حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سے پہلے بزرگان دین کی بشارتیں

حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سے پہلے بزرگان دین کی بشارتیں

حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سے پہلے بزرگان دین کی بشارتیں اور حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے عبادات واذکار

حضور قطب الاقطاب غوث الاغواث فرد الافراد سید الاسیاد امام الاولیاء سلطان الاولیا غوث الثقلین غوث العالمین محبوب سبحانی شہباز لامکانی قندیل نورانی مجمع البحرین نجیب الطرفین سیدی سندی آقائی مولائی سیدنا ابو محمد محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی البغدادی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا جو وجود مسعود ہے ۔

اللہ تبارک وتعالی نے اس دور میں جلوہ فرمایا جو دور اسلام کے لیے انتاہی خطرناک دور تھا۔ غوث پاک کی آمد سے پہلے بہت سے بزرگانِ دین بشارتیں دیتے رہے کہ ہمارے بعد ایک شخص ظاہر ہوگا۔

امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ تقریباً ساڑھے تین سو سے چار سو سال پہلے کہتے ہیں ہیں کہ بغداد میں ایک اللہ کا برگزیدہ بندہ ظاہر ہوگا اور وہ بغداد کی جامع مسجد کے ممبر پر بیٹھ کر کہے گا “قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ” اور وہ ولیوں کا تاج دار اور ولیوں کا سلطان ہوگا۔ امت محمدیہ میں اللہ نے کسی ولی کو وہ شان عطا نہ فرمائی جو شان اللہ نے عبد القادر جیلانی ؒ کو عطا فرمائی۔

ایک اور بزرگ حضرت امام حسن عسکری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آخری وقت کہا جب دنیا سے تشریف لے جانے لگے تو آپ نے جب آخری مرتبہ نماز ادا فرمائی تو اپنا مصلیٰ لپیٹا اور مصلیٰ لپیٹ کر اپنے بیٹے کو دیا اور فرمایا جب تمہارا انتقال ہونے لگے تو تم جس کو معتبر سمجھنا یہ مصلیٰ اس کو دینا۔ اور جب اس کا انتقال ہونے لگے وہ جس کو معتبر سمجھے یہ مصلیٰ اس کو دے ۔

اور وہ اس کو جس کو وہ معتبر سمجھے۔ بیٹے نے عرض کی بابا!! یہ مصلیٰ اس طرح منتقل ہو گا تو آخر جائے گا کہاں؟؟ ارشاد فرمایا کہ بغداد میں ایک بندہ ظاہر ہوگا اس کا نام عبدالقادر ہوگا یہ مصلیٰ اس کو دیا جائے گا۔ اس لیے کہ اس کی ایک الگ ہی شان ہوگیاور اسی طرح حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالی عنہ مسجد کے ممبر پر بیٹھ کر فرماتے ہیں ہیں کہ آج ہماری ولایت کے ڈنکے ہیں۔

لیکن اسی زمین پر ایک ایسا جوان ظاہر ہوگا جو فرمائے گا کہ میرا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے۔ سارے ولی اس کے آگے اپنی گردن کو جھکالیں گے۔اور جب غوث پاک ماں کے شکم میں تشریف لائے تو خود سید الانبیاء ﷺ امام الانبیاء ﷺ تشریف لائے اور آپ کی والدہ سے فرمایا کہ تو ولیوں کے سلطان کی ماں بننے والی ہے۔

قربان جاؤ کیسی شان ہے سرکار غوث اعظم کی۔ اور جب دنیا میں تشریف لائے تو خدا کی عبادت بھی اس شان سے کی کہ آپ کی عبادت، ذکر و اذکار کو دیکھ کر دنیا حیران رہ گئی۔

آؤ! پہلے عبادت کے بارے میں کچھ اصطلاحی طور پر جان لیں۔ عبادت عربی زبان کے لفظ ’’عبد‘‘ سے مشتق ہے اور اس کا معنی آخری درجے کی عاجزی و انکساری ہے۔امام راغب اصفہانی عبادت کی تعریف بیان کرتے ہیں العبادةُ أَبْلَغُ مِنْهَا لِأَنَّهَا غَايَةُ التَّذُلَّلِ.’’عبادت عاجزی و فروتنی کی انتہا کا نام ہے۔‘‘( راغب اصفهانی، المفردات : 319) ۔

اور اس کی ایک جامع تعریف یہ ہے کہ:’’اسم جامع لكل ما يحبه الله ويرضاه؛ من الأقوال والأعمال الظاهرة والباطنة‘‘(عبادت ایک ایسا جامع اسم ہے جو ہر اس کام کو شامل ہے جسے اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے، خواہ وہ اقوال ہوں یا اعمال اور چاہے ظاہری ہوں یا باطن)عبادت ہی وہ چیز ہے جس کے لئے اللہ تعالی نے مخلوقات کو پیدا فرمایا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذاریات)اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔

ہم بتاتے چلیں کہ دنیا میں یوں تو بہت سے عابد گزرے کہ جنہوں نے ترک دنیا کرنے کے بعد اپنی پوری کی پوری زندگی عبادت الہی میں رہ کر گزای مگر ان میں ایک نام قطب الاقطاب، غوث اعظم، محبوب سبحانی، محی الدین سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی (آپ کی پیدائش ۴۷۰ھ، ۱۰۷۷ء کو ہوئی حسنی و حسینی سید اور مادر زاد ولی تھے۔) کا بھی شامل ہے ۔

تسبیح، تہلیل، تلاوتِ قرآن، نماز، زکوۃ، روزہ، حج، جہاد، امربالمعروف ونہی عن المنکر، رشتہ داروں یتیموں مساکین اور مسافروں سے حسن ِسلوک، اسی طرح اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت، اللہ تعالی کی خشیت اور اس کی طرف انابت ورجوع، دین کو اللہ تعالی کے لیے خالص کرنا، اس کے حکم پر صبر کرنا اور اس کی قضاء وقدر پر راضی رہنا، اسی پر توکل کرنا، اس کی رحمت کی امید رکھنا اور اس کے عذاب سے ڈرنا

الغرض آپ میں تمام باتیں موجود تھیں۔ آپ ہمیشہ باوضو رہتے ،جب حَدَث لاحق ہوتا(یعنی بے وضو ہوتے) تو اسی وقت تازہ وضو فرماتے اور دو رکعت”تَحِیَّۃُ الْوُضُو “ پڑھتے۔

شب بیداری کی یہ کیفیت تھی کہ چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے رہے۔

پندرہ برس تک یہ حال رہا کہ عشاء کی نماز کے بعد ایک پاؤں پر کھڑے ہو جاتے اور قرآن شریف پڑھتے پڑھتے صبح کر دیتے تھے۔

اکثر ایک تہائی رات میں دو رکعت نفل ادا کرتے ہر رکعت میں سُوْرَۃُ الرَّحْمٰن یا سُوْرَۃُ الْمُزَّمِّـل کی تلاوت کرتے، اگر” سُورۃُ الاخلاص “پڑھتے تو اُس کی تعداد سو بار سے کم نہ ہوتی، اگر بتقاضائے بشریت سونا ضروری ہوتا تو اول شب میں تھوڑا سا سو جاتےپھر جلد ہی اٹھ کر عبادت الہٰی میں مشغول ہو جاتے ۔

شیخ ابو عبد اللہ محمد بن ابی الفتح ہروی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ میں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں چند راتیں سویا ،آپ کا یہ حال تھا کہ ایک تہائی رات تک نفل پڑھتے اور پھر ذکر کرتے پھر کچھ اوراد کرتے رہتے۔

میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کبھی آپ کا جسم لاغر ہو جاتا، کبھی فربہ، کسی وقت میری نگاہوں سے غائب ہو جاتے پھر تھوڑی دیر بعد آجاتے اور قرآن کریم پڑھتے یہاں تک کہ رات کا دوسرا حصہ گزر جاتا، سجدے بہت طویل کرتے، اپنے چہرے کو زمین پر رگڑتے، تہجد ادا فرماتے اور مراقبہ ومشاہدہ میں طلوعِ فجر تک بیٹھے رہتے پھر نہایت عجز ونیاز اور خشوع سے دعا مانگتے، اس وقت آپ کو ایسا نور ڈھانپ لیتا کہ نظروں سے غائب ہو جاتے یہاں تک کہ نمازِ فجر کے لیے خلوت کدے سے باہر نکلتے۔(بہجة الاسرار ص۲۵۰)۔

اور آپ رحمۃ اللہ علیہ روزے نہایت کثرت سے رکھتے تھے بعض اوقات درختوں کے پتوں، جنگلی بوٹیوں اور گری پڑی مباح چیزوں سے روزہ افطار فرماتے۔ غرض قَائِمُ اللَّیْل اور صَائِمُ النَّہَار رہنا (یعنی رات کو بیدار رہنا اور دن کو روزے رکھنا) آپ کی عادت بن چکی تھی۔

آپ پچیس سال تک مشاہدات قدرت خلوت اور مجاہدات کے لیے تن تنہا عراق کے جنگلوں اور ویرانوں میں پھرتے رہے اور سخت گرمی اور شدید سردی کے موسموں کے ساتھ ساتھ بھوک و پیاس برداشت کرتے رہے۔

آپ مستجاب الدعوٰۃ تھے۔ سخاوت کرنے میں مشہور تھے۔ اچھے اخلاق کے مالک ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ جل شانہ الکریم کا خوف دل میں رکھتے تھے۔

ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا-(ترجَمۂ کنز الایمان:ان کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خوابگاہوں سے اور اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے اور امید کرتے۔)(پارہ21،السجدہ:16)۔

آپ میں اس قدر خشیتِ الہی تھی حضرت سَیِّدُنا شیخ سعدی شیرازی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ’’مسجد الحرام میں کچھ لوگ کعبۃ اللہ شریف کے قریب عبادت میں مصروف تھے ۔ اچانک انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ دیوار ِ کعبہ سے لپٹ کر زاروقطار رو رہا ہے اور اس کے لبوں پر یہ دعا جاری ہے ، ’’اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! اگر میرے اعمال تیری بارگاہ کے لائق نہیں ہیں تو بروزِ قیامت مجھے اندھا اٹھانا ۔‘‘

لوگوں کو یہ عجیب وغریب دعا سن کر بڑا تعجب ہوا ، چنانچہ انہوں نے دعا مانگنے والے سے استفسار کیا ، ’’اے شیخ ! ہم تو قیامت میں عافیت کے طلب گار ہیں اور آپ اندھا اٹھائے جانے کی دعا فرما رہے ہیں ، اس میں کیا راز ہے ؟‘‘ اس شخص نے روتے ہوئے جواب دیا ۔

میرا مطلب یہ ہے کہ اگر میرے اعمال اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ کے لائق نہیں تو میں قیامت میں اس لئے اندھا اٹھایا جانا پسند کرتا ہوں کہ مجھے لوگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔‘‘ وہ سب لوگ اس عارفانہ جواب کو سن کر بے حد متأثر ہوئے لیکن اپنے مخاطب کو پہچانتے نہ تھے ، اس لئے پوچھا ، ’’ اے شیخ ! آپ کون ہیں ؟‘‘ اس نے جواب دیا ، ’’میں عبدالقادر جیلانی ہوں ۔‘‘( بحوالہ گلستان ِ سعدی)۔

آپ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، اس لیے کہ خدا نے آپ کو بلند مراتب و منصب پر فائز فرمایاشیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ اخبار الاخیار میں فرماتے ہیں، اﷲ تعالیٰ نے آپ کو قطبیت کبریٰ اور ولایت عظیمہ کا مرتبہ عطا فرمایا، یہاں تک کہ تمام عالم کے فقہا علما طلبا اور فقراء کی توجہ آپ کے آستانہ مبارک کی طرف ہوگئی ۔

حکمت و دانائی کے چشمے آپ کی زبان سے جاری ہوگئے اور عالم ملکوت سے عالم دنیا تک آپ کے کمال و جلال کا شہرہ ہوگیا، اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے علاماتِ قدرت و امارت اور دلائل و براہین کرامت آفتابِ نصف النہار سے زیادہ واضح فرمائے اور جود و عطا کے خزانوں کی کنجیاں اور قدرت و تصرفات کی لگامیں آپ کے قبضہ اقتدار اور دست اختیار کے سپرد فرمائیں تمام مخلوق کے قلوب کو آپ کی عظمت کے سامنے سرنگوں کردیا اور تمام اولیا کو آپ کے قدم مبارک کے سائے میں دے دیا ۔

کیوں کہ آپ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر فائز کیے گئے تھے جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے، ’’میرا یہ قدم تمام اولیاء کی گردنوں پر ہے‘‘۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیر
ااونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیر
اسربھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا

آپ کی شخصیت بارگاہِ خداوندی میں اس قدر مقبول تھی کہ نہ صرف آپ بلکہ بعض مرتبہ آپ کی محفلوں میں شریک ہونے والے بھی آقا ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوجاتے ۔ حضرت غوث اعظم رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت کی آپ ﷺ نے فرمایا، اے عبدالقادر! تم لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لئے وعظ کیوں نہیں کرتے؟ عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ میں عجمی ہوں اس لیے عرب کے فصحا کے سامنے کیسے وعظ کروں؟۔

فرمایا اپنا منہ کھولو پھر حضور علیہ السلام نے میرے منہ میں سات بار اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا جاؤ اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف بلاؤ۔ بعد ظہر جب آپ نے وعظ کاارادہ فرمایا تو کچھ جھجک طاری ہوئی حالت کشف میں دیکھا کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سامنے موجود ہیں اور فرما رہے ہیں منہ کھولو آپ نے تعمیل ارشاد کی تو باب علم وحکمت نے اپنا لعاب چھ بار آپ کے منہ میں ڈالا۔

عرض کی یہ نعمت سات بار کیوں عطا نہیں فرمائی، ارشاد فرمایا’’رسول معظم ﷺ کا ادب ملحوظ خاطر ہے‘‘۔ یہ فرماکر حضرت علی رضی اللہ عنہ غائب ہوگئے اور جب سرکار غوث اعظم نے خطاب فرمایا تو فصحائے عرب آپ کی فصاحت وبلاغت کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔

آپ کے وعظ میں ستر ہزار سے زائد لوگ شرکت کرتے جن میں علما فقہااور اکابر اولیاے کرام کے علاوہ ملائکہ،جنات اور رجال الغیب بکثرت شریک ہوتے۔ اخبارالاخیار میں ہے کہ جتنے لوگ آپ کی مجلس میں نظر آتے ان سے کہیں زیادہ ایسے حاضرین ہوتے جو نظر نہیں آتے

آپ کی آواز دور ونزدیک کے سامعین کو یکساں سنائی دیتی تھی۔ کبھی آپ وعظ کے دوران فرماتے کہ قال ختم ہوا اور اب ہم حال کی طرف آتے ہیں، یہ کہتے ہی لوگوں میں اضطراب اور وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی،کتنے لوگ گریہ وزاری کرتے کپڑے پھاڑ کر جنگل کی طرف نکل جاتے

آپ کے تصرف وہیبت اور عظمت وجلال کے باعث کئی کئی جنازے اٹھائے جاتے اور سینکڑوں بیہوش ہوجاتے۔ آپ کی مجلس میں جو کرامات وتجلیات اور عجائب وغرائب ظاہر ہوئے ان کی تعداد شمار نہیں کی جاسکتی

طالب دعا
محمد رمضان قادری

Leave a Reply