سورج کے طلوع ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں مکمل تحقیق ۔
حضرت العلام مفتی شریف الحق امجدی لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ بعض کتابوں میں درج ہے لیکن تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ روایت موضوع، منگھڑت اور بالکلیہ جھوٹ ہے-
(فتاوی شارح بخاری، ج٢ ،ص٣٨)
بحر العلوم حضرت العلام مفتی عبد المنان اعظمی لکھتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو اذان سے معزول کرنے کا ذکر ہم کو نہیں ملا بلکہ عینی جلد پنجم، صفحہ نمبر ١٠٨ میں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ کے لیے سفر اور حضر ہر دو حال میں اذان دیتے اور یہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ دونوں حضرات کی آخری زندگی تک مؤذن رہے-
(فتاوی بحر العلوم، ج١، ص١٠٩)
مولانا غلام احمد رضا لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ موضوع و منگھڑت ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے کلمات اذان صحیح (طور پر) ادا نہیں ہو پاتے تھے-
( فتاوی مرکز تربیت افتا، ج٢، ص٦٤٧)
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو واقعہ آپ نے ذکر کیا ہے بسیار تلاش کے باوجود کتب حدیث و سیر میں ہمیں نہیں ملا، علماء نے لکھا ہیں کہ یہ واقعہ موضوع اور من گھڑت ہے،اس کی کوئی اصل نہیں ہے، باطل ہے ۔
اخیر میں ہمیے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ صرف سورج کا رکنا یہ صرف حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے ہوا تھا،ان کے علاوہ سورج کا رکنا کسی اور کے لئے نہیں ہوا، اور یوشع بن نون علیہ السلام کے متعلق سورج کا رکنا صحیح روایات سے ثابت ہیں جو درج ذیل ہیں،
عن ابي هريرة رضي الله تعالى عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: (غزا نبي من الأنبياء………..فَغَزا فأدْنى لِلْقَرْيَةِ حِينَ صَلاةِ العَصْرِ، أوْ قَرِيبًا مِن ذلكَ، فقالَ لِلشَّمْسِ: أنْتِ مَأْمُورَةٌ، وأنا مَأْمُورٌ، اللَّهُمَّ، احْبِسْها عَلَيَّ شيئًا، فَحُبِسَتْ عليه حتّى فَتَحَ اللَّهُ عليه)
(صحيح مسلم رقم الحديث: ١٧٤٧، صحيح البخاري رقم الحديث:٣١٢٤،صحيح ابن حبان رقم الحديث:٤٨٠٨)
ترجمہ۔ انبیاء میں سے کسی نبی نے عصر کے وقت یا اس سے قریب قریب کسی شہر میں غزوہ کیا،تو انہوں نے سورج سے کہا کہ تو اللہ کے حکم کا مامور ہے،اور میں بھی اللہ کے حکم کا مامور ہو،پھر انہوں نے اللہ سے دعا کی اے اللہ تو اس کو ہمارے لئے تھوڑا روک دے چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کو روک دیا،اور اللہ نے ان کو فتح میں کامیابی نصیب فرمائی۔
اس صحیح روایت سے معلوم ہو گیا کہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے سورج کو روکا گیا تھا۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ سورج صرف اور صرف یوشع بن نون علیہ السلام کے لئے روکا گیا،اور ان کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں روکا گیا، چنانچہ مستند احمد میں ہے،
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنَّ الشَّمسَ لم تُحبَسْ على بشرٍ إلّا ليُوشَعَ لياليَ سار إلى بيتِ المقدسِ۔
(المسند لاحمد بن حنبل رحمه الله (١٤/٦٥) ،الألباني (متوفى ١٤٢٠ هـ) السلسلة الصحيحة ص ٢٠٢ وقال هذا صحيح ،ابن الجوزي (متوفى ٥٩٧ هـ) موضوعات ابن الجوزي ٢/١٢٣ صحيح،الذهبي (٧٤٨ هـ)، ترتيب الموضوعات ص١٠٦ صحيح،ابن كثير (٧٧٤ هـ)، البداية والنهاية ١/٣٠١ على شرط البخاري،ابن حجر العسقلاني (٨٥٢ هـ)، فتح الباري لابن حجر ٢٥٥/٦ صحيح)
اس سے معلوم ہو گیا کہ سوال مذکور میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے، کیونکہ ان احادیث میں بتایا گیا کہ سورج کا روکنا صرف اور صرف یوشع بن نون علیہ السلام کے لیے ہوا ہے، اس حدیث کو علامہ البانی نے السلسلۃ الصحیحۃ میں ذکر کر کے یہ بات نقل کی ہے کہ، يقول الشيخ الألباني رحمه الله : (فيه أن الشمس لم تحبس لأحد إلا ليوشع عليه السلام ، ففيه إشارة إلى ضعف ما يروى أنه وقع ذلك لغيره۔
ومن تمام الفائدة أن أسوق ما وقفنا عليه من ذلك )
وذكر الشيخ رحمه الله ما ورد من حبس الشمس لغير يوشع بن نون عليه السلام ، وبين عللها ، ثم قال 🙁 وجملة القول : أنه لا يصح في حبس الشمس أو ردها شيء إلا هذا الحديث الصحيح ) انتهى.
(السلسلة الصحيحة ) (رقم/٢٠٢)
ترجمہ۔ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سورج یوشع بن نون کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں رکا،اور اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سورج کسی اور کے لئے رکنے کے جتنے بھی واقعات بیان کئے جاتے ہیں وہ سب ضعیف ہیں، اور ناقابل یقین ہیں، ہم اس کے قائل ہیں، اور شیخ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سورج کے روکنے کے بارے میں جو حدیث ثابت ہے اس حدیث کے علاوہ سب روایات ضعیف ہیں۔
الانتباہ ۔۔۔۔ان دلائل کے بعد اب اس روایت کے موضوع و منگھڑت ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا –
واللہ اعلم بالصواب ۔
حضرت علامہ مولانا منظور عالم قادری
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
خادم التدریس دارالعلوم معین الاسلام چھتونہ میگھولی کلاں مہراجگنج یوپی