سلطان الشھداء فی الھند حضرت سیدناسالارمسعودغازی علیہ الرحمۃ والرضوان
(ولادت سے شہادت تک )
{از : نفیس احمدرضوی مصباحی بہرائچ شریف}
ولادت : 405 ھ
بمقام : اجمیرشریف
شہادت : 424 ھ
بمقام : بہرائچ شریف
کل عمر : تقریبا 19/ سال
اسم گرامی : سالارمسعود
القاب : سلطان الشہدافی
الہند،غازی سرکار،
والدکانام: حضرت سالارساہو
والدہ کانام: بی بی سترمعلّٰی
سلسلہ نسب
آپ کاسلسلہ نسب بارہویں پشت میں مولٰی علی شیرخدارضی اللہ تعالٰی عنہ سےجاملتاہے اسی لئے آپ کوعلوی سادات میں سےجاناجاتاہے .. آپ سلطان محمودغزنوی کے حقیقی بھانجےہیں
ولادت باسعادت
آپ کی ولادت باسعادت 21/رجب المرجب 405/ھ کوبوقت صبح صادق اجمیرشریف میں ہوئی اس وقت آپ کےوالدماجدحضرت سالارساہو سلطان محمودغزنوی علیہ الرحمہ کی طرف سے اجمیرکےگورنرمقررتھے (یہ حضرت خواجہ غریب نواز اجمیری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ہندوستان آمدسے181/برس پہلےکازمانہ ہے) آپ کےوالدسالارساہونےفرزندکی خوشی میں تین شبانہ روزجشن کااہتمام فرمایا،تمام شہراجمیرکومزین وآراستہ کیااورفقراء ومساکین کوزروجواہرعطاکیا.
407/ ھ میں والئی قنوج کی سرکوبی کےلئےجب سلطان محمودنےہندوستان کاسفرکیااوراجمیرپہونچےتو پہلی بارپیارےبھانجےحضرت سیدسالارمسعودغازی کادیدارکیاپھرقنوج پہونچ کراس پر فتح حاصل کی جب واپس ہوئےتوسالارساہوکوہندوستان کےتمام مفتوحہ علاقوں کانگراں بنادیاجس کاصدرمقام اجمیرتھا
تعلیم وتربیت
جب آپ کی عمرمبارک چارسال چارماہ چاردن کی ہوئی تورسم بسم اللہ خوانی اداکی گئی، والدبزرگوارنےسیدابراہیم بارہ ہزاروی کوآپ کااستاذمقررکیااس موقع پرآپ کےوالدنےاستاذمکرم کوچارگھوڑےاوربیش قیمت زروجواہربطورنذرانہ پیش کیا، استاذمحترم کےزیرسایہ آپ نے9/سال میں ظاہری وباطنی علوم میں کمال حاصل کرلیا ..جب آپ دس برس کی عمرکوپہونچےتوعبادت وریاضت کاذوق اس قدرپروان چڑھ چکاتھاکہ پوری رات عبادت الٰہی میں گذارتےاوردن میں تلاوت قرآن، ذکروفکراوردرودخوانی میں مشغول رہتے تھے،نمازچاشت پابندی سےادافرماتے اورباقی اوقات لوگوں کوپندونصیحت اوران کی دینی اصلاح میں صرف کرتےتھے ..
کاہیلرمیں قیام
جب کاہیلرمیں بغاوت رونماہوئی توسلطان محمودکےحکم پرسالارساہوفوج لےکراجمیرسےکاہیلرروانہ ہوئے اوروہاں پہونچ کر باغیوں کی سرکوبی فرمائی چونکہ کاہیلرہی میں مستقل قیام کاارادہ تھااس لئےبیوی سترمعلّٰی اوربیٹےمسعودغازی بھی سالارساہوکےحکم پر کاہیلرروانہ ہوئے .راستےمیں آپ نےقصبہ راول میں قیام فرمایاجہاں شیوکن اوربشنوزمیں دارنےآپ کومٹھائی میں زہرملاکرپیش کیا مگرآپ نےاپنی نگاہ ولایت سےاس خطرناک سازش کوپہچان لیا اوراسےکھانےسےگریزکیانیزاپنےساتھیوں کوبھی اسےکھانےسےمنع کردیاآپ نےشیوکن کی اس خطرناک سازش کی وجہ سےاس سے جدال فرمایااوراسےشکست سےدوچارکیایہ سب سے پہلی مہم تھی جسےآپ نےدس سال کی عمرمیں انجام دیااوراس کےبعد آپ والدسالارساہوکےپاس کاہیلر پہونچے ..سالارساہونےآپ کاپرتپاک استقبال کیا ..
ہندوستان سےغزنی کاسفر
خراسان کی مہم سےفارغ ہوکرسلطان محمودجب غزنی واپس ہوئےتوسالارساہواورمسعودغازی کوغزنی بلایاجہاں کچھ دن رہ کرسالارساہوواپس کاہیلر لوٹ آئےمگرمسعودغازی غزنی ہی میں رہےاور415/ھ میں جب سلطان محمودمعرکہ سومناتھ کےلئےروانہ ہوئےتومسعودغازی بھی آپ کےساتھ آئے اوراپنی جاں بازی کاثبوت دیا، فتح ونصرت کےبعدمسعودغازی بھی سلطان کےساتھ واپس غزنی تشریف لےگئے ..
غزنی سےتبلیغ اسلام کےلئےہندوستان کاسفر
سلطان محمودکاایک وزیرخواجہ حسن تھاجسےحضرت سالارمسعودسےان کی مقبولیت اورسلطان کےنزدیک قدرومنزلت کی بناء پرعداوت تھی اسی وجہ سےوہ انتظامی امورمیں بھی قصورکرتاتھا سلطان اس کےحسدسےواقف تھے لیکن وہ حکومت کےایک اہم منصب وزارت عظمیٰ پرمامورتھااس لئےعجلت میں کوئی اقدام کرنےکےبجائےآپ نےسالارمسعودکوکاہیلروالدین کےپاس بھیجنےکاارادہ کیا، آپ نےسالارمسعودسےفرمایاکہ خواجہ حسن تم سے جلن رکھتاہے اسی لئے ہمارےانتظام میں بھی قصورکرتاہے اس لئےمصلحت کی بناء پرکچھ دنوں کےلئےتم کاہیلروالدین کےپاس چلےجاؤ حالات سازگارہونےپرجلدہی واپس بلالوں گا اس پرآپ نےفرمایاکہ میری توخواہش ہے کہ آپ مجھے ہندوستان میں اشاعت اسلام کی اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ اس کفروشرک کی زمین پراللہ کانام بلندکرنےکاراستہ نکل سکے ، کم عمری کےپیش نظرسلطان نےاولاََروکناچاہامگرآپ کےجذبہ وشوق کودیکھتے ہوئے کلیجےسےلگاکرتبلیغ اسلام کےلئے روانہ فرمایا، گیارہ ہزارجاں نثاربھی اس عظیم مہم میں آپ کےہمرکاب ہوگئے، مبلغین اسلام کایہ قافلہ کابل سےگذرتاہواجلال آبادکےراستے سے کاہیلرپہونچا جہاں سلطان محمودکی خواہش کےمطابق سالارساہونےبھی روکناچاہا مگرآپ کےسینےمیں اشاعت اسلام کاجذبہ بیکراں موجزن تھا اس لئےوالدین کی محبت پاؤں کی زنجیرنہ بن سکی بالآخرسالارساہونےاسلام کےاس عظیم مجاہدکو اپنی دعاؤں اوراپنےلشکرکےمنتخب افرادکےہمراہ روانہ کردیا .
حضورسیدناسالارمسعودغازی علیہ الرحمہ کاہیلرسےروانہ ہوکرنہایت ہی شان وشوکت کےساتھ دریائےسندھ کےکنارےپہونچے اورکشتیوں کےانتظام سےدریاپارفرمایا، راستےمیں شیوپوراورمقام اوچ کےراجاؤں کوشکست دےکرآپ نےاجودھن پاک پٹن پراسلامی پرچم لہرایاپھرسال بھرتک یہیں قیام فرمایا ..
دہلی آمد
اس وقت دہلی کاراجہ مہیپال رائےتھاجب آپ دہلی کےلئےروانہ ہوئےتوراجہ نےمسعودغازی علیہ الرحمہ کوحقیرجانتےہوئےمقابلہ کےلئے ایک بھاری فوج روانہ کی آپ نےسب سےپہلےراجہ کےسامنےدعوت اسلام پیش کی جسےاس نےٹھکرادیا بعدمیں جنگ کی نوبت آئی جوایک ماہ سےزائدجاری رہی مگرکوئی نتیجہ برآمدنہ ہواآپ نےبارگاہ خداوندی میں فتح ونصرت کی دعامانگی جوقبولیت سےسرفرازہوئی اورخواجہ حسن کی شرارت سےتنگ آکرغزنی سےسالارسیف الدین، محی الدین بختیار، میرعزالدین، ملک دولت شاہ اورسالاررجب ایک لشکرجرارلےکرآگئے جسےمسعودغازی علیہ الرحمہ نےتائیدغیبی جانا اورراجہ پردہشت طاری ہوگئی اس لشکرکےپہونچنےسےمجاہدین اسلام کوفتح وکامرانی حاصل ہوئی اوردہلی کاتخت حضورمسعودغازی علیہ الرحمہ کےقدموں میں آگیا..آپ نےامیربایزیدجعفرکوحکومت کی باگ ڈورعطافرمائی اوراگلی منزل کےلئےروانہ ہوئے.. اس جنگ میں میرعزالدین اورآپ کےبہت سےرفقاء نےجام شہادت نوش فرمایااورآپ کےدودانت بھی شہیدہوگئےتھے..اس جنگ کےبعدبہت سےراجاؤں نے خودبخوداطاعت قبول کی ..
سترکھ میں قیام
مسعودغازی علیہ الرحمہ کانورانی قافلہ میرٹھ اورقنوج ہوتےہوئے بارہ بنکی کےقصبہ سترکھ پہونچاجہاں آپ نےقیام فرمایا
اس وقت کٹرامانک پورکاراجہ دیونرائن تھااسےمسلمانوں کےبڑھتےقدم دیکھ کرسخت ناگواری ہوئی اوراس نےمسلمانوں سےکہاکہ اِس ملک سے واپس چلےجاؤورنہ ہم طاقت استعمال کرکےواپس کریں گےحضورمسعودغازی علیہ الرحمہ نےفرمایاکہ پوری روئےزمین اللہ کی ہےکوئی انسان اس کامالک نہیں، وہ جسےچاہتاہے ملک عطاکرتاہےہمارامقصدجنگ وجدال نہیں بلکہ تبلیغ اسلام ہے،اوراگرزبردستی جنگ مسلط کی جائےگی توہم بھی جوابی کارروائی سےپیچھےنہیں ہٹیں گے.. سترکھ قیام کےدوران بھی آپ کوزہردےکرمارنےکی کوشش کی گئی لیکن اللہ نےاس سےآپ کو محفوظ رکھا، جب اس کی خبرجب والدہ مکرمہ بی بی سترمعلّٰی کوہوئی توانہیں سخت صدمہ لاحق ہوااوراسی غم میں 421ھ میں آپ وصال فرماگئیں اورجنازہ کاہیلرسےغزنی بھیج دیاگیاجہاں آپ کی تجہیزوتدفین عمل میں آئی اُدھرچندایام بعدغزنی میں 421/ھ میں 63/ سال کی عمرمیں سلطان محمودغزنوی کابھی وصال پرملال ہوگیا
ابررحمت ان کےمرقدپرگہرباری کرے
حشرتک شان کریمی نازبرداری کرے
بی بی سترمعلّٰی کےانتقال کےبعدحضرت سالارساہوبھی کاہیلرسےسترکھ چلےآئے ..
اُدھربہرائچ، سنبولہ اورکٹراومانک پورکےراجاؤں نےخفیہ طورپرجنگ کی تیاریاں کرلیں اس لئے باتفاق رائےیہ طےپایاکہ سالارساہوکٹراومانک پوراورسیف الدین سرخروسالار بہرائچ کارخ کریں سالارساہونےکٹراومانک پورپہونچ کراپنی جنگی مہارت سے اسےجلدہی فتح کرلیا
اسی اثنامیں یہ خبرموصول ہوئی کہ راجاؤوں نےسیف الدین سرخروسالار کوبہرائچ میں گرفتارکرلیاہے جس سے مسعودغازی علیہ الرحمہ رنجیدہ ہوئے اورآپ بھی بہرائچ کےلئے روانہ ہوگئے ..
بہرائچ آمد
شعبان 423ھ میں حضورمسعودغازی علیہ الرحمہ اپنےوالدمحترم سےاجازت لےکر بہرائچ پہونچے جب راجاؤوں کوآپ کےآنےکی خبرہوئی توانہوں سیف الدین سالارکوچھوڑدیا .. آپ کےبہرائچ آنےکےدوماہ بعدسترکھ میں والدمکرم حضرت سالارساہوکاوصال پرملال ہوگیا اورآپ کوسترکھ ہی میں دفن کیاگیا باپ کےانتقال کےغم نے آپ کوبےچین کردیاپھر بھی آپ کےپائے ثبات میں کوئی کوئی لغزش نہ آئی بلکہ تبلیغ دین کے لئے جانفشانی کے ساتھ لگے رہے ..
مؤرخین کابیان ہے کہ موجودہ درگاہ شریف کے پاس ایک مہوہ کادرخت تھا جس کے نیچے آپ اکثر قیام فرمایاکرتے تھے۔ آپ فرماتےتھے کہ ہندوستان آنے کے بعد مجھے کہیں سکون نہیں ملا اس درخت کے نیچے سکون محسوس کرتاہوں۔ یہ آپ کی شھادت کی جانب غیبی اشارہ تھا۔آپ کے بہرائچ آمد کے بعد ہر طرف مخالفت کی ہوائیں چلنے لگیں، بہرائچ وقرب وجوار کے راجاؤں کو آپ کی اقامت سےسخت ناگواری ہوئ۔ انھوں نے آپ کو بھگانا چاہا اور کہاکہ اگر یہاں سےنہیں گئے تو لڑائ سے معاملہ طے ہوگا۔ آپ نےصلح کی بات رکھتے ہوئے فرمایا کہ چند روزبعد چلاجاؤں گاپھر بھی وہ نہ مانے یہاں تک کہ جنگ کی نوبت آگئ ۔مخالفین نے دریائے بھکلہ پر پڑاؤ ڈالا جہاں دونوں فوجوں کے مابین جم کر مقابلہ ہوا اسلام کے شیروں نے اس قدر جواں مردی کامظاہرہ فرمایا کہ دشمنوں کے پاؤں اکھڑ گئے وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور ان کے کئ سرداربھی گرفتار ہوئے ۔ اس جنگ کےبعدتقریباََایک ہفتہ تک سرکارغازی نےیہیں قیام فرمایامگرمخالفین میں ہمت نہ ہوئی کہ وہ دوبارہ آپ کےسامنےآتے.
اس شکشت سے تمام راجاؤں میں بے چینی پیداہوگئی تھی اوروہ دوبارہ جوش وخروش کےساتھ جنگ کی تیاری میں لگ گئے، راجاسہر دیو نے مشورہ دیا کہ اس بار میدان جنگ میں لوہے کی زھر آلود کیلیں بچھادی جائیں اوربارودی گولےتیارکئےجائیں چنانچہ ایسا ہی کیاگیا اور بھکلہ ندی کےشمالی میدان میں دونوں فوجیں ایک بار پھر آمنے سامنے ہوئیں اس جنگ میں مختلف راجاؤں نے حصہ لیاجن میں شنکر، کرن، اجےپال، ہرکرن، نرائن وغیرہ کےنام شامل ہیں اس بار بھی کوششوں کےباوجود دشمنوں کو شکشت کامنھ دیکھناپڑا۔ اورنصرت الٰہی نےمجاہدین اسلام کوفتح مبین کامژدہ سنایا اس جنگ میں سرکار غازی کے ایک تہائ احباب نے جام شہادت نوش فرمایا ۔
دوبارہ شکشت کے بعدہندؤوں کےمذہبی لیڈروں نے دھرم رکشا کے نام پر لوگوں کو ابھارنا شروع کیا، سورج دیوتا کے نام پر پورے شمالی ہندوستان میں نفرت کی آگ لگادی گئی اورلوگوں کو جنگ کے لئے آمادہ کیاگیا۔ ہمالیہ کے دامن سے لیکر گھاگھراندی تک دشمنوں کاٹڈی دل لشکر مقابلے کے تیارہوگیا۔اُدھر مسعود غازی علیہ الرحمہ بھی اپنے چند جاں نثاروں کے ساتھ میدان میں جلوہ بار ہوئے۔ جنگ کانقارہ بجتےہی تمام متوالےشوق شہادت میں چل دئیے، جنگ جاری ہوئی کئ روز تک آپ اورآپ کےرفقاء دشمنوں سے مقابلہ کرتے رہے مگراتنی کثیرفوج سے کب تک مقابلہ کرتے،مجاہدین اسلام جام شہادت سےسرفرازہورہےتھے جب اکثر جاں نثار شہید ہوگئے اورحضرت سیف الدین سرخروسالاربھی بہت سے دشمنوں کوانجام تک پہونچاکر جام شہادت سےسرفرازہوئے تو صرف چنددیوانےآپ کےساتھ باقی بچے جودشمنوں کےتیرآپ سےروک رہےتھے . دشمنوں نےموقع غنیمت دیکھ کر آپ پر تیروں کی بارش شروع کردی جس سے آپ کاجسم پاک لہولہان ہوگیا ..
شہادت
آپ اپنی محبوب سواری اسپ نیلی پرخون میں شرابور سوار تھے اس کے باوجود جدھر رخ فرماتے دشمن لرزہ براندام ہوجاتے ۔ اسی درمیان دشمنوں کے سردار سہردیو نے ٹیلوں کی آڑلیتے ہوئےبہت نزدیک آکر ایسا تیر مارا جو آپ کے گلوئے مبارک میں پیوست ہوگیا۔ تیر لگتے ہی آپ کاتوازن سواری پر قائم نہ رہ سکا، غشی طاری ہوئ قریب تھاکہ آپ گھوڑے سے نیچے آجاتے مگر آپ کے سچے عاشق سکندردیوانہ نے آپ کو سنبھالا اور سور ج کھنڈ کے نیچے مہوہ کے درخت کے نیچےلٹادیااس وقت آپ کےہونٹوں پرتبسم کھیل رہاتھااور زبان مبارک پر کلمہ طیبہ جاری تھا، بالآخر 14رجب المرجب 424 ہجری مطابق 10 جولائی 1033عیسوی کوعصر ومغرب کے درمیانی وقت آپ نےجام شہادت نوش فرمایااور اس دار فانی کو خیر آبادکہا ،،
فناکےبعدبھی باقی ہےشان رہبری تیری
خداکی رحمتیں ہوں اےامیرکارواں تجھ پر
روحانی مقام
حضرت سلطان الشھداء کامزارپرانوارمرجع خاص وعام ہے لطائف اشرفی اورحیات سیداشرف جہانگیر علیہ الرحمہ کےحوالے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی نےفرمایاکہ مسعودغازی کےآستانےپردن میں 70/بار حضرت خضرعلیہ السلام سےمیری ملاقات ہوئی آپ نےفرمایاکہ حضرت خضرسےجتنی ملاقاتیں بہرائچ میں ہوئیں روئےزمین پرکہیں نہیں ہوئیں ..
مرأۃ الاسرارمیں تاریخ مرأۃ سکندری کےحوالےسےحضرت شاہ محبوب عالم گجراتی قدس سرہ کایہ فرمان مرقوم ہے کہ
جب اکثرلوگ اپنی حاجات قطب الاولیاحضرت خواجہ معین الدین کی خدمت میں پیش کرتےہیں حضرت خواجہ ان کوسالارمسعودغازی کی روحانیت کےحوالہ کرکےخودآزادہوجاتےہیں (مرأۃ الاسراص 440 )
(ماٰخذ : مضمون غزانامہ مسعود، مرأۃ مسعودی، مرأۃ الاسرار، تاریخ سیدسالارمسعودغازی، انوارمسعودی ..
نفیس احمدرضوی مصباحی بہرائچی