ولیوں کے ولی قطب ربانی محبوب سبحانی سیدناعبدالقادرجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات مبارکہ کی چندجھلکیاں
اولیاے کرام بشمول حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے عموماً ہمارے زیرِ نظر اُن کی کرامات ہوتی ہیں اور ہم ان کرامات سے ہی کسی ولی کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں صحیح اور درست اُسلوب یہ ہے کہ ہم صرف اولیا کی کرامات تک ہی اپنی نظر کو محدود نہ رکھیں بلکہ اُن کی حیات کے دیگر پہلوئوں کا بھی مطالعہ کریں کہ اُن کا علمی، فکری، معاشرتی، سیاسی اور عوام الناس کی خیرو بھلائی کے ضمن میں کیا کردار ہے؟حضور غوث الاعظم کی شخصیت مبارکہ ہمہ جہتی اوصاف کی حامل ہے۔ ان جہات میں سے کرامات صرف ایک جہت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حضور غوث پاک کی تعلیمات کی طرف بھی متوجہ ہوں۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جن کے ہم نام لیوا ہیں اور پوری دنیا جنہیں غوث الاعظم دستگیر اور پیران پیر کے نام سے یاد کرتی ہے، ان کی تعلیمات کیا ہیں اور ان کے یہاں تصوف، روحانیت اور ولایت کیا ہے؟
ہمارے یہاں معمول یہ ہے جب کبھی اِن بزرگان دین کے ایام منائے جاتے ہیں تو اس حوالے سے منعقدہ کانفرنسز اور اجتماعات میں ہمارا موضوع اکثر و بیشتر کرامات ہوتا ہے۔ کرامت سے کسی بھی ولی اللہ کا ایک گوشہ تو معلوم ہوتا ہے مگر یاد رکھ لیں کہ صرف کرامت کا نام ولایت نہیں اور ولایت صرف کرامت تک محدود و مقید نہیں۔ کرامت اولیاء اللہ کی زندگی میںBy Product کی سی حیثیت رکھتی ہے (یعنی ضمنی چیز)۔جیسے کوئی شخص شوگر انڈسٹری لگاتاہے تو شوگر (چینی)کو گنے سے بناتے ہوئے اس پروسز میں کئی چیزیں اور بھی پیدا ہوتی ہیں۔ مقصود شوگر پیدا کرنا ہے مگر شوگر پیدا ہونے کے راستے میں کئی بائی پروڈکٹس بھی حاصل ہوتی ہیں۔ یہ اپنے آپ جنم لیتی ہیں۔ اِن سے کماحقہ مستفید ہونے کے لیے بعض اوقات اس کی چھوٹی موٹی انڈسٹری بھی اضافی لگالی جاتی ہیں۔ بائی پروڈکٹس خود مقصود بالذات نہیں ہوتیں۔اسی طرح اولیا کی زندگیوں میں کرامات کی حیثیت بائی پروڈکٹس کی ہوتی ہے، یہ کرامات اُن کا مقصود نہیں ہوتا۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ جب گاڑی تیز رفتاری سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو تو اس کے دائیں بائیں یقینا گرد ، کنکریاں، گھاس، پھوس بھی اڑے گی، بس اسی طرح اولیا کی تیز رفتار روحانی طاقت کے دوران دائیں بائیں جو کچھ اڑتا ہے وہ ان کی کرامتیں ہوتی ہیں۔ یہ کرامات ہمارے لیے تو بڑا معنی رکھتی ہیں مگر ان کے یہاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ولی اﷲان کی جانب متوجہ نہیں ہوتا۔
اتنی طویل تمہیدکی ضرورت یہاں اس لیے پیش آئی کہ آج اکثرو بیشترلوگوں کوا ن کی کرامات کی ہی جانکاری ہوتی ہے ،انہیں معلوم نہیں کہ سرکارغوث پاک رضی اللہ عنہ اپنے وقت کی عظیم علمی شخصیت بھی تھے ، علم کے ایسے کوہ ہمالہ تھے کہ اپنے زمانے کے علوم وفنون کے بادشاہ ان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنے میں فخرمحسوس کیا کر تے تھے ۔ آئیے ذیل میں ہم حضرت غوث پاک کی حیات طیبہ کے حوالے سے مختصر ہی سہی چندباتیں عرض کرتے ہیں۔
ابتدائی حالاتِ زندگی:
حضرت غوث پاک کا پورا نام عبدالقادر بن ابو صالح عبداللہ بن جنکی دوست الجیلی (الجیلانی)ہے جبکہ آپ کی کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین اور شیخ الاسلام ہے۔(سیر اعلام النبلاء:ج۲۰،ص۲۳۹) علاوہ ازیںامام سمعانی نے آپ کا لقب ’’امامِ حنابلہ‘‘ذکر کیا ہے۔ (الذیل علی طبقات الحنابلہ لابن رجب:ج۱،ص۲۹۱)آپ کا سلسلہ نسب حضر ت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے ۔ آپ۳۷۱ ھ (اور بقولِ بعض ۳۷۰ھ)میں جیلان میں پیدا ہوئے۔
جیلان کہاں ہے ؟
جیلان یا گیلان(کیلان)کو ویلم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایران کے شمالی مغربی حصے کا ایک صوبہ ہے، اس کے شمال میں روسی سرزمین ‘تالیس‘واقع ہے، جنوب میں برز کا پہاڑی سلسلہ ہے جو اس کو آذربائیجان اور عراقِ عجم سے علیحدہ کرتا ہے۔ جنوب میں مازندان کا مشرقی حصہ ہے اور شمال میں بحرقزوین کا مغربی حصہ، وہ ایران کے بہت خوبصورت علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔
(دائرۃ المعارف:ج۱۱،ص۶۲۱)
علاقائی نسبت کی وجہ سے آپ کو جیلانی، گیلانی یاکیلانی کہا جاتاہے۔
تعلیم و تربیت:
شیخ صاحب کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا تذکرہ کتب ِتواریخ میں نہیں ملتا، البتہ یہ بات مختلف مورخین نے بیان کی ہے کہ آپ اٹھارہ برس کی عمر میںتحصیل علم کے لیے بغداد روانہ ہوئے۔امام ذہبی کا بھی یہی خیال ہے کہ آپ نوجوانی کی عمر میں بغداد آئے تھے۔علاوہ ازیں اپنے تحصیل علم کا واقعہ خودحضرت غوث پاک بیان کرتے ہیں کہ
’’میں نے اپنی والدہ سے کہا:مجھے خدا کے کام میں لگا دیجئے اور اجازت مرحمت کیجیے کہ بغداد جاکر علم میں مشغول ہوجاؤں اور صالحین کی زیارت کروں۔والدہ رونے لگیں، تاہم مجھے سفر کی اجازت دے دی اور مجھ سے عہد لیا کہ تمام احوال میں صدق پرقائم رہوں۔ والدہ مجھے الوداع کہنے کے لئے بیرونِ خانہ تک آئیں اور فرمانے لگیں: ’’تمہاری جدائی، خدا کے راستے میں قبول کرتی ہوں۔ اب قیامت تک تمہیں نہ دیکھ سکوں گی۔‘‘
(نفحات الانس: ص۵۸۷،از نورالدین جامی بحوالہ دائرۃ المعارف)
شیوخ و تلامذہ:
حافظ ذہبی نے آپ کے شیوخ میں سے درج ذیل شیوخ کا بطورِ خاص تذکرہ کیا ہے:
قاضی ابوسعد مخرمی، ابوغالب (محمد بن حسن)باقلانی، احمد بن مظفر بن سوس، ابوقاسم بن بیان، جعفر بن احمد سراج، ابوسعد بن خشیش ، ابوطالب یوسفی وغیرہ(سِیَر:ج۲۰،ص۲۳۰)
جب کہ کہ دیگر اہل علم نے ابوزکریا یحییٰ بن علی بن خطیب تبریزی ، ابوالوفا علی بن عقیل بغدادی، شیخ حماد الدباس کو بھی آپ کے اساتذہ کی فہرست میں شمار کیا ہے۔( دائرۃ المعارف، اُردو: ج۱۱ ، ۶۳۰)
علاوہ ازیں آپ کے درج ذیل معروف تلامذہ کو حافظ ذہبی وغیرہ نے ذکر کیا ہے :
ابو سعد سمعانی، عمر بن علی قرشی، شیخ موفق الدین ابن قدامہ، عبدالرزاق بن عبدالقادر، موسیٰ بن عبدالقادر (یہ دونوں شیخ کے صاحبزادگان سے ہیں)، علی بن ادریس، احمد بن مطیع ابوہریرہ، محمد بن لیث وسطانی، اکمل بن مسعود ہاشمی، ابوطالب عبداللطیف بن محمد بن قبیطی وغیرہ( ایضاً)
حضورغوث پاک کی اولاد:
امام ذہبی حضورغوث پاک کے صاحب زادے حضرت عبدالرزاق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:ولد لابی تسعۃ واربعون ولدا سبعۃ وعشرون ذکرا والباقی اناث (سیر:ج۲۰،ص۲۳۷)
میرے والد کی کل اولاد۴۹ تھی جن میں۲۷بیٹے اور باقی سب بیٹیاں تھیں۔
حضورغوث پاک کا حلقہ درس:
سرکارنے تعلیم سے فراغت کے بعد دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا جس اخلاص وللہیت کے ساتھ آپ نے یہ سلسلہ شروع کیا، اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اللہ نے آپ کے کام میں بے پناہ برکت ڈالی اور آپ کا حلقہ درس آپ کے دور کا سب سے بڑا تعلیمی و تربیتی حلقہ بن گیا۔حتیٰ کہ وقت کے حکمران، امرا و وزرا اور بڑے بڑے اہل علم بھی آپ کے حلقہ وعظ و نصیحت میں شرکت کو سعادت سمجھتے۔ جبکہ وعظ و نصیحت کا یہ سلسلہ جس میں خلق کثیر شیخ کے ہاتھوں توبہ کرتی، شیخ کی وفات تک جاری رہا۔حافظ ابن کثیر شیخ کی ان مصروفیات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ
آپ نے بغداد آنے کے بعد ابوسعید مخرمی حنبلی سے حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ ابوسعید مخرمی کا ایک مدرسہ تھا جو انہوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کے سپرد کردیا۔ اس مدرسہ میں شیخ لوگوں کے ساتھ وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کی مجالس منعقدکرتے اور لوگ آپ سے بڑے مستفید ہوتے۔(البدایہ والنھایہ:ج۱۲،ص۲۵۲)
امام ذہبی کے مطابق حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ عنہ ۹۰ سال حیات رہے اور ۱۰ ربیع الآخر۵۶۱ ھ کوخالق حقیقی سے جاملے ۔ (سیر:ج۲۰،ص۴۵۰)
تالیفات و تصنیفات:
حضرت شیخ جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنیادی طور پر ایک موثر واعظ و مبلغ تھے تاہم مورّخین نے آپ کی چند تصنیفات کا تذکرہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صاحب ِقلم بھی تھے۔ مگر اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہیںہونی چاہیے کہ مورخین نے آپ کی جن تصنیفات کا احاطہ کیا ہے، وہ تمام فی الواقع آپ ہی کی تصنیفات تھیں بلکہ کہایہ جاتاہے کہ آپ کی ذاتی تصنیفات صرف تین ہیں ،باقی کتابیں آپ کے بعض شاگردوں اور عقیدت مندوں نے تالیف کرکے آپ کی طرف منسوب کررکھی ہیں۔اس دعوی میں کہاں تک سچائی ہے ،واللہ اعلم بالصواب تاہم ،یہا ںان تمام کتابوں کا بالاختصار جائزہ لیاجاتا ہے :
(۱)غنیۃ الطالبین:اس کتاب کا معروف نام تو یہی ہے مگر اس کا اصل اوربذاتِ خود شیخ کا تجویز کردہ نام یہ ہے الغنیۃ لطالبی طریق الحق یہ کتاب نہ صرف یہ کہ شیخ کی سب سے معروف کتاب ہے بلکہ شیخ کے افکار و نظریات پرمشتمل ان کی مرکزی تالیف بھی یہی ہے۔ دورِ حاضر میں بعض لو گوں نے اسے شیخ کی کتاب تسلیم کرنے سے انکار یا تردّد کا اظہار بھی کیاہے لیکن اس سے مجالِ انکار نہیں کہ یہ شیخ ہی کی تصنیف ہے جیساکہ حاجی خلیفہ اپنی کتاب کشف الظّنونمیں رقم طراز ہیں:
الغنیۃ لطالبی طریق الحق للشیخ عبد القادر الکیلانی الحسنی المتوفی سنۃ ھ إحدی وستین وخمس مائۃ۔(ج۲،ص۱۲۱۱)
غنیۃ الطالبین ،شیخ عبدالقادر جیلانی جو ۵۶۱ہجری میں فوت ہوئے ، انہی کی کتاب ہے۔
حافظ ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ (البدایہ:ج۱۲،ص۲۵۲) میں اسے تسلیم کیاہے ۔
(۲)فتوح الغیب:یہ کتاب شیخ کے مختلف مواعظ مثلاً توکل، خوف، اُمید، رضا، احوالِ نفس وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یہ بھی شیخ کی کتاب ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ
شیخ عبدالقادر نے غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب لکھی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں بڑی بڑی اچھی باتیں ہیں۔(البدایہ ایضاً،کشف الظنون:ج۲،۲۴۰)
(۳)الفتح الربانی والفیض الرحمانی:یہ کتاب حضورغوث پاک کے مختلف مواعظ پر مشتمل ہے اوریہ ان کی مستقل تصنیف ہے۔ (الاعلام: از زرکلی،ج۴،ص۴۷)
(۴)الفیوضات الربانیۃ فی المآثر والاوراد القادریۃ:اس میں مختلف اوراد و وظائف جمع کیے گئے ہیں۔ اگرچہ بعض مورخین نے اسے حضورغو ث پاک کی طرف منسوب کیا ہے مگر فی الحقیقت یہ آپ کی تصنیف نہیںبلکہ اسے اسمٰعیل بن سید محمد القادری نامی ایک عقیدت مند نے جمع کیا ہے جیسا کہ اس کے مطبوعہ نسخہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
(۵) الاوراد القادریۃ:یہ کتاب بھی بعض قصائد و وظائف پر مبنی ہے۔ اسے محمد سالم بواب نے تیار کرکے شیخ کی طرف منسوب کردیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی مندرجہ ذیل کتابوں کو آپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے :
(۶)بشائر الخیرات (۷)تحفۃ المتقین وسبیل العارفین (۷) الرسالۃ القادریۃ (۸)حزب الرجا والا نتہاء (۹)الرسالۃ الغوثیۃ (۱۰) الکبریت الاحمرفی الصلاۃ علی النبی (۱۱)مراتب الوجود (۱۲)یواقیت الحکم (۱۳)معراج لطیف المعانی (۱۴)سرالاسرار ومظھرالانوارفیما یحتاج إلیہ الابرار(۱۵)جلاء الخاطر فی الباطن والظاہر(۱۶)آداب السلوک والتوصل إلی منازل الملوک
حضور غوث الاعظم، ائمہ محدثین و فقہا کی نظر میں:
یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضور غوث الاعظم نہ صرف ولایت میں غوث الاعظم تھے بلکہ آپ علم میں بھی غوث الاعظم تھے۔ اگر آپ کے علمی مقام کے پیش نظر آپ کو لقب دینا چاہیں تو آپ امام اکبر تھے۔ آپ جلیل القدر مفسر اور امامِ فقہ بھی تھے۔ اپنے دور کے جلیل القدرائمہ آپ کے تلامذہ تھے جنہوں نے آپ سے علم الحدیث، علم التفسیر، علم العقیدہ، علم الفقہ، تصوف، معرفت، فنی علوم، فتویٰ اور دیگر علوم پڑھے۔ حضور غوث الاعظم ہر روز اپنے درس میں تیرہ علوم کا درس دیتے تھے اور۹۰سال کی عمر تک یعنی زندگی کے آخری لمحہ تک طلبہ کو پڑھاتے رہے۔بغداد میں موجود آپ کا دارالعلوم حضرت شیخ حماد کا قائم کردہ تھا، جو انہوں نے آپ کو منتقل کیا۔ آپ کے مدرسہ میں سے ہر سال۳۰۰۰طلبہ جید عالم اور محدث بن کر فارغ التحصیل ہوتے تھے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتوحات کا راز:
بہت عجیب تر بات جس کا نہایت قلیل لوگوں کو علم ہوگا اور کثیر لوگوں کے علم میں شاید پہلی بار آئے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب القدس فتح کیا تو جس لشکرکے ذریعے بیت المقدس فتح کیا، اس آرمی میں شامل لوگوں کی بھاری اکثریت حضور غوث الاعظم کے تلامذہ کی تھی۔ گویا آپ کے مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ صرف مجتہد ہی نہیں تھے بلکہ عظیم مجاہد بھی تھے۔سلطان صلاح الدین ایوبی کی آدھی سے زائد فوج حضور غوث الاعظم کے عظیم مدرسہ کے طلبہ اور کچھ فیصد لوگ فوج میں وہ تھے جو امام غزالی کے مدرسہ نظامیہ کے فارغ التحصیل طلبہ تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے چیف ایڈوائزر امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی حضور سیدنا غوث الاعظم کے شاگرد اور خلیفہ ہیں۔ آپ براہِ راست حضور غوث پاک کے شاگرد، آپ کے مرید اور خلیفہ ہیں۔ گویا تاریخ کا یہ سنہرا باب جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے رقم کیا وہ سیدنا غوث الاعظم کا فیض تھا۔
امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ:
امام ابن قدامہ المقدسی الحنبلی اور ان کے کزن امام عبد الغنی المقدسی الحنبلی دونوں حضور غوث الاعظم کے تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ دونوں فقہ حنبلی کے جلیل القدر امام اور تاریخ اسلام کے جلیل القدر محدث ہیں۔
امام ابن قدامہ مقدسی کہتے ہیں کہ جب میں اور میرے کزن (امام عبدالغنی المقدسی)حضور غوث الاعظم کی بارگاہ میں کسبِ علم و فیض کے لیے پہنچے تو افسوس کہ ہمیں زیادہ مدت آپ کی خدمت میں رہنے کا موقع نہ ملا۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر۹۰برس تھی، یہ آپ کی حیات ظاہری کا آخری سال تھا۔ اسی سال ہم آپ کی خدمت میں رہے، تلمذ کیا، حدیث پڑھی، فقہ حنبلی پڑھی، آپ سے اکتساب فیض کیا اور خرقہ خلافت و مریدی پہنا۔
امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ امام ابن قدامہ الحنبلی المکی المقدسی فرماتے ہیں:
سیدنا غوث الاعظم کی کرامات جتنی تواتر سے ہم تک پہنچی ہیں اور جتنی متواتر النقل ہیں، ہم نے پہلے اور بعد میں آج تک روئے زمین کے کسی ولی اللہ کی کرامتوں کا اتنا تواتر نہیں سنا۔ ہم آپ کے شاگرد تھے اور آپ کے مدرسہ کے حجرہ میں رہتے تھے۔ سیدنا غوث الاعظم اپنے بیٹے یحییٰ بن عبد القادر کو بھیجتے اور وہ ہمارے چراغ جلا جاتا تھا۔ یہ تواضع، انکساری، ادب، خلق تھا کہ بیٹا چراغ جلا جاتا اور گھر سے درویشوں کے لیے کھانا پکا کر بھیجتے تھے۔ نماز ہمارے ساتھ آ کر پڑھتے اور ہم آپ سے اسباق پڑھتے تھے۔
امام ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ:
محدثین اور ائمہ سیدنا غوث اعظم کی مجلس میں بیٹھ کر آپ سے تلمذ کرتے۔ ستر ہزار حاضرین ایک وقت میں آپ کی مجلس میں بیٹھتے۔ امام ابن حجر عسقلانی نے مناقب شیخ عبدالقادر جیلانی میں لکھا ہے کہ ستر ہزار کا مجمع ہوتا، (اس زمانے میں لاؤڈا سپیکر نہیں تھے)جو آواز ستر ہزار کے اجتماع میں پہلی صف کے لوگ سنتے اتنی آواز ستر ہزار کے اجتماع کی آخری صف کے لوگ بھی سنتے۔ اس مجلس میں امام ابن جوزی ( اصول حدیث کے امام)جیسے ہزارہا محدثین، ائمہ فقہ، متکلم، نحوی، فلسفی، مفسر بیٹھتے اور اکتسابِ فیض کرتے تھے۔
سیدنا غوث الاعظم ایک مجلس میں قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر فرمارہے تھے۔ امام ابن جوزی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ اس آیت کی گیارہ تفاسیر تک تو امام ابن جوزی اثبات میں جواب دیتے رہے کہ مجھے یہ تفاسیر معلوم ہیں۔ حضور غوث الاعظم نے اس آیت کی چالیس تفسیریں الگ الگ بیان کیں۔ امام ابن جوزی گیارہ تفاسیر کے بعد چالیس تفسیروں تک نہ ہی کہتے رہے یعنی پہلی گیارہ کے سوا باقی انتیس تفسیریں مجھے معلوم نہ تھیں۔ امام ابن جوزی کا شمار صوفیا میں نہیں ہے بلکہ آپ جلیل القدر محدث ہیں، اسماء الرجال، فن اسانید پر بہت بڑے امام اور اتھارٹی ہیں۔ سیدنا غوث الاعظم چالیس
تفسیریں بیان کر چکے تو فرمایا:
الآن نرجع من القال إلی الحال یعنی اب ہم قال کو چھوڑ کر حال کی تفسیروں کی طرف آتے ہیں۔
جب حال کی پہلی تفسیر بیان کی تو پورا مجمع تڑپ اٹھا، چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہوئیں۔ امام ابن جوزی بھی تڑپ اٹھے۔ محدث زماں نے اپنے کپڑے پکڑ کر پرزے پرزے کر دیے اور وجد کے عالم میں تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے نیچے گر پڑے۔ یہ امام ابن جوزی کا حال ہے۔اسی طرح بے شماراساطین علم وفن ہیں جنہوںنے سیدناغوث پاک سے اکتساب کیاہے ۔اللہ پاک ہم سب کوحضورغوث پاک کاصدقہ عنایت فرمائے ۔ آمین