مفتی سید افضال احمد ایک تعارف از قلم: محمد نعیم امجدی اسمٰعیلی

مفتی سید افضال احمد ایک تعارف

از قلم: محمد نعیم امجدی اسمٰعیلی (بہرائچ شریف)
فاضل جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو یوپی (شعبۂ تخصص فی الفقہ الحنفی)

مبسملاً وحامدا و مصليا و مسلماً
قطرے سے گوہر اور شخص سے شخصیت بننا آسان نہیں ، یہ نہایت جگر سوزی اور پتاماری کا کام ہے یا پھر کسب سے زیادہ وہب کی کار فرمائی ہو، تو وہ شخصیتیں ایسی ہی ہوتی ہیں، جو گوہر ہی نہیں، گوہر آبدار و تابدار بن کر ہی پیدا ہوتی ہیں ۔مجاہدِ سنیت،فاتح گونڈہ، مفتئ شہر گونڈہ، خلیفۂ حضور مفتئ اعظم ہند، تلمیذِ حضور شارح بخاری، سابق صدر المدرسین مدرسہ صدرالعلوم بڑگاؤں گونڈہ حضرت علامہ مولانا مفتی سید افضال احمد قادری علیہ الرحمہ بانی جامعہ قادریہ گلاب شاہ تکیہ محلہ میواتیان گونڈہ کا شمار انہی مردان کار اور رجال نامدار میں ہونا چاہیے ۔ وہ پھول سا چہرہ لے کر پیدا ہوئے اور ذہانت و فطانت کا انبار و بھنڈار۔

آپ کی ولادت باسعادت 15/اگست 1947ء کو موضع پیارے پور ضلع بہرائچ شریف میں ہوئی آپ کی ولادت انگریزوں کے ظلم اور فرقہائے باطلہ کے کفر سے آزادی کا پیغام لئے ہوئے آئی۔
آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے والد ماجد کا نام سید اقبال احمد اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ منیرن بیگم ہے۔ آپ تین بھائی اور آپ کی تین بہنیں ہیں بھائیوں میں سید مثقال احمد اور سید ابدال احمد ابھی باحیات ہیں۔

تعلیم وتربیت
حضور فاتحِ گونڈہ علیہ الرحمہ بچپن ہی سے بلند اقبال عمدہ خیال خوب سیرت ، نیک صورت، پاک طبیعت خوش فہم اور سنجیدہ مزاج تھے۔ علم دین حاصل کرنے کا جذبہ اور لگن، شریعت کے احکام سیکھنے کا شوق، احکام خداوندی کو دل میں اتارنے کی تڑپ پچپن ہی سے آپ کے سینے میں موجزن تھی۔ چنانچہ اپنے تعلیمی سفر کا آغاز اپنے وطن پیارے پور سے کیا پھر مدینۃ الشفاء ہرائچ شریف میں جامعہ اشرفیہ مسعود العلوم چھوٹی تکیہ میں تعلیم حاصل کی بعدہ جامعہ انوار العلوم تلشی پور میں علمی تشنگی بجھائی جب وہاں کے حالات ناسازگار ہوئے تو جامعہ عربیہ انوار القرآن بلرام پور کا رخ کیا وہاں دیگر اساتذۂ ذوی الاحترام کے ساتھ حضور شارح بخاری علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کے دریائے علم و فضل سے سیراب ہوئے حضور شارح بخاری علیہ الرحمہ کے آپ انتہائی چہیتے شاگرد تھے۔ حضور فاتحِ گونڈہ دوران طالب علمی میں بہت سی تکلیفیں اٹھائیں ایک ہی کپڑے پر کئی مہینے گزارا کرتے۔

درس وتدریس
جملہ علوم مروجہ وفنون متداولہ کی تحصیل کے بعد اورئی ضلع جالون میں خدمتِ علم دین کے لئے تشریف لے گئے اس کے بعد کچھ دن بھنگا ضلع بہرائچ شریف میں رہے لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کی تقدیر میں گونڈہ کی آب وہوا لکھ دی تھی مرضئ مولیٰ از ہمہ اولیٰ بریں بنا آپ گونڈہ تشریف لائے اور گونڈہ ریلوے مسجد میں منصبِ امامت پر فائز ہوئے بعدہ صدر العلوم جو کہ مسجد میں ایک مکتب تھامحنت ومشقت کرکے مستقل عمارت کی تعمیر کرائی اور اسے دارالعلوم بنادیا اور باقاعدہ درسِ نظامی کی تعلیم کا آغاز کیا ہزاروں مشکلات کے باوجود پہاڑ کی طرح ڈٹ کر صدر العلوم کو بام عروج تک پہنچایا۔
کئ سالوں تک صدر العلوم میں درس دیتے رہے ہزاروں طالبان علوم نبویہ کو دولتِ علم سے مالا مال کیا۔ آپ کے ہزاروں تلامذہ دینی،ملی،سماجی طور پر قوم مسلم کی رہنمائی میں مصروف ہیں کئی شاگردوں نے اپنے استاذ کے نقوش پا کو سرمایۂ حیات سمجھتے ہوئے جامعات، مدارس،مساجد ومکاتب قائم کیا جن کے ذریعہ علمِ دین کو فروع مل رہا ہے اور ان شاءاللہ تعالیٰ ملتا رہے گا۔ حضور فاتحِ گونڈہ طلباء پر بے حد مشفق و مہربان تھے طلباء کی ضرورتیں پوری کرتے ٹھنڈک کے موسم میں رضائی وغیرہ کا انتظام کراتے اور بیشمار بچوں کا خرچ اپنی جیبِ خاص سے چلا تے۔
حضور فاتحِ گونڈہ نے محلہ میواتیان کی سنیت پر کرم فرمایا دیوبندیت کے چنگل سے لوگوں کو بچانے کے لئے ایک ادارہ قائم کیا جس کا نام منتخب ہوا” جامعہ قادریہ گلاب شاہ تکیہ” ادارہ کی سنگِ بنیاد وارث علوم اعلیٰ حضرت جانشینِ مفتی اعظم حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے دستِ پاک سے رکھی گئی۔ صدر العلوم سے ریٹائرمنٹ کے بعد آخر دم تک اپنے قائم کردہ ادارہ جامعہ قادریہ میں درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔
آپ مسلسل متفکر رہتے کہ اہلسنت وجماعت کے لئے جو کچھ میں کرسکتا ہوں کر گزروں گویا یہی کہتے رہے
شوق میں اب نہ رکیں گے دم رفتار قدم
دور اب منزل مقصود ہو یا چار قدم
بفضلہٖ تعالیٰ جامعہ قادریہ میں شعبۂ حفظ وقرات ودرس نظامی کی تعلیم جاری ہے۔
صدر العلوم اور جامعہ قادریہ کے علاوہ جامعہ مخدومیہ بھی اپنے وطن عزیز پیارے پور میں قائم کیا جو اب بھی چل رہا ہے۔

اخلاق وکردار ، وہ منکسر المزاج بھی تھے اور وضعدار وصاحب مروت بھی۔ ان کے یہاں پندار علم تھا، نہ نمائش علم ،سادگی ، فروتنی ، ہمدردی ،بہی خواہی ، معارف پروری ، علما نوازی،ان پر نازاں تھی ۔ چھوٹوں کے شفیق، بڑوں کے محبوب، ہنس مکھ ، ملنسار ، کم آمیز، کم گفتار، مگر غم خوار ،وفا شعار ، علم دوست،علما دوست ،انسان دوست، اپنوں کے لئے لالہ صحرائی کی پنکھڑیوں سے ڈھلکتی شبنم، غیروں کے لیے رعد وکٹڑک ، بجلی کی کوند ، برق خاطف ، اور شمشیرِ بے نیام ، یہ سارے اوصاف و امتیازات ان کے موروثی و توریثی تھے ، یعنی میراث میں ملے تھے ۔ جی ! یہ نہ حسن عقیدت ہے ، نہ غلوئے محبت…. بلکہ یہی حقیقت ہے۔

بیعت وخلافت : زمانۂ طالب علمی ہی میں ہم شبیہ غوث اعظم شہزادۂ مجدد اعظم حضور مفتی اعظم علامہ مفتی مصطفی رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے ہوئے۔
مرشد کریم نے اپنے مرید صادق کو اپنی خلافت کا اہل جاننے کے بعد عرس رضوی کے موقع پر بریلی شریف میں اپنی خلافت و اجازت سے سرفراز کیا۔
تفویضِ خلافت کے بعد آپ نےسلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ نوریہ میں ہزاروں لوگوں کو داخل فرمایا۔ فقیر راقم السطور کے علاقے میں آپ کے مریدین کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ بندۂ ناچیز ایک بار حضرت کے ایک مرید کے یہاں ختم قادریہ میں شریک ہوا وہاں حضور فاتح گونڈہ ہی میرِ مجلس تھے۔

خدمتِ مسلک اعلیٰ حضرت حضور فاتحِ گونڈہ پوری زندگی مسلکِ اعلیٰ حضرت پر قائم رہے اور دوسروں کو مسلک اعلیٰ حضرت پر چلنے کی تلقین کرتے رہے مسلک کے معاملے میں کبھی کسی سے سمجھوتا نہ کیا۔
کفار ومرتدین پر آپ کی شدّت دیکھ کر اشداء علی الکفار کی عملی تفسیر نظروں کے سامنے گردش کرنے لگتی تھی ۔
اکثر وبیشتر عرسِ رضوی میں شرکت فرماتے اور وہاں خطاب بھی کرتے متعلقین سے فرماتے جب میری طبیعت الجھتی ہے تو میں بریلی شریف چلا جاتا ہوں۔عرسِ شارح بخاری میں بھی شریک ہوتے راقم الحروف نے خود عرس شارح بخاری کے منبر پر اکابر علماء ومشائخ کی موجودگی میں آپ کو تقریر کرتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے۔
اکابر علماء ومشائخ بالخصوص حضور مفتئ اعظم ہند، حضور شارح بخاری، پاسبان ملت علامہ مشتاق احمد نظامی، حضور مجاہد ملت، بلبل ہند مفتی رجب علی، خطیب البراہین مفتی صوفی نظام الدین، امام العلماء مفتی شبیر حسن روناہی علیھم الرحمہ استاذ گرامی سلطان المناظرین حضور محدث کبیر دام ظلہ العالی اور مشائخِ مارہرہ بالخصوص تاج المشائخ حضور امین ملت اور رفیقِ ملت دام ظلھما الاقدس سے آپ کے دیرینہ روابط تھے۔ علماء ومشائخ ہمیشہ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔

رشتۂ ازدواج واولاد : حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی سنتِ مبارکہ کو ادا کرنے کی غرض سے آپ نے شہر گونڈہ میں ایک نیک سیرت، پرہیزگار،پاکدامن، باحیا شاکرہ اور صابرہ خاتون سے 24/جون 1973ء میں نکاح فرمایا ان کے ذریعہ معطئی حقیقی نے آپ کو 6 بچیوں سے نوازا، عمر کے آخری حصے میں دوسری خاتون سے نکاح فرمایا جن سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔

زیارت حرمین شریفین حضور فاتح گونڈہ 1991ء میں حرمین شریفین زادھما اللہ شرفا وتعظیما کی زیارت سے مشرف ہوئے۔

متعلقین کو نصیحت اپنے عزیز و اقارب دوستوں واحباب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے” اللّٰہ اور اس کے رسول عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دوستوں سے دوستی اور دشمنوں سے دشمنی رکھنا یہی تمہارے ایمان کی پہچان ہے۔

وصال علم و فن کا یہ درخشاں سورج 8/مئی 2021ء مطابق 25/ رمضان المبارک 1442ھ کو غروب ہوگیا مزارِ اقدس جامعہ قادریہ گلاب شاہ تکیہ محلہ میواتیان گونڈہ کے اندرونی حصے میں مرجعِ خلائق ہے ۔

حضور فاتح گونڈہ گئے مگر اس شان سے گئے کہ زبان تو بند کر لی ہے مگر لاکھوں منہ میں زبان دے گئے قلم تو رک گیا مگر لاکھوں ہاتھوں میں دریا کی روانی کی طرح چلتے ہوئے قلم دے گئے،فکر و تدبر کا سلسلہ بند کر دیا مگر لاکھوں ذہنوں کو فکر و شعور اور علم و آگہی کی دولت دے گئے، درس دینا چھوڑ دیا مگر لاکھوں اہل علم پیدا کر گئے ، جو انکی مسند تدریس کی یادگار ہیں۔
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

اللہ کریم اپنےحبیبِ عظیم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صدقے حضور فاتحِ گونڈہ کی تربتِ پاک پر رحمت وانوار کی بارش برسائے اور ان کے فیوض و برکات سے ہمیں مالا مال فرمائے۔ آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

Leave a Reply