حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ سے بھاگنے والے مرتدکاحال
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ:کَانَ رَجُلٌ نَصْرَانِیًّا فَأَسْلَمَ، وَقَرَأَ البَقَرَۃَ وَآلَ عِمْرَانَ، فَکَانَ یَکْتُبُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَعَادَ نَصْرَانِیًّا، فَکَانَ یَقُولُ:مَا یَدْرِی مُحَمَّدٌ إِلَّا مَا کَتَبْتُ لَہُ فَأَمَاتَہُ اللَّہُ فَدَفَنُوہُ، فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الأَرْضُ، فَقَالُوا:ہَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِہِ لَمَّا ہَرَبَ مِنْہُمْ، نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا فَأَلْقَوْہُ، فَحَفَرُوا لَہُ فَأَعْمَقُوا، فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الأَرْضُ، فَقَالُوا:ہَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِہِ، نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا ہَرَبَ مِنْہُمْ فَأَلْقَوْہُ، فَحَفَرُوا لَہُ وَأَعْمَقُوا لَہُ فِی الأَرْضِ مَا اسْتَطَاعُوا، فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الأَرْضُ، فَعَلِمُوا:أَنَّہُ لَیْسَ مِنَ النَّاسِ، فَأَلْقَوْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ ایک شخص پہلے عیسائی تھاپھر وہ اسلام میں داخل ہو گیا تھا۔ اس نے سورۃ البقرہ اور آل عمران پڑھ لی تھی اور وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکا کاتب بن گیا لیکن پھر وہ شخص مرتد ہو کر عیسائی ہو گیا اور کہنے لگا کہ محمد ﷺکے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا انہیں اور کچھ بھی معلوم نہیں،پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی موت واقع ہو گئی اور اس کے آدمیوں نے اسے دفن کر دیاجب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر سے نکل کر زمین کے اوپر پڑی ہے، عیسائی لوگوں نے کہا کہ یہ
حضورتاجدارختم نبوت ﷺاور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے انہوں نے اس کی قبر کھودی ہے اور لاش کو باہر نکال کر پھینک دیا ہے۔ چنانچہ دوسری قبر انہوں نے کھودی جو بہت زیادہ گہری تھی لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺاور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے۔ پھر انہوں نے قبر کھودی اور جتنی گہری ان کے بس میں تھی کر کے اسے اس کے اندر ڈال دیا لیکن صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی۔ اب انہیں یقین آیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے (بلکہ یہ میت اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہے)چنانچہ انہوں نے اسے یونہی (زمین پر)ڈال دیا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۲۰۲)
حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے وصال شریف کے بعد یہ سرزمین فتنو ںکی آماجگاہ بن گئی حضرت سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تو طرح طرح کے فتنے سامنے آئے(۱)سب سے پہلے ادعاء نبوت کا فتنہ سامنے آیا یمن میں اسود عنسی ،بنو حنیفہ کا مسیلمہ کذاب اور قبیلہ بنو اسد کے طلیحہ بن خویلدنے اپنے نبی ہو نے کا اعلان کردیا ،جس کی سر کو بی کے لئے حضرت سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسی ہمت وشجاعت کا ثبوت دیااوراسلامی لشکر میدان میں کودے اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے ،بغاوتوں کا مقابلہ ظاہر ہے کہ طاقت استعمال کر کے ہی کیا جاسکتا ہے، مگر حالات کی نزاکت اس حد کو پہنچ گئی تھی کہ حضرت سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو کسی کی رائے نہ ہوئی کہ اس وقت بغاوتوں کے مقابلہ میں کوئی سخت قدم اٹھایا جائے، خطرہ یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اگر اندرونی جنگ میں مشغول ہوجائیں تو بیرونی طاقتیں اس جدید اسلامی ملک پر دوڑ پڑیں گی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کریم ﷺکے غلا م جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے قلب کو اس جہاد کے لئے مضبوط فرمادیا، اور آپ رضی اللہ عنہ نے ایک ایسا بلیغ خطبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے دیا کہ اس جہاد کے لئے ان کا بھی شرح صدر ہوگیا، اس خطبہ میں اپنے پورے عزم و استقلال کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ جو لوگ مسلمان ہونے کے بعد حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دیئے ہوئے احکام و قوانین کاانکار کریںگے تو میں ان کے خلاف جہاد کروںگا، اگر میرے مقابلہ پر تمام جن و انس اور دنیا کے شجر و حجر سب کو جمع کر لائیں، اور کوئی میرے ساتھ نہ ہوتو میں تنہا جہاد کروں گااور یہ فرما کر گھو ڑے پر سوار ہوئے اور چلنے لگے، اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آگے آئے اورحضرت سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ بٹھاکر مختلف محاذوں پر روانہ ہوگئے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت حضرت سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے زیر ہدایت اس فتنہ ارتداد کے مقابلہ کے لئے کھڑی ہو گئی، حضرت سیدناخالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کو ایک بڑا لشکر دے کر پہلے طلحہ بن خویلد کی سر کوبی کے لئے روانہ کیا لیکن وہ جان بچا کر مدینہ منورہ آگیا اور دوبارہ اسلام قبول کر لیا۔ مسلیمہ کذاب کے مقابلہ کے لئے حضرت سیدنا شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا لیکن ان کی مدد کے لئے حضرت سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اجازت مل چکی تھی ۔وہاں مسلیمہ کذاب کی جماعت نے اچھی خاصی طاقت پکڑلی تھی، سخت معرکے ہوئے، بالآخر مسلیمہ کذاب حضرت سیدناوحشی بن حرب رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارا گیا، اور اس کی جماعت تائب ہو کر پھر مسلمانوں میں مل گئی،اور اسود عنسی نے یمن میں نبوت کا اعلان کیا تو حضرت سیدنافیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے بحالت بیہوشی ایک دن اس کی گردن مروڑ دی ۔
(۲)دوسرا فتنہ فتنہ ارتداد تھا حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کے وصال شریف کے بعد مسلمان ہونے والے اعراب وسیع پیمانے پر مرتد ہو گئے قبا ئلی سرداروں نے برا ء ت کا اظہار کردیا اور اپنے اپنے قبیلے کا اقتدار سنبھال کر اپنے آپ کو سر براہ تصور کر لیا عمان میں لقیط بن ما لک نے بحرین میں نعمان ابن منذر نے اور دیگر مقامات پر دوسرے لوگ مرتد ہو گئے تو حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شجاعت اور بہادری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اورفوج کو تیار کرکے ان کی سر کو بی کے لئے روانہ کر دیا اور کا میابی سے ہم کنار ہو گئے۔
(۳)تیسرا فتنہ یہ تھا کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم دین کا ہر حکم تسلیم کرتے ہیں لیکن اب زکوۃ نہیں دیں گے اس پر بھی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خاموش نہیں بیٹھے بلکہ ان کے ساتھ سختی کی۔
حدیث شریف
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:لَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَکْرٍ بَعْدَہُ، وَکَفَرَ مَنْ کَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لِأَبِی بَکْرٍ:کَیْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا:لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ،فَمَنْ قَالَ:لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ، فَقَدْ عَصَمَ مِنِّی مَالَہُ، وَنَفْسَہُ، إِلَّا بِحَقِّہِ وَحِسَابُہُ عَلَی اللہِ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ:وَاللہِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلَاۃِ، وَالزَّکَاۃِ، فَإِنَّ الزَّکَاۃَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللہِ لَوْ مَنَعُونِی عِقَالًا کَانُوا یُؤَدُّونَہُ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَی مَنْعِہِ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:فَوَاللہِ، مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَأَیْتُ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِی بَکْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّہُ الْحَقُّ ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاوصال شریف ہوا اورحضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور عرب کے لوگ جو کافر ہونے والے تھے وہ کافر ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا:تم ان لوگوں سے کیونکر لڑو گے حالانکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا ہے مجھ کو حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲکہیں۔ پھر جس نے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲکہا اس نے مجھ سے اپنے مال اور جان کو بچا لیا مگر کسی نے حق کے بدلے (یعنی کسی قصور کے بدلے جیسے زنا کرے یا خون کرے تو پکڑا جائے گا)پھر حساب اس کا اللہ پر ہے۔(اگر اس کے دل میں کفر ہوا اور ظاہر میں ڈر کے مارے مسلمان ہو گیا تو قیامت میں اللہ اس سے حساب لے گا۔ دنیا ظاہر پر ہے، دنیا میں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا)حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ کی قسم!میں تو لڑوں گا اس شخص سے جو فرق کرے نماز اور زکوٰۃ میں، اس لئے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم!وہ ایک رسی جو حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانہ اقدس میں زکوۃ کی مدمیں آیاکرتی تھی اگروہ بھی روکیں گے تومیں ان کے ساتھ قتال کروں گا۔حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کی قسم !پھر وہ کچھ نہ تھا مگر میں نے یقین کیا کہ اللہ جل جلالہ نے حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا ہے لڑائی کے لئے (یعنی ان کے دل میں یہ بات ڈال دی)تب میں نے جانا کہ حق یہی ہے۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۵۱)