حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے جنت سے نکلنے پر شیطان کی مددکرنے والے گستاخوں کاانجام

حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے جنت سے نکلنے پر
شیطان کی مددکرنے والے گستاخوں کاانجام

یہاں ہم ان جانوروں کاذکرکریں گے جو حضرت سیدناآدم علیہ السلام کاادب کرنے والے تھے اوراللہ تعالی نے ان پر انعام فرمایااوروہ جانورجنہوںنے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے ساتھ خیانت کی ان پر اللہ تعالی کاغضب کیسے ہوا۔
سانپ کاشیطان کے ساتھ مل کر ۔۔۔
وَذَکَرَہُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ،:دَخَلَ الْجَنَّۃَ فِی فَمِ الْحَیَّۃِ وَہِیَ ذَاتُ أَرْبَعٍ کَالْبُخْتِیَّۃِ مِنْ أَحْسَنِ دَابَّۃٍ خَلَقَہَا اللَّہُ تَعَالَی بَعْدَ أن عرض نَفْسَہُ عَلَی کَثِیرٍ مِنَ الْحَیَوَانِ فَلَمْ یُدْخِلْہُ إِلَّا الْحَیَّۃُ، فَلَمَّا دَخَلَتْ بِہِ الْجَنَّۃَ خَرَجَ مِنْ جَوْفِہَا إِبْلِیسُ فَأَخَذَ مِنَ الشَّجَرَۃِ الَّتِی نَہَی اللَّہُ آدَمَ وَزَوْجَہُ عَنْہَا فَجَاء َ بِہَا إِلَی حَوَّاء َ فَقَالَ: انْظُرِی إِلَی ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ، مَا أَطْیَبَ رِیحَہَا وَأَطْیَبَ طَعْمَہَا وَأَحْسَنَ لَوْنَہَا!فَلَمْ یَزَلْ یُغْوِیہَا حَتَّی أَخَذَتْہَا حَوَّاء ُ فَأَکَلَتْہَا. ثُمَّ أَغْوَی آدَمَ، وَقَالَتْ لَہُ حَوَّاء ُ: کُلْ فَإِنِّی قَدْ أَکَلْتُ فَلَمْ یَضُرَّنِی، فَأَکَلَ مِنْہَا ۔وَلُعِنَتِ الْحَیَّۃُ وَرُدَّتْ قَوَائِمُہَا فِی جَوْفِہَا وَجُعِلَتِ الْعَدَاوَۃُ بَیْنَہَا وَبَیْنَ بَنِی آدَمَ، وَلِذَلِکَ أُمِرْنَا بِقَتْلِہَا۔ملخصاً۔
ترجمہ :حضرت سیدناوہب بن منبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شیطان سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں داخل ہواتھا، یہ سانپ چارٹانگوں والاتھاجیسے بختی اونٹ ہوتاہے ، اللہ تعالی نے جن جانوروں کو پیداکیاتھاان میں سانپ خوبصورت ترین جانور تھا، شیطان نے پہلے اپنے آپ کو تمام جانوروں پر پیش کیاتھاکہ وہ اس کو جنت لے جائیں ، سوائے سانپ کے کوئی بھی جانور اس کے لئے تیار نہ ہوا۔ جب سانپ اس کو لیکر جنت میں داخل ہواتوشیطان اس کے پیٹ سے باہر نکلااوراس نے اس درخت ممنوعہ سے کچھ توڑااورحضرت سیدتناحوارضی اللہ عنہاکے پاس آیااورکہنے لگاکہ دیکھویہ کیساعمدہ درخت ہے اورکیسااچھاذائقہ ہے اوراس کارنگ کتناپیاراہے ، وہ اسی طرح کوشش کرتارہایہاں تک کہ حضرت سیدتناحواء رضی اللہ عنہانے اس درخت میںسے کھالیا۔ پھرشیطان نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو کہناشروع کیاکہ آپ اس کوکھالیں ، حضرت سیدتناحواء رضی اللہ عنہانے حضرت سیدناآدم علیہ السلام سے عرض کیاکہ آپ بھی کھالیں میں نے کھایاہے مجھے توکوئی تکلیف نہیں ہوئی ، پھرحضرت سیدناآدم علیہ السلام نے بھی کھالیا۔
اورسانپ پر اسی وقت لعنت کردی گئی اوراس کی ٹانگیں اس کے پیٹ میں لوٹادی گئیں اورا س کے اوراولاد آدم کے درمیان دشمنی بن گئی اسی وجہ سے ہمیں اس کو قتل کرنے کاحکم دیاگیاہے۔ملخصاً۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (ا:۳۱۲)

وہ سانپ کون تھا؟

أَنَّ الْحَیَّۃَ کَانَتْ خَادِمَ آدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِی الْجَنَّۃِ فَخَانَتْہُ بِأَنْ مَکَّنَتْ عَدُوَّ اللَّہِ مِنْ نَفْسِہَا وَأَظْہَرَتِ الْعَدَاوَۃَ لَہُ ہُنَاکَ، فَلَمَّا أُہْبِطُوا تَأَکَّدَتِ الْعَدَاوَۃُ وَجُعِلَ رِزْقُہَا التُّرَابَ، وَقِیلَ لَہَا: أَنْتِ عَدُوُّ بَنِی آدَمَ وَہُمْ أَعْدَاؤُکِ وَحَیْثُ لَقِیَکِ مِنْہُمْ أَحَدٌ شَدَخَ رَأْسَکِ۔
ترجمہ :الشیخ العلامۃ محمد الأمین بن عبد اللہ الأرمی العلوی الہرری الشافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ وہ سانپ جنت میں حضرت سیدناآدم علیہ السلام کاخادم تھا۔ اس نے خیانت کی اس طرح کہ اس نے اللہ تعالی کے دشمن شیطان کو اپنے نفس پر قدرت دی ، اس جہ سے اس کے لئے عداوت ظاہرہوگئی ، جب وہ نیچے اترے توعداوت مزید بڑھ گئی اوراس کارزق مٹی کو بنایاگیا، اسے کہاگیاکہ توبنی آدم کادشمن ہے اوروہ تیرے دشمن ہیں جہاں بھی ان میں سے کوئی بھی تجھے پائے گا تیراسرکچل دے گا۔
(تفسیر حدائق الروح : الشیخ العلامۃ محمد الأمین بن عبد اللہ الأرمی العلوی الہرری الشافعی(۱:۳۲۳)
اس سانپ نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے ساتھ غداری کی اس لئے اللہ تعالی نے اس کی کیفیت کو بدل دیا۔

اللہ تعالی کے نبی ﷺکے ساتھ غداری کرنے کی سزا

عَنْ طَاوُسٍ الْیَمَانِیِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَال:إِنَّ عَدُوَّ اللَّہِ إِبْلِیسَ عَرَضَ نَفْسَہُ عَلَی دَوَابِّ الْأَرْضِ أَنَّہَا تَحْمِلُہُ حَتَّی یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ مَعَہَا، وَیُکَلِّمَ آدَمَ وَزَوْجَتَہُ، فَکُلُّ الدَّوَابِّ أَبَی ذَلِکَ عَلَیْہِ، حَتَّی کَلَّمَ الْحَیَّۃَ فَقَالَ لَہَا: أَمْنَعُکِ مِنِ ابْنِ آدَمَ، فَأَنْتِ فِی ذِمَّتِی إِنْ أَنْتِ أَدْخَلْتِنِی الْجَنَّۃَ.فَجَعَلَتْہُ بَیْنَ نَابَیْنِ مِنْ أَنْیَابِہَا، ثُمَّ دَخَلَتْ بِہِ.فَکَلَّمَہُمَا مِنْ فِیہَا، وَکَانَتْ کَاسِیَۃً تَمْشِی عَلَی أَرْبَعِ قَوَائِمَ، فَأَعْرَاہَا اللَّہُ، وَجَعَلَہَا تَمْشِی عَلَی بَطْنِہَا. قَالَ:یَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ:اقْتُلُوہَا حَیْثُ وَجَدْتُمُوہَا، اخْفِرُوا ذِمَّۃَ عَدُوِّ اللَّہِ فِیہَا ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے دشمن شیطان نے اپنے آپ کو زمین کے جانور وں پر پیش کیاکہ وہ اسے اٹھالیں حتی کہ وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائے اورحضرت سیدناآدم علیہ السلام کے ساتھ کلام کرے ، تمام جانوروں نے اس کی بات ماننے سے انکارکردیاحتی کہ اس نے سانپ سے بات کی اورکہاکہ میں اولاد آدم سے تجھے بچائوں گابے شک تومیرے ذمہ میں ہوگا، اگرتومجھے جنت لے جائے ، پس سانپ نے اپنی کچلیوں کے درمیان اٹھالیاحتی کہ وہ اسے جنت لے گیا۔سانپ کے منہ سے شیطان نے بات کی اوریہ پہلے ڈھکاہواتھااورچارٹانگوں پر چلتاتھا۔ پس اللہ تعالی نے اس کی خیانت کی وجہ سے برہنہ کردیااورپیٹ کے بل اسے چلنے پر مجبور کردیا۔ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ جہاں بھی تم کو سانپ ملے اسے قتل کردواوراللہ تعالی کے دشمن کے ذمہ کو اس کے متعلق توڑو۔
(البدء والتاریخ: المطہر بن طاہر المقدسی (۲:۹۵)

جس نے سانپ کو قتل کیاوہ جہنم سے آزاد ہوجائے گا

حَدَّثَتْنَا شَاکِیَۃُ بِنْتُ الْجَعْدِ، قَالَتْ:سَمِعْتُ سَرَّاء َ بِنْتَ نَبْہَانَ الْغَنَوِیَّۃَ، تَقُولُ: سَأَلَ نُصَیْبٌ غُلَامُنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَیَّاتِ، مَا یَقْتُلُ مِنْہَا؟ قَالَتْ:فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ:اقْتُلُوا مَا ظَہْرَ مِنْہَا کَبِیرَہا وصَغِیرَہا، أَسْوَدَہا وأَبْیَضَہا فَإِنَّ مَنْ قَتَلَہَا مِنْ أُمَّتِی کَانَتْ فِدَاء ً لَہُ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ قَتَلَتْہُ کَانَ شَہِیدًا۔
ترجمہ :حضرت سیدتناشاکیہ بنت جعد رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سناکہ چھوٹے ، بڑے ، کالے اورسفید سانپوں کو قتل کرو، جو ان کوقتل کرے گااس کے لئے آگ سے فدیہ ہوں گے اورجس کو سانپ نے ڈس کرقتل کردیاوہ شہید ہوگا۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۲۴:۳۰۸)

فدیہ بننے کاسبب کیاہے ؟

قَالَ عُلَمَاؤُنَا:وَإِنَّمَا کَانَتْ لَہُ فِدَاء ً مِنَ النَّارِ لِمُشَارَکَتِہَا إِبْلِیسَ وَإِعَانَتِہِ عَلَی ضَرَرِ آدَمَ وَوَلَدِہِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہماے علماء کرام نے لکھاہے کہ آگ سے فدیہ اس لئے ہوگاکیونکہ یہ شیطان کے ساتھ شریک تھااورحضرت سیدناآدم علیہ السلام اوران کی اولاد کو زمیںپر پہنچانے میں اس شیطان کامددگارتھا۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۱:۳۱۲)

جس نے سانپ کوقتل کیاگویااس نے کافر۔۔۔۔

عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ قَتَلَ حَیَّۃً فَکَأَنَّمَا قَتَلَ کَافِرًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سناکہ جس شخص نے سانپ کو قتل کیاگویاکہ اس نے کسی کافرکو قتل کیاہے ۔
(مسند ابن أبی شیبۃ:أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد بن إبراہیم بن عثمان بن خواستی العبسی (۱:۲۴۶)
حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاعمل شریف
عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ الْجُشَمِیِّ، قَالَ:بَیْنَمَا ابْنُ مَسْعُودٍ، یَخْطُبُ ذَاتَ یَوْمٍ، إِذْ مَرَّ بِحَیَّۃٍ تَمْشِی عَلَی الْجِدَارِ، فَقَطَعَ خُطْبَتَہُ، ثُمَّ ضَرَبَہَا بِقَضِیبِہِ حَتَّی قَتَلَہَا، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ قَتَلَ حَیَّۃً فَکَأَنَّمَا قَتَلَ رَجُلًا مُشْرِکًا قَدْ حَلَّ دَمُہُ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوالاحوص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ ایک دن حضرت سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ خطبہ ارشافرمارہے تھے کہ اچانک دیوار پر ایک سانپ چلتاہوادکھائی دیا، آپ رضی اللہ عنہ نے خطبہ روک کر اپنے عصاکے ساتھ پہلے اسے ماراپھرفرمایاکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سناکہ جس شخص نے کسی سانپ کو ماراگویاکہ اس نے کسی مشرک کوقتل کیاجس کاخون حلال ہوگیاتھا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۷:۱۰۲)

جب سے ہم نے جنگ کی ہے ہم نے صلح نہیں کی

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا سَالَمْنَاہُنَّ مُنْذُ حَارَبْنَاہُنَّ وَمَنْ تَرَکَ شَیْئًا مِنْہُنَّ خِیفَۃً، فَلَیْسَ مِنَّا۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایاکہ جب سے ہم نے سانپوں کے ساتھ جنگ کی ہے اس کے بعد ان سے صلح نہیں کی اورجس شخص نے ان کے خوف کی وجہ سے ان کو چھوڑ دیاوہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد(۴:۳۶۳)

سانپوں کے ساتھ جنگ کی وجہ ؟

قَالَ یَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ سُئِلَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ تَفْسِیرِ مَا سَالَمْنَاہُنَّ مُنْذُ عَادَیْنَاہُنَّ فَقِیلَ لَہُ مَتَی کَانْتِ الْعَدَاوَۃُ قَالَ حِینَ أُخْرِجَ آدَمُ مِنَ الْجَنَّۃِ قَالَ اللَّہُ عَزَّ وجل إہبطوا مِنْہَا جَمِیعًا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام یحیی بن ایوب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنااحمدبن صالح رحمہ اللہ تعالی سے اس حدیث شریف کامطلب پوچھاگیاکہ’’ جب سے ہم نے ان کے ساتھ جنگ کی ہے اس کے بعد صلح نہیں کی ‘‘کاکیامطب ہے ؟یعنی یہ دشمنی کب سے ہے ؟ آپ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: جب سے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر بھیجاگیاہے تب سے ہی ان کے ساتھ دشمنی ہے۔
(التمہید لما فی الموطأ من المعانی والأسانید:أبو عمر یوسف النمری القرطبی (۱۶:۲۴)

گستاخ جانوروں اورپرندوں کی تفصیل

مَا کَانَ مِنَ الْحَیَوَانِ أَصْلُہُ الْإِذَایَۃُ فَإِنَّہُ یُقْتَلُ ابْتِدَاء ً، لِأَجْلِ إِذَایَتِہِ مِنْ غَیْرِ خِلَافٍ، کَالْحَیَّۃِ وَالْعَقْرَبِ وَالْفَأْرِ وَالْوَزَغِ، وَشَبَہِہِ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(خَمْسٌ فَوَاسِقُ یُقْتَلْنَ فِی الْحِلِّ وَالْحَرَمِ … ). وَذَکَرَ الْحَدِیثَ فَالْحَیَّۃُ أَبْدَتْ جَوْہَرَہَا الْخَبِیثَ حَیْثُ خَانَتْ آدَمَ بِأَنْ أَدْخَلَتْ إِبْلِیسَ الْجَنَّۃَ بَیْنَ فَکَّیْہَا، وَلَوْ کَانَتْ تُبْرِزُہُ مَا تَرَکَہَا رَضْوَانُ تَدْخُلُ بِہِ وَقَالَ لَہَا إِبْلِیسُ أَنْتِ فِی ذِمَّتِی، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِہَا وَقَالَ:(اقْتُلُوہَا وَلَوْ کُنْتُمْ فِی الصَّلَاۃِ) یَعْنِی الْحَیَّۃَ وَالْعَقْرَبَ وَالْوَزَغَۃُ نَفَخَتْ عَلَی نَارِ إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مِنْ بَیْنِ سَائِرِ الدَّوَابِّ فَلُعِنَتْ وَہَذَا مِنْ نَوْعِ مَا یُرْوَی فِی الْحَیَّۃِ وَرُوِیَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أنہ قال:من قتل وزغۃ فکأنماقَتَلَ کَافِرًاوَفِی صَحِیحِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَتَلَ وَزَغَۃً فِی أَوَّلِ ضَرْبَۃٍ کُتِبَتْ لَہُ مِائَۃُ حَسَنَۃٍ وَفِی الثَّانِیَۃِ دُونَ ذَلِکَ وفی الثالثۃ دون ذلک. وفی روایۃ أَنَّہُ قَالَ:(فِی أَوَّلِ ضَرْبَۃٍ سَبْعُونَ حَسَنَۃٍ وَالْفَأْرَۃُ أَبْدَتْ جَوْہَرَہَا بِأَنْ عَمَدَتْ إِلَی حِبَالِ سَفِینَۃِ نُوحٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَقَطَعَتْہَاوَرَوَی عَبْدُ الرحمن بن أبی نعم عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ(یَقْتُلُ الْمُحْرِمُ الْحَیَّۃَ وَالْعَقْرَبَ وَالْحِدَأَۃَ وَالسَّبُعَ الْعَادِیَّ وَالْکَلْبَ الْعَقُورَ وَالْفُوَیْسِقَۃ وَاسْتَیْقَظَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَخَذَتْ فَتِیلَۃً لِتَحْرُقَ الْبَیْتَ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِہَاوَالْغُرَابُ أَبْدَی جَوْہَرَہُ حَیْثُ بَعَثَہُ نَبِیُّ اللَّہِ نُوحٌ عَلَیْہِ السَّلَامُ مِنَ السَّفِینَۃِ لِیَأْتِیَہُ بِخَبَرِ الْأَرْضِ فَتَرَکَ أَمْرَہُ وَأَقْبَلَ عَلَی جِیفَۃٍہَذَا کُلُّہُ فِی مَعْنَی الْحَیَّۃِ، فَلِذَلِکَ ذَکَرْنَاہُ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ جانور جس کی اصل تکلیف پہنچاناہوتو اس کو دیکھتے ہی قتل کردیاجائے گا، اس کے اذیت پہنچانے کی وجہ سے ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے جیسے سانپ ،بچھو، چوہا، چھپکلی اوراس کے مشابہ جانور۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا:ـپانچ فواسق ہیں ، انہیں حل وحرم میں قتل کیاجائے گا۔
(۱)سانپ :اس نے اپناجوہر خبیث ظاہرکیاجب اس نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام سے خیانت کی ، اس طرح کہ وہ اپنے جبڑوں کے درمیان شیطان کو جنت لے گیا، اگرسانپ اسے ظاہرکرتاتوجنت کادربان اسے جنت ہی نہ جانے دیتا۔ شیطان نے کہاسانپ سے تومیرے ذمہ میں ہے ، رسول اللہﷺ نے سانپوں کو قتل کرنے کاحکم دیا، اورفرمایا:سانپ کو قتل کرواگرچہ تم نماز پڑھ رہے ہویعنی سانپ اوربچھوکو قتل کرو۔
(۲) الوزغۃ :یعنی چھپکلی ، اس نے حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام پر آگ کو پھونکے دیئے تھے ، جبکہ دوسرے حیوانوں نے ایسانہیں کیاتھا، اس پر بھی لعنت کی گئی ، یہ اس نوع سے جو آپ ﷺسے روایت کیاگیاہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے چھپکلی کوقتل کیاگویااس نے کافرکو قتل کیا۔ اورصحیح مسلم میں ہے کہ حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے چھپکلی کو پہلی ضرب میں مارااس کے لئے سونیکیاں ہیں اورجس نے دوسری ضرب میں مارااس کے لئے اس سے کم نیکیاں ہوں گی اورجس نے تیسری ضرب سے مارااس کے لئے اس سے بھی کم نیکیاں ہوں گی ۔ اورایک روایت میں یہ بھی ہے کہ پہلی ضرب پر مارنے والے کو سترنیکیاں ملیں گی۔
تنبیہ:یہ ذہن میں رہے کہ گرگٹ کابھی یہی حکم ہے ۔
(۳) چوہیا:اس نے اپناخبیث جوہرظاہرکیاکہ اس نے حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی کشتی کی رسیاں کاٹنے کاقصد کیااورانہیں کاٹ دیا۔ حضرت سیدناعبداللہ بن ابی نعیم رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدناابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: محرم سانپ ، بچھو، چیل ایسادرندہ جو حملہ کرنے والاہو، کاٹنے والاکتااورفوسیقہ چوہیاکو قتل کردو ۔ ایک دن رسول اللہ ﷺنیندسے بیدارہوئے توچوہیانے چراغ کی وٹ پکڑی ہوئی تھی تاکہ گھرکو آگ لگادے

رسول اللہ ﷺنے اس کو قتل کرنے کاحکم دیا۔

(۴)کوا: اس نے اپناجوہرخبیث اس وقت ظاہرکیاجب حضرت سیدنانوح علیہ السلا م نے اسے کشتی سے بھیجاکہ زمین کی خبرلے آئے تواس نے نوح علیہ السلام کاحکم ترک کردیااورمردارپرجابیٹھا، یہ سانپ کے حکم میں ہے ۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۱:۳۱۹)
مچھلی اورگدھ کی گفتگو
عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی الْمُغِیرَۃِ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ:لَمَّا أُہْبِطَ آدَمُ إِلَی الْأَرْضِ کَانَ فِیہَا نَسْرٌ فِی الْبَرِّ وَحُوتٌ فِی الْبَحْرِ، وَلَمْ یَکُنْ فِی الْأَرْضِ غَیْرُہُمَا، فَلَمَّا رَأَی النَّسْرُ آدَمَ وَکَانَ یَأْوِی إِلَی الْحُوتِ وَیَبِیتُ عِنْدَہُ کُلَّ لَیْلَۃٍ، قَالَ: یَا حُوتُ، لَقَدْ أُہْبِطَ الْیَوْمَ إِلَی الْأَرْضِ شَیْء ٌ یَمْشِی عَلَی رِجْلَیْہِ، وَیَبْطُشُ بِیَدَیْہِ. فَقَالَ لَہُ الْحُوتُ: لَئِنْ کُنْتَ صَادِقًا فَمَالِی فِی الْبَحْرِ مِنْہُ مَلْجَأٌ، وَلَا لَکَ فِی الْبَرِّ مِنْہُ مَہْرَبٌ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیدناآدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے توزمین پر گدھ اورسمندرمیں مچھلی تھی ، ان کے علاوہ زمین پر کچھ بھی نہیں تھا، جب گدھ نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو دیکھا تو وہ مچھلی کے پاس پناہ لیتی اورہر رات اس کے پاس گزارتی توگدھ نے مچھلی سے کہا:اے مچھلی ! زمین پر ایک ایسی چیز آج اتاری گئی ہے جو دوپیروں پرچلتی ہے اوراپنے ہاتھ سے پکڑتی ہے ، مچھلی نے گدھ سے کہااگرتوسچ کہہ رہی ہے توپھرنہ میرے لئے سمندرمیں نجات ہے اورنہ تیرے لئے خشکی میں نجات ہے ۔
(سیر أعلام النبلاء :شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۵:۱۹۴)
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء :أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ الأصبہانی (۴:۲۷۸)

حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کے اعلان پر جانوروں کی اطاعت گزاری

چون حضرت سیدناآدم علیہ السلام مقبول التوبہ شد ندحضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام آمدندونداکرندکہ اے جانوران زمین حق تعالی برشماخلیفہ فرستادہ است پس اطاعت وانقیاد او نمائید جانوران دراسرہائے خود رابرداشتندواطاعت اوانقیاد اظہارنمودندوجانوران صحراہمہ گرداگردحضرت سیدناآدم علیہ السلام آمدہ ایستادندحضرت سیدناآدم علیہ السلام ہر جانور راپیش خود میخواندندوبرسرپشت او دست می گرائیندندہر کہ از جانوران صحرامتصل حضرت سیدناآدم علیہ السلام آمد ودست ایشان باورسیداہل شد کہ معاش او آدمیان است مثل اسپ وشتروگائووگوسپندوسگ وگربہ وہرکہ خودراکشیدہ داشت ومتصل حضرت آدم علیہ السلام نیامدوبرکت دست ایشان نیافت وحشی ماندکہ از بنی آدم نفرت میکندمثل نیل گائووگورخروآہووغیرہ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ جب حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی توحضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام آئے اوراعلان کیاکہ اے زمین کے جانوروں! اللہ تعالی نے تم پر خلیفہ کو بھیجاہے ، اس کی اطاعت اورفرمانبرداری کرو، دریائی جانوروں نے اپنے سراوپرکئے اوراطاعت اورفرمانبرداری کااظہارکیااورجنگل کے سب جانور حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے اردگرد آکرجمع ہوگئے ، حضرت سیدناآدم علیہ السلام ہر ایک جانور کو اپنے پاس بلاتے اوراس کے سراورپشت پر ہاتھ مبارک پھیرتے تھے ، اورجنگل کے جانوروں میں سے جو حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے قریب آئے اورآپ علیہ السلام کاہاتھ مبارک ان کو لگاتو وہ اہلی جانور ہوگئے کہ ان کی گزربسرانسانوں کے درمیان ہے جیسے کہ گھوڑا، اونٹ ،گائے، بکری ، کتااوربلی ۔ اورجس جانور نے اپنے آپ کوآپ علیہ السلام سے دوررکھااورقریب نہیں آئے اورآپ علیہ السلام کے دست مبارک کی برکت نہیں پائی وہ وحشی رہے کہ بنی آدم سے دوربھاگتے ہیں جیسے نیل گائے ، جنگلی گدھااورہرن وغیرہ ۔
(تفسیر عزیز ی از سیدی شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ( ۱: ۲۴۶)
اس سے معلوم ہواکہ جس جس جانور نے اللہ تعالی کے پاک نبی حضرت سیدناآدم علیہ السلام کاقرب پایااوران کے مبارک ہاتھ سے برکت حاصل کی اللہ تعالی نے اسے انسانوں کے قریب کردیا۔

تاجدارختم نبوت ﷺکے نعرے

عَنْ عَطَاء ٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ سَلَّمَ:نَزَلَ آدَمُ بِالْہِنْدِ فَاسْتَوْحَشَ، فَنَزَلَ جِبْرِیلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ: اللہُ أَکْبَرُ، اللہُ أَکْبَرُ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ، فَقَالَ لَہُ: وَمَنْ مُحَمَّدٌ ہَذَا؟ فَقَالَ:ہَذَا آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِیَاء ِ ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب حضرت سیدناآدم علیہ السلام ہندکی زمین پر اترے توآپ کو گھبراہٹ ہوئی ،توحضرت سیدناجبریل امین علیہ السلا م نے زمین پر آکر اذان دی {اللہُ أَکْبَرُ، اللہُ أَکْبَرُ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ}پڑھاتو حضرت سیدناآدم علیہ السلام نے پوچھاکہ یہ محمد(ﷺ) کون ہیں؟ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے عرض کی : یہ آپ کی اولاد میں سے ہیں اورخاتم النبیین ہیں۔
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء : أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ الأصبہانی (۵:۱۰۷)
اس سے ثابت ہواکہ جیسے ہی حضرت سیدنا آدم علیہ السلام دنیامیں تشریف لائے اورآپ ﷺکی خلافت کااعلان ہواتو ساتھ ہی رسول اللہﷺکی ختم نبوت کابھی اعلان کردیاگیا۔

ابابیل کاحضرت سیدناآدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہونا

فی حقائق العقائق أن آدم علیہ السلام لما ہبط ہرب عنہ الطیر والوحش فجاء الخطاف فجلس عندہ فعاتبہ اللہ تعالی فقال یا رب رأیتہ وحدہ والوحدانیۃ لک فجئت عندہ لأجل ذلک فقیل أیہا الطائر قد رفعت عنک السکین فلا تصاد ولا تذبح نطرح لک الألفۃ فی قلوب أولاد آدم یساکنونک فی بیوتہم لیل أنہ کان أبیض اللون فأسود لونہ لما لمسہ آدم إلا صدرہ وقیل أن آدم شکا إلی ربہ الوحشۃ فآنسہ بالخطاف۔
ترجمہ :حقائق العقائق میں ہے کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام جب زمین پر تشریف لائے تو سارے پرندے اوروحشی جانور بھاگ گئے ،پھرایک ابابیل حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوئی اورآپ کے پاس بیٹھ گئی ، اللہ تعالی نے اس پر عتاب فرمایاتو اس نے اللہ تعالی کی بارگاہ میںعرض کی : یااللہ !میں نے دیکھاکہ یہ تنہاء بیٹھے ہیں اوروحدانیت تیرے لئے ہے ،لھذامیں تو تیری وجہ سے ان کے پاس بیٹھی ہوں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا: اے پرندے ! میں نے تجھ پر سے چھری اٹھادی ہے ، پس نہ تجھے شکارکیاجائے گااورنہ ہی تجھے ذبح کیاجائے گااورمیں نے تیری الفت ابن آدم کے دلوں میں ڈال دی ہے ، وہ تجھے اپنے گھروں میں رکھیں گے ، اس کارنگ سارے کاساراسفید تھا، حضرت سیدناآدم علیہ السلام نے اس کے جسم پر ہاتھ مبارک پھیراتو سوائے سینے کے ساری سیاہ ہوگئی ۔ اوریہ بھی بیان کیاگیاہے کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی یاللہ ! مجھے تنہائی میں وحشت محسوس ہورہی ہے تو اللہ تعالی نے ابابیل کو بھیجا۔
(نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس:عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوری (ا:۱۳)
اس روایت سے اندازہ لگائیں کہ اگرایک ابابیل اللہ تعالی کے پاک نبی حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی اتنی سی خدمت کرے تواللہ تعالی اس کو اتنابڑاانعام عطافرماتاہے تو پھراللہ تعالی ان کو کتناانعام عطافرمائے گاجو لو گ رات دن رسول اللہ ﷺکی عزت وناموس پر پہرہ دیتے ہیں۔

ہرنی کاحضرت سیدناآدم علیہ السلام کی زیارت کے لئے آنا

إنہ لما أہبط آدم علیہ السلام إلی الأرض، جاء تہ وحوش الفلاۃ تسلم علیہ وتزورہ، فکان یدعو لکل جنس بما یلیق بہ فجاء تہ طائفۃ من الظباء ، فدعا لہن ومسح علی ظہورہن، فظہر فیہن نوافج المسک، فلما رأی بواقیہا ذلک، قلن:من أین ہذا لکن؟فقلن:زرنا صفی اللہ آدم فدعا لنا ومسح علی ظہورنا، فمضی البواقی إلیہ فدعا لہن، ومسح علی ظہورہن، فلم یظہر بہن من ذلک شیء . فقلن: قد فعلنا کما فعلتن فلم نر شیئا مما حصل لکن، فقیل:أنتن کان عملکن لتنلن کما نال إخوانکن. وأولئک کان عملہن للہ من غیر شیء فظہر ذلک فی نسلہن وعقبہن إلی یوم القیامۃ۔
ترجمہ :امام محمدبن موسی بن عیسی کمال الدین الدمیری المتوفی :۸۰۸ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ جب حضرت سیدناآدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے توخشکی کے سارے جانور آپ علیہ السلام کی زیارت کرنے کی غرض سے حاضرہوئے ، آپ علیہ السلام ان کے لئے جو ان کے مناسب تھادعاکرتے اوران کے جسم پر اپنادست مبارک پھیرتے تھے ، اسی طرح ہرنیوں کاایک گروہ بھی آپ علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے حاضرہوا، آپ نے ان کے جسم پر ہاتھ مبارک پھیراتو ان کے جسم میں اللہ تعالی نے کستوری پیدافرمادی ، جب یہ وہاں سے گئیں تو ان کو دوسرے جانور ملے انہوںنے ان کے جسم میں کستوری پیداہونے کاسبب دریافت کیاتوانہوںنے ان کو سب ماجرابیان کردیا، وہ جانور بھی حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے ، آپ علیہ السلام نے ان کے جسم پر بھی مبارک ہاتھ پھیرااوران کے لئے دعاکی ، جب یہ واپس گئے توان کے جسم سے کوئی خوشبونہیں آرہی تھی توانہوںنے کہاکہ کیاوجہ ہے کہ تمھارے جسموں سے خشبورآرہی ہے ہمارے جسموں سے کیوں نہیں آرہی ؟ توان کو ہرنیوں نے کہا: وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کے پاک نبی حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے گئی تھیں اس لئے اللہ تعالی نے ہمارے جسموں میں خوشبو پیدافرمادی اورتمھاری نیت ہی صرف خشبوکی تھی اس لئے تم تہی دامن رہی ہو۔اس طرح اللہ تعالی نے قیامت تک کے لئے ان کے جسموںمیں کستور ی پیدافرمادی ۔
(حیاۃ الحیوان الکبری:محمد بن موسی بن عیسی بن علی الدمیری، أبو البقاء ، کمال الدین الشافعی (۲:۳۴۷)
چارجانوروں پر عطائیں
قال النسفی لما ہبط آدم نزل معہ أربع ورقات من التین فقصدہ الحیوانات لیہنوہ بالتوبۃ فسبق أربع وہی الغزالۃ فأطعمہا ورقۃ فصار منہا المسک والنحلۃ فأطعمہا ورقۃ فصار منہا العسل والدودۃ فأطعمہا ورقۃ فصار منہا الحریر وبقرۃ البحر فأطعمہا ورقۃ فصار منہا العنبر۔
ترجمہ :حضرت امام نسفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیدناآدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے تو آپ جنت سے زیتون کے چارپتے بھی لائے تھے ، جب اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کی توبہ کو شرف قبولیت عطافرمائی تو کچھ جانور آپ علیہ السلام کو توبہ کے قبول ہونے کی مبارک باد دینے کے لئے آئے ، ان میں سب سے پہلے ہرنی حاضرہوئی ، آپ علیہ السلام نے اس کو ایک پتہ عطافرمایا، اس سے اللہ تعالی نے کستوری پیدافرمادی ، شہد کی مکھی بھی مبارک باد دینے کے لئے حاضرہوئی تو اللہ تعالی نے اس سے شہد پیدافرمادیا، ایک کیڑاآپ کو مبارک باددینے کے لئے حاضرہواتواللہ تعالی نے اس سے ریشم پیدافرمادیا، اورسمندری گائے مبارک باد دینے کے لئے حاضرہوئی تو اللہ تعالی نے اس سے عنبرکو پیدافرمادیا۔
(نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس:عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوری (ا:۵)

Leave a Reply