشاہدہ کررہے ہیں۔

انسانیت کااحترام:

سن دوہجری میں ہوئی جنگ بدرمیں ستر مشرکین کام آئے، جب یہ جنگ ختم ہوگئی توحضور ﷺ نے ان مقتولین کوکنویںمیںڈلوادیااوراوپرسے مٹی پاٹ دی گئی۔یہ محض انسانیت کے احترام میں تھا۔ کیاآج کی جنگوںمیںانسانیت کے اس احترام کوملحوظ رکھاجاتاہے؟جنگوں میں توقصداً نعشوںکوبے گوروکفن چٹیل میدان میں چھوڑدیاجاتاہے تاکہ انسانیت کا جو تھوڑا احترام باقی رہ گیا ہے، اسے جانور مل کرختم کردیں، چیرپھاڑکرنے والے پرندے اوردرندے اسے گھسیٹتے پھریں، کاش ! حضورﷺ کے اس عمل کوسامنے رکھ کرمیدانِ جنگ میںبھی انسانیت کااحترام کرناسیکھتے!!!

عورتوں کوہلاک کرنے کی ممانعت:

بخاری کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے کسی جنگ میںایک خاتون کومقتول پایاتوسختی کے ساتھ جنگ میں کسی خاتون کوقتل کرنے سے منع فرمادیا۔(بخاری: باب قتل النساء فی الحرب، حدیث نمبر۳۰۱۵)کیاآج کی جنگوں میںاس بات کاخیال رکھاجاتاہے کہ عورتیںہلاک نہ کی جائیں؟ آج تو اصل محارب کاسارا غصہ انھیںپراتاراجاتاہے اور جو محارب ہوتے ہیں، وہ نشانہ بننے سے کوسو ںدوررہتے ہیں، اوریہ صرف آج کی جنگوںکاہی حال نہیں ہے بلکہ ماضی کی جنگوںمیںبھی ایسے ’’کارنامے ‘‘ عورتوں کے ساتھ انجام دیےگئے ہیں، جن کوسن کرآج بھی ہرذی شعورشخص کاجسم سن اوررونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کاش! حضور ﷺکے طرزعمل کو ان جنگوں میں ا پنایا جاتا ! ! !

بچوں کوقتل نہ کرنے کاحکم:

بچے ایسے پھول کی مانندہوتے ہیں،جسے ہرشخص محبت کی نظر سے دیکھتاہے۔حضور ﷺ کوبھی بچوں سے بے انتہامحبت تھی۔ آپ ﷺ کبھی ان کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کامعاملہ بھی نہیںفرماتے تھے۔ اگروہ کوئی غلطی کرتے تو انھیں پیار سے سمجھاتے ، غزوۂ بدرکے بعد حضرت خبیب رضی اللہ عنہ مسلمانوںکی ایک جماعت کے ساتھ مشرکینِ مکہ کی خبر دریافت کرنے گئے، اتفاق سے گرفتارکرلیے گئے، گرفتاری کے بعدبنوحارث نے اپنے باپ کے بدلے میں(جس کوحضرت خبیب نے غزوۂ بدر میں قتل کیاتھا)قتل کرنے کے لیے خرید کر قیدکردیا۔حضرت خبیب کویہ یقین ہوچکا تھا کہ ضرورقتل کیے جائیںگے چنانچہ انھوںنے اپنے رب سے ملاقات کے لیے تیاری کی اورتنظیف وتطہیرکے لیے ایک استراادھارلیا۔اسی دوران بنو حارث کی کسی خاتون کا چھوٹابچہ کھیلتے کھیلتے ان کے پاس پہنچ گیا۔ انھوں نے پیار سے اس بچے کواپنی گودمیںبٹھالیا، ماںنے جب اپنے بچے کوایسے دشمن کی گودمیںدیکھا، جسے کل قتل کیاجاناتھااور وہ اس حال میں کہ ہاتھ میںا ستراتھاتووہ حواس باختہ ہوگئی۔ حضرت خبیب نے ماں کی اس گھبراہٹ کوپہچان لیااورکہا: تم ڈررہی ہوکہ میںاسے قتل کردوںگا، میں اسے قتل نہیں کروںگااوربچے کوماں کے سپرد کردیا۔ (قصص من التاریخ الاسلامی: ص۵۷) بچوںکے ساتھ اس محبت کو اللہ کے رسول ﷺنے میدانِ جنگ میںبھی باقی رکھا اورحکم جاری کیاکہ ’’کسی بچے کو قتل نہ کیا جائے‘‘ (بخاری: کتاب الجہاد، باب قتل الصبیان فی الحرب، حدیث نمبر۳۰۱۴ / مسلم:حدیث نمبر ۵۵۴۷) اس حکم کوحضور ﷺ اورآپ کے صحابہ نے برت کر بھی دکھایا چنانچہ جہاد کی تاریخ میںبچے کوقتل کرنے کی روایت ہمیںنہیں ملتی۔کیاآج بڑوںسے کہیں زیادہ بچوںکوموت کے گھاٹ نہیںاتاراجاتاہے؟ ان سے کس جرم کابدلہ لیاجاتاہے؟وہ تو دشمنی کے نام سے بھی واقف نہیں، کاش! حضورﷺ کی سیرت کامطالعہ کیاجاتااورجنگ میں بچوں کے زیادتی نہ کرنے کے حکم پرعمل کیاجاتا!

مُثلہ نہ کرنے کاحکم:

جنگوںمیں غصے کے اظہارکاآخری طریقہ ’’مثلہ‘‘ ہے، جس میںمقتول کی بے حرمتی کے لیے اس کے اعضا و جوارح کاٹ دیے جاتے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میںاس کارواج تھا، موجودہ زمانے میںبھی دیکھنے کو ملتاہے، بس فرق طریقۂ کار کا ہوتا ہے ۔ پہلے اعضا ایک ایک کرکے کاٹے جاتے تھے اورآج بم برسا کر ایک ہی لمحے میں چیتھڑے اڑادیے جاتے ہیں۔حضوراکرم ﷺنے جتنی بھی جنگیں لڑیں، ان میں کہیںبھی مقتولین کے ساتھ بے حرمتی کاجرم نہیں کیا گیا۔ آپ کے محبوب چچا حضرت حمزہ کی شہادت کے بعدان کامثلہ کیاگیا، اگرآپ چاہتے تواس کابدلہ بعدکی جنگوںمیں لے لیتے لیکن حضور ﷺ نے غم کاکڑواگھونٹ تو پینا پسندفرمایا، انتقاماً بھی ایسی حرکت کوگوارانہیںفرمایا بلکہ صراحۃً اس کی ممانعت فرمائی چنانچہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ حضوراکرم ﷺجب بھی ہمارے درمیان خطیب کی حیثیت سے کھڑے ہوئے تو صدقے کاحکم دیااورمثلہ کرنے سے منع فرمایا۔(مسنداحمد: حدیث نمبر ۲۰۰۹۷) کاش! جنگ کی آگ بھڑکانے والےحضور ﷺکے اس طرزعمل کو اختیار فرما تے !

مذہبی پیشواؤںکونہ مارنے کاحکم:

فاتح قوم دورانِ جنگ طیش وطنطنہ میںسب کچھ بھول جاتی ہے، اس کے سامنے مخالفین میں سے ہرشخص کی حیثیت ایک لڑائی کرنے والے کی ہوتی ہے، خواہ معابدکے ربی ہوںیاصوامع کے راہب، مندرکے پجاری ہوںیامسجد کے امام،بکریوں کے ریوڑ کی طرح ایک ہی ڈنڈے سے سب کوہانک دیتے ہیں حالاں کہ عموماً یہ لوگ معتدل مزاج اورجنگ وجدال سے دوررہنے والے ہوتے ہیں۔نبی اکرم ﷺکی جنگوںمیںان چیزوںکی رعایت ہوتی تھی۔ایک ہی ڈنڈے سے سب کو نہیں ہانکاجاتاتھا چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے لشکر کوبھیجتے توحکم دیتے ہوئے فرماتے تھے: ’’…نہ تومثلہ کرو، نہ بچوں کوقتل کرو اورناہی صوامع والوں(مذہبی پیشواؤوں) کو قتل کرو۔‘‘ (مسنداحمد:حدیث نمبر ۲۷۲۸ ) کاش! جنگوںمیںحضور ﷺکے اس اسوہ کواپنایا جاتا !

دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک:

غزوۂ بدرکے موقع پرحضرت حباب رضی اللہ عنہ کے مشورے پرعمل کرتے ہوئے آقاے کریم ﷺ نے بدرکے چشمہ پرقبضہ کر لیا تھا ۔اگرچاہتے توکسی کافرکو، جو خودانھیں کے ساتھ مقابلہ آرائی کے لیے بھی آیاہواہو، ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتے،لیکن قربان جایئے رسول اللہ ﷺپر کہ کافروں کو پانی لینے کی عام اجازت دے دی ۔ کیاہم بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ ایساہی رویہ اپناتے ہیں؟کیاہم اپنے دشمن کے بارے میں ہروقت ایذارسانی کے لیے نہیں سوچتے رہتے؟حضوراکرم ﷺ کے عمل سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کریں اوربالخصوص زندگی سے متعلق ایسی عام چیزوں سے قطعاً نہ روکیں جوایک انسان کے لیے نہایت ضروری ہو۔

دشمن محسن کے ساتھ حسنِ سلوک:

غزوۂ بدرمیں گھمسان کارن پڑنے سے پیشترحضوراکرم ﷺ نے یہ فرمایاتھا کہ بنوہاشم اور دیگر قبائل کے کچھ لوگ بادلِ نخواستہ اِس جنگ میں شریک ہوئے ہیں لہٰذا اُنھیں قتل نہ کیاجائے،ابوالبختری بن ہشام اورعباس بن عبدالمطلب کوقتل نہ کیاجائے، بنوہاشم نہ صرف یہ کہ طوعاً وکرہاً جنگ میں آئے تھے بلکہ شعب ابی طالب میں بھی حضور ﷺکے لیے تکلیفیں برداشت کی تھیں، ابوالبختری نے کئی مرتبہ شعب ابی طالب میں کھاناپہنچایا تھا، نیزمقاطعہ کے ختم کرنے میں بھی اس کااہم رول تھا۔یہ سارے حضور ﷺ اورمسلمانوں کے محسنین تھے لہٰذاحضورﷺنے ان کے احسان کااس طرح بدلہ چکایا۔

اب ہمیںسوچناہے کہ اپنے محسن کا کتناخیال رکھتے ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہوتاکہ اپنے ذاتی مفادکی خاطر ہم اپنے محسن کی ٹانگ نہیں کھینچتے؟ ہم میں سے تو بہت سارے ایسے بھی ہیں جواپنے محسن ہی کے دشمن بن جاتے ہیںاورجنگ کے موقع پر تومحسن اوردوست سب دشمن ہی کے صف میں ہوتے ہیں، جب کہ دشمنی میںہم کسی تفریق کے قائل نہیں ۔

کاش! حضورﷺکے اس طرز کاہم بھی کچھ پاس ولحاظ کر لیتے!!!

قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک:

غزوۂ بدرسے فارغ ہوکرحضوراکرم ﷺمدینہ پہنچے اور قیدیو ںکوصحابہ کے درمیان یہ حکم دیتے ہوئے تقسیم فرمایا:استوصوابالأساری خیراًیعنی قیدیوں کے ساتھ بھلائی کاسلوک کرو۔ جس کانتیجہ تھا کہ صحابہ ان کی رسیوں کوہلکی گرہ لگاتےتاکہ تکلیف نہ ہو، نیز خود تو موٹا جھوٹا کھاتے لیکن قیدیوں کو حسب ِاستطاعت عمدہ کھلانے کی کوشش کرتے اور ان کاہرطرح سے خیال رکھتے۔حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کے ماںشریک بھائی ابوعزیزکہتے ہیں: ’’میں بدرکے قیدیوںمیں انصارکے حصے میںتھا، وہ لوگ حضور ﷺکے اس حکم کی وجہ سے صبح وشام مجھے روٹی کھلاتے ، جب کہ خودکھجورکھاتے تھے‘‘ (المعجم الکبیرللطبرانی: حدیث نمبر ۹۷۷)

اس کے برخلاف آج قیدیوں کے ساتھ جانوروںسے بھی بدترسلوک کیاجاتاہے، ان پرکتے چھوڑے جاتے ہیں، بجلی کاشاٹ دیاجاتاہے، ناخن کھینچ لیے جاتے ہیں، پتھرکی سلوںپرمسلسل لٹایا جاتاہے، تیزروشنی کردی جاتی ہے تاکہ قیدی پلک بھی نہ جھپکاسکے، مسلسل کھڑے رہنے پرمجبور کیا جاتاہے، کھانے پینے کے لیے ترسایا جاتاہے، سخت سردی کے موسم میں ٹھنڈے پانی میں کمرتک ڈوبے رہنے پرمجبور کیاجاتاہے، کاش! یہ لوگ آخری نبی ﷺکے قیدیوں کے ساتھ سلوک کامطالعہ کرتے اورایک انسان کے احترام کوملحوظ رکھتے ہوئے حضورپاک ﷺ اورصحابہ کے عملی نمونے کواپناتے، کاش … ! !!

دورانِ جنگ دشمن کے حق میں دعا:

غزوۂ احدمیں عبداللہ بن قمئہ کے حملہ کی وجہ سےحضور ﷺزخمی ہوگئے اورحضورﷺ کے سامنے کے دودانت بھی ٹوٹ گئے۔ایسے وقت میں بھی آپ دعادیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ اے اللہ! میری قوم کوبخش دے، وہ نہیں جانتی‘‘(مسلم: باب غزوۃ أحد، حدیث نمبر۱۷۹۲) اسی طرح محاصرۂ طائف کے دوران بعض نے محصورین کے حق میں بددعاکی درخواست کی، جس کے جواب میں حضور ﷺ نے یہ دعادی: اللہم اہدثقیفا، وائت لہم ’’اے اللہ! ثقیف کوہدایت دے اورمیرے پاس آنے کی توفیق دے۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ:، ماجاء فی ثقیف، حدیث نمبر ۳۳۱۶۳) کیا ہمارا رویہ بھی ایساہی ہوتاہے؟ کیاہم معمولی بات پربددعا دینا نہیں شروع کردیتے؟ کیاہم بھی اپنے دشمن کے لیے ہدایت کی دعاکرتے ہیں؟ غزوۂ احدوحنین ہمیںیہ درس دیتے ہیں کہ دشمن کے حق میں بددعاکے راستے کواپنانے کے بجائے اُن کے لیے ہدایت کی دعاکرنی چاہیے۔

سخت جاںدشمن کے ساتھ عفوودرگزر:

اہل مکہ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اہل اسلام کو تکلیف دینے میں کسی طرح کی کوئی کسرباقی نہیں رکھی تھی، صحابہ کے جسموں سے اُن زخموں کے داغ مٹے نہیں تھے، جواہل مکہ نے ان پرلگائے تھے بلکہ بعض صحابہ کے زخم تو رِس ہی رہے تھے۔ اہل مکہ وہ لوگ تھے جنھوں نےحضور ﷺ کے قتل کی سازش رچی تھی، جنھوں نے صحابہ کے گھرباراوردولت وجائداد پر غاصبانہ قبضہ کررکھاتھا، جنھوں نے اُن کو دیارِ غیر جانے پرمجبورکردیاتھا ، سن آٹھ ہجری میں اُنھیں لوگوں پرفتح حاصل ہورہی تھی، ان کے دلوں میں بھی کیا کیا اُمنگیں بدلہ لینے کی نہیں اُٹھی ہوں گی؟ انتقام لینے کی کیاکیاتدبیریں اِن کے حاشیۂ خیال میں گردش نہیں کررہی ہوں گی؟ لیکن صلح وعفوکی ایسی مثال قائم کی گئی، جس کی نظیرقدیم وجدیدتاریخ کے اوراق میں ملنی مشکل ہے۔آج معمولی دشمن پربھی ہمیں اگرغلبہ مل جاتاہے توہم اُس پراس طرح پِلْ پڑتے ہیں، جس طرح شیرِ نراپنے شکارپرپل پڑتاہے، معافی کا نام سنتے ہی ہمیں شاک لگ جاتاہے، ہم توبدلہ لینے کابہانہ تلاشتے رہتے ہیں اوراس کے لیے رائی کوپربت بنانے سے بھی نہیں چوکتے۔کاش! فتح مکہ ہماری نگاہوں کے سامنے رہے اورہم اس کواپنے لیے اسوہ بناسکیں!!!

آگ میں جلاکرمارنے کی ممانعت:

دورانِ جنگ ہرفریق کامقصد اپنے مخالف کوختم کرناہوتاہے، خواہ اس کے لیے کوئی سابھی طریقہ اختیارکرناپڑے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دورحاضر میں اس کے لیے مختلف قسم کے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں، ایسے ہتھیار جس سے انسان کاسارابدن جل کرخاک ہو جاتاہے بلکہ آج کل زیادہ تر استعمال ہونے والے ہتھیارکاتعلق اسی قبیل سے ہے۔حضوراکرم ﷺنے کسی جنگ میںاس طرح سے اپنے مخالفین کونہیں ماراہے بلکہ حضورﷺ نے صراحتاً اس طرح مارنے کومنع فرمایا ہے۔حضرت ابوھریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک سریہ (وہ جنگ، جس میںحضورﷺ خود شریک نہ ہوئے ہوں)میں بھیجتے وقت فرمایا:’’اگرفلاں فلاں کوقابومیں کرلوتوان دونوںکوجلادینا۔دوسرے دن ایک قاصد کے ذریعےپیغام بھیجا کہ میں نے ان دونوںآدمیوں کو جلانے کاحکم دیاتھا لیکن اللہ تعالیٰ کے طریقے پرعذاب دینادرست نہیں اس لیے اگران دونوں پر قابو پالوتوانھیں قتل کرنا۔‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ: من نہی عن التحریق بالنار، حدیث نمبر۳۳۸۱۴)۔حضور ﷺکااسوہ ہمیں یہ سبق دیتاہے کہ ہم غیظ وغضب میں اس قدر آگے نہ بڑھ جائیں کہ لوگوں کو جلا کر مارنا شروع کردیں۔

انتقامی جنگ سے دوری:

حضرت سعدبن عبادہ نے فتح مکہ کے موقع سے وفورِجذبات میں سرشاراورجوشِ جنوںمیں بے خود ہوکر یہ کہ دیا:الیوم یوم الملحمۃ الیوم تستحل الکعبۃآج لڑائی کا دن ہے، آج کعبہ میںجنگ وجدل جائزہوگا۔‘‘حضرت ابوسفیان نے حضور ﷺسے حضرت سعدکی شکایت کی توحضور ﷺنے فرمایا: کذب سعد ولکن ہذا الیوم یعظم اللہ فیہ الکعبۃ ویوم تکسی فیہ الکعبۃ۔ (بخاری:باب أین رکز النبی ﷺ الرایۃ یوم الفتح، حدیث نمبر ۴۰۳۰)سعدنے غلط کہا، آج خانۂ کعبہ کی عظمت کا دن ہے، آج اس کوغلاف پہنایاجائے گا۔‘‘چوںکہ حضرت سعدبن عبادہ کی اس بات سے انتقام کی بوآرہی تھی اس لیے ان سے علم لے کران کے بیٹے قیس کودے دیا۔کیاآج کی جنگیں بھی انتقامی کارروائیوں سے خالی ہوتی ہیں؟ آج توجنگ لڑی ہی انتقاماً جاتی ہے، اگریہ انتقامی آگ کے لپٹ نہ اٹھے توسرے سے کوئی جنگ ہی وجودمیںنہ آئے۔کاش! آج حضورﷺ کے اس اسوہ پرعمل کیاجاتا!!!

دورانِ جنگ عہد کا لحاظ:

غزوۂ بدرمیںمسلمانوںکی تعداد دشمنوںکے مقابلے میںنہایت ہی کم تھی اورایک آدمی کااضافہ بھی باعث تسکین ہوتا، ایسے موقع پرحضرت حذیفہ اورحضرت ابوحسیل رضی اللہ عنہماکوکہیںسے آتے ہوئے کفارراہ میںروکتے ہیںکہ محمد(ﷺ) کی مددکوجارہے ہیں، یہ انکارکرتے ہیں اورعدم تعاون کاوعدہ کرتے ہیں ، کفارانھیںجانے کی اجازت دےدیتے ہیں۔ یہ دونوں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر پوری بات بتاتے ہیںتوحضورﷺ ان سے ہرحال میں وعدہ وفاکرنے کوکہتے ہیںاورجنگ میںشریک ہونے کی اجازت مرحمت نہیںفرماتے۔ہم اپناتجزیہ کریںکہ کیاہم بھی وعدے کا اس قدرپاس رکھتے ہیں کہ سخت ضرورت کے وقت بھی اس سے نہ پھریں؟ ہماراحال توبہت براہے، وعدے پروعدہ کرتے ہیں لیکن وعدہ خلافی بھی ہماراشیوہ ہے۔ہم تو معمولی معمولی باتوں پر وعدے کوتوڑبیٹھتے ہیںاورجنگ کوتو’’دھوکہ کا مجموعہ‘‘ہی سمجھتے ہیں، پھر وہاںدھوکے سے باز کیسے آئیں؟کاش! حضور ﷺ کے اس عمل سے ہم بھی ہر حال میںوعدے کو وفا کرنا سیکھتے!!!

قیدیوں کی سزاؤں میں تخفیف:

غزوۂ بدرکے اختتام کے بعدقیدیوںکومدینہ لایاگیااوررسیوں سے باندھ کرمسجدنبوی میں رکھا گیا۔رات کوبعض قیدیوںکی کراہ سنائی دی۔قیدیوں کی کراہ سن کر حضور ﷺبے چین ہوگئے اور بقیہ رات آنکھوںمیںکاٹی۔جب صبح ہوئی توحضورﷺنے ان کی بندشوں کو ڈھیلاکرنے کاحکم دیا۔کیاآج بھی قیدیوںکی سزاؤوںمیںتخفیف کی جاتی ہے؟ کیاآج بھی کوئی قائدقیدیوںکی تکلیف سے بے چین ہوتا ہے؟ آج کاقائدتو قیدیوں کو تنگ وتاریک سل میںبندکرکے چین کی بانسری بجاتے ہوئے محوخواب ہوجاتاہے اوران کی سزاؤوںمیں تخفیف کی بجائے اضافے کی ہی سوچتاہے۔ کاش!حضـورﷺکے قیدیوں کے ساتھ اِس عمل سے سبق لیاجاتا!!!

قیدیوں کی رہائی:

قیدی اس لیے نہیںہوتے کہ ان کے بال بچوںکوجیتے جی یتیم کرکے موت تک ان کوبندکرکے رکھاجائے بلکہ قیداس لیے کیا جاتا ہے تاکہ ان کی مناسب فہمائش ہوجائے، پھران سے وعدہ و عید یا بطور تنبیہ کے کچھ تاوان وصول کرکے چھوڑ دیا جائے۔حضور ﷺنے غزوۂ بدرمیںان جنگی قیدیوںکے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرمایا، جنھوں نے حضور ﷺ اورآپ کے ساتھیوںکوبے سروسامانی کی حا لت میں وطن چھوڑنے پرمجبور کردیا تھا ۔ آپ ﷺ نے کچھ قیدیوںسے فدیہ لے کراورجوفدیہ دینے کے قابل نہیں تھے،انھیںبغیرفدیہ کے رہافرمادیا۔آج جنگی قیدیوں کو سب سے بڑامجرم سمجھاجاتاہے اور کوئی بھی حکومت انھیںآزاد کرنے کے لیے تیارنہیںہوتی بلکہ جس قدر تنگ وتاریک کمرہ میسرہوسکے ، اس میں قیدکرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کیادنیاکی کوئی حکومت حضور ﷺ کے اس طرزعمل کا نمونہ پیش کرسکی ہے؟ قیدی بھی انسان ہوتے ہیں اورانسانیت کے احترام کے مستحق بھی ہوتے ہیں، کاش! حضوراکرم ﷺ کے اس اسوہ پرعمل کیاجاتا۔

Leave a Reply

%d bloggers like this: