حضرت سیدناآدم علیہ السلام کاجنت سے تشریف لانابطور سزانہیں تھا از تفسیر ناموس رسالت

حضرت سیدناآدم علیہ السلام کاجنت سے تشریف لانابطور سزانہیں تھا
جنت سے آنابطورسزانہیں ہے ۔۔۔۔

لَمْ یَکُنْ إِخْرَاجُ اللَّہِ تَعَالَی آدَمَ مِنَ الْجَنَّۃِ وَإِہْبَاطُہُ مِنْہَا عُقُوبَۃً لَہُ لِأَنَّہُ أَہْبَطَہُ بَعْدَ أَنْ تَابَ عَلَیْہِ وَقَبِلَ تَوْبَتَہُ وَإِنَّمَا أَہْبَطَہُ إِمَّا تَأْدِیبًا وَإِمَّا تَغْلِیظًا لِلْمِحْنَۃِ وَالصَّحِیحُ فِی إِہْبَاطِہِ وَسُکْنَاہُ فِی الْأَرْضِ مَا قَدْ ظَہَرَ مِنَ الْحِکْمَۃِ الْأَزَلِیَّۃِ فِی ذَلِکَ وَہِیَ نَشْرُ نَسْلِہِ فِیہَا لِیُکَلِّفَہُمْ وَیَمْتَحِنَہُمْ وَیُرَتِّبَ عَلَی ذَلِکَ ثَوَابَہُمْ وَعِقَابَہُمُ الْأُخْرَوِی
َّ إِذِ الْجَنَّۃُ وَالنَّارُ لَیْسَتَا بِدَارِ تَکْلِیفٍ فَکَانَتْ تِلْکَ الْأَکْلَۃُ سَبَبَ إِہْبَاطِہِ مِنَ الْجَنَّۃِ.وَلِلَّہِ أَنْ یَفْعَلَ مَا یَشَاء وَقَدْ قَالَ:إِنِّی جاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً وَہَذِہِ مَنْقَبَۃٌ عَظِیمَۃٌ وَفَضِیلَۃٌ کَرِیمَۃٌ شَرِیفَۃٌ وَقَدْ تَقَدَّمَتِ الْإِشَارَۃُ إِلَیْہَا مَعَ أَنَّہُ خُلِقَ مِنَ الْأَرْضِ وَإِنَّمَا قُلْنَا إِنَّمَا أَہْبَطَہُ بَعْدَ أَنْ تَابَ عَلَیْہِ لِقَوْلِہِ ثَانِیَۃً: قُلْنَا اہْبِطُوا۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام القرطبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیںکہ اللہ تعالی کاحضرت سیدناآدم علیہ السلام کو جنت سے نکالنابطور سزانہیں تھاکیونکہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی پہلے توبہ قبول فرمائی اس کے بعد زمین پر اتارا۔ یاتوتادیب کی خاطریامحنت میں سختی کی خاطراتارااورصحیح یہی ہے کہ ان کو اتارنااورزمین پر ٹھہراناحکمت ازلیہ کے سبب تھااوروہ حکمت یہ تھی کہ زمین میں ان کی نسل پھیلائی جائے تاکہ اللہ تعالی انہیں اپنامکلف بنائے اورانہیں آزمائے ۔ پھروہ کھاناجنت سے اتارنے کاسبب بنااوراللہ تعالی کو زیبا ہے کہ جو چاہے کرے ۔ اللہ تعالی نے خود فرمایا: بے شک میں زمین پر خلیفہ بنانے والاہوں۔ یہ منقبت عظیمہ اورفضیلت کریمہ شریفہ ہے اس کی طرف اشارہ کیاگیاہے ، اس کے ساتھ ساتھ حضرت سیدناآدم علیہ السلام مٹی سے پیداکئے گئے تھے ، ہم نے کہا: حضرت سیدناآدم علیہ ا لسلام کی توبہ قبول کرنے کے بعد زمین پر اتاراکیونکہ دوسری مرتبہ فرمایا: {قُلْنَا اہْبِطُوا}
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۱:۳۲۱)

مولاناابن الکمال رحمہ اللہ تعالی کاقول

قال المولی الشہیر بابن الکمال فی رسالۃ القضاء والقدر عتاب آدم علیہ السلام فی قولہ تعالی أَلَمْ أَنْہَکُما عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃِ وَأَقُلْ لَکُما إِنَّ الشَّیْطانَ لَکُما عَدُوٌّ مُبِینٌ عتاب تلطیف لا عتاب تعنیف وتعذیب وتنزیلہ من السماء الی الأرض بقولہ اہبطوا مِنْہا جَمِیعاً تکمیل وتبعید تقریب کما فی قول الشاعر سأطلب بعد الدار عنکم لتقربوا ۔
ترجمہ :مولاناابن الکمال رحمہ اللہ تعالی اپنے رسالہ قضاوقدرمیں لکھتے ہیں کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو { أَلَمْ أَنْہَکُما عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃِ وَأَقُلْ لَکُما إِنَّ الشَّیْطانَ لَکُما عَدُوٌّ مُبِین}یہ عتاب دوستانہ ہے نہ کہ رنج وغصہ کااورجنت سے زمین پر اترنا{ اہبطوا مِنْہا جَمِیعاً }کے قبیل سے ہے ، یہی تکمیل ہے کیونکہ بسااوقات بُعد بھی قرب ہوتاہے جیساکہ کسی شاعرنے کہاہے:ہم تجھ سے دوری اس لئے اختیارکررہے ہیں تاکہ تم ہمارے قریب ہوجائو۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۱۰۸)
امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
وَہُوَ أَنَّ آدَمَ وَحَوَّاء َ لَمَّا أَتَیَا بِالزَّلَّۃِ أُمِرَا بِالْہُبُوطِ فَتَابَا بَعْدَ الْأَمْرِ بِالْہُبُوطِ وَوَقَعَ فِی قَلْبِہِمَا أَنَّ الْأَمْرَ بِالْہُبُوطِ لَمَّا کَانَ بِسَبَبِ الزَّلَّۃِ فَبَعْدَ التَّوْبَۃِ وَجَبَ أَنْ لَا یَبْقَی الْأَمْرُ بِالْہُبُوطِ فَأَعَادَ اللَّہُ تَعَالَی الْأَمْرَ بِالْہُبُوطِ مَرَّۃً ثَانِیَۃً لِیَعْلَمَا أَنَّ الْأَمْرَ بِالْہُبُوطِ مَا کَانَ جَزَاء ً عَلَی ارْتِکَابِ الزَّلَّۃِ حَتَّی یَزُولَ بِزَوَالِہَا بَلِ الْأَمْرُ بِالْہُبُوطِ بَاقٍ بَعْدِ التَّوْبَۃِ لِأَنَّ الْأَمْرَ بِہِ کَانَ تَحْقِیقًا لِلْوَعْدِ الْمُتَقَدَّمِ فِی قَوْلِہِ: إِنِّی جاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً (الْبَقَرَۃِ: ۳۰)
ترجمہ :حضرت سیدناامام الرازی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام اورحضرت سیدتناحواء رضی اللہ عنہاسے لغزش ہوگئی اوردونوں کواترنے کاحکم ملاتودونوں نے اس حکم کے بعد توبہ کی اوردل میں خیال آیاکہ لغزش کی وجہ سے اترنے کاحکم تھااب توبہ کے بعد لازمی ہے کہ یہ حکم ہبوط باقی نہ رہے تواللہ تعالی نے دوبارہ ہبوط کاحکم دیاتاکہ اس بات کاعلم ہوجائے کہ ہبوط لغزش پر بطورسزانہیں کہ وہ اس کے زوال سے زائل ہوجائے بلکہ وہ توتوبہ کے بعد بھی باقی رہے گا کیونکہ اس میں پہلے وعدہ کاپوراکیاجاناہے ۔
جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا: {إِنِّی جاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً (الْبَقَرَۃِ: ۳۰}میں زمین پر اپناخلیفہ بنانے والاہوں ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۳:۴۷۱)

مشائخ سمرقند رحمہم اللہ تعالی کاقول

وقال مشایخ سمرقند لا یطلق اسم الزلۃ علی أفعالہم کما لا تطلق المعصیۃ وإنما یقال فعلوا الفاضل وترکوا الأفضل فعوتبوا۔
ترجمہ :مشائخ سمرقندرحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کے افعال پر زلہ کااطلاق نہیں کرسکتے جیساکہ معصیت کااطلاق ان پر نہیں ہوسکتا، پس ا س طرح کہاجائے گاکہ ان کو افضل عمل کرنے کاحکم تھامگرانہوںنے فاضل کو سرانجام دیااس لئے ان پرعتاب ہوا۔
(مدارک التنزیل وحقائق التأوی:أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی (ا:۲۷)
اس سے ثابت ہواکہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کااس درخت سے کھاناکوئی گناہ نہیں ہے بلکہ ر حمت الٰہیہ کے پیش نظرایساہوا۔
محمدعلی الصابونی لکھتے ہیں
قال بعض العارفین: سابق العنایۃ لا یؤثر فیہ حدوث الجنایۃ، ولا یحط عن رتبۃ الولایۃ، فمخالفۃ آدم التی أوجبت لہ الإِخراج من دار الکرامۃ لم تخرجہ عن حظیرۃ القدس، ولم تسلبہ رتبۃ الخلافۃ، بل أجزل اللہ لہ فی العطیۃ فقال(ثُمَّ اجتباہ رَبُّہُ) (طہ: ۱۲۲) وقال الشاعر:
وإِذا الحبیبُ أتی بذنبٍ واحدٍ … جاء ت محاسنۃ بألف شفیع
ترجمہ :بعض عارفین نے کہاہے کہ گزشتہ لطف وکرم اورالطافات وعنایت پرکسی غلطی کے ارتکاب کااثرنہیں پڑتااورنہ ہی وہ خطاآدمی کو ولایت ( دوستی ) کے رتبہ سے گرادیتی ہے ۔ چنانچہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام اس حکم خداوندی پر عمل نہ ہونے کے سبب دارالکرامت یعنی جنت سے زمین پر تشریف لائے ۔ اللہ تعالی نے ان کو حظیرۃ القدس یعنی جنت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نہیں نکالااورنہ ہی ان سے خلافت کے رتبہ کو سلب کیابلکہ اللہ تعالی نے ان کو اس کے بعد خوب خوب نعمتیں عطافرمائیں اورفرمایا: پھران کے رب تعالی نے انہیں نوازا۔
اورایک شاعرنے کیاخوب کہاہے کہ :
وإِذا الحبیبُ أتی بذنبٍ واحدٍ … جاء ت محاسنۃ بألف شفیع
ترجمہ :اورجب محبوب کوئی غلطی کربیٹھتاہے تو اس کی خوبیاں ہزاروں سفارشی لے آتی ہیں ۔
(صفوۃ التفاسیر:محمد علی الصابونی(۱:۴۵)

عقیدہ عصمت اورائمہ اہل سنت وجماعت

حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت مخلوق میں سب سے افضل وبرتر ہے، انبیاء کرام علیہم السلام اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں، بیشمار فضائل وخصوصیات سے سرفراز ہوتے ہیں، انبیاء کرام علیہم السلام معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں، عصمت انبیاء کا مطلب ہے گناہوں سے معصوم ہونا، تمام انبیاء کرام علیہم السلام تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں، عصمت انبیاء کے لیے لازم ہے ان سے گناہوں کا صدور نہیں ہوتا یہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کی فضیلت ہے، اللہ نے ان کو اس شرف سے نوازاہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ المتوفی : ۱۵۰ھ) رحمۃ اللہ تعالی علیہ کاقول
والأنبیاء عَلَیْہِم الصَّلَاۃ وَالسَّلَام کلہم منزہون عَن الصَّغَائِر والکبائر وَالْکفْر والقبائح وَقد کَانَت مِنْہُم زلات وخطایا۔
ترجمہ :تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام صغائر اور کبائر اور کفر و قبائح سے بالکل منزہ اور پاک ہیں۔ ہاں البتہ لغزش اور بھول چوک ان سے ہوجاناممکن ہے۔
(الفقہ الأکبرلأبی حنیفۃ النعمان بن ثابت بن زوطی بن ماہ:۳۷)
الشیخ عمر بن سلیمان الاشقرلکھتے ہیں
اتفقت الأمۃ علی أنَّ الرسل معصومون۔
ترجمہ:تمام امت کااتفاق ہے اس بات پر کہ اللہ تعالی کے تمام انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہیں۔
(الرسل والرسالات: عمر بن سلیمان بن عبد اللہ الأشقر العتیبی:۸۸)
امام ابواسحاق الثعلبی المتوفی: ۴۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
فإن أنبیاء اللہ لا یظلمون ولا یأمرون بالظلم ولا یرضون بالظلم، لأنہم معصومون مطہّرون۔
ترجمہ :بے شک اللہ تعالی کے تمام انبیاء کرام علیہم السلام قطعاً کسی پر ظلم نہیں کرتے اورنہ ہی ظلم کاحکم دیتے ہیں اورنہ ہی ظلم پر راضی ہوتے ہیں ، اس لئے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں اورگناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔
(الکشف والبیان :أحمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبی، أبو إسحاق(۸:۲۰۰)
امام ابوالحسن الماوردی المتوفی : ۴۵۰ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
لأن الأنبیاء معصومون من الغلط والخطأ لئلا یقع الشک فی أمورہم وأحکامہم۔
ترجمہ :اس لئے کہ اللہ تعالی کے تمام انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہیں ہر طرح کی غلطی اورخطاء سے تاکہ ان کے بیان کئے امور اوراحکامات میں شک واقع نہ ہو۔
(تفسیر الماوردی :أبو الحسن علی بن محمد بن محمد بن حبیب الشہیر بالماوردی ((۳:۴۵۷)د
امام ابن عطیہ الاندلسی المتوفی : ۵۴۲ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
والأنبیاء معصومون من الکبائر ومن الصغائر التی فیہا رذیلۃ إجماعا۔
ترجمہ :اورتمام انبیاء کرام علیہم السلام صغیرہ وکبیرہ گناہوں سے بالاجماع معصوم ہیں۔
(المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز: أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عطیۃ الأندلسی المحاربی (۱:۳۵۳)
امام محمدبن عمر الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
الْآیَۃُ دَالَّۃٌ عَلَی أَنَّ الْأَنْبِیَاء َ عَلَیْہِمُ السَّلَامُ مَعْصُومُونَ عَنِ الْمَعَاصِی وَالذُّنُوبِ لِأَنَّہَا دَلَّتْ عَلَی وُجُوبِ طَاعَتِہِمْ مُطْلَقًا، فَلَوْ أَتَوْا بِمَعْصِیَۃٍ لَوَجَبَ عَلَیْنَا الِاقْتِدَاء ُ بِہِمْ فِی تِلْکَ الْمَعْصِیَۃِ فَتَصِیرُ تِلْکَ الْمَعْصِیَۃُ وَاجِبَۃً عَلَیْنَاوَکَوْنُہَا مَعْصِیَۃً یُوجِبُ کَوْنَہَا مُحَرَّمَۃً عَلَیْنَا، فَیَلْزَمُ تَوَارُدُ الْإِیجَابِ وَالتَّحْرِیمِ عَلَی الشَّیْء ِ الْوَاحِدِ وَإِنَّہُ مُحَالٌ.
ترجمہ :امام الرازی رحمہ اللہ تعالی (ایک آیت کریمہ پر کلام کرنے کے بعد ) فرماتے ہیںکہ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام صغیرہ وکبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں کیونکہ یہ آیت مطلقاً ان کی اطاعت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ پس اگروہ بھی معصیت کے مرتکب ہونگے توہم پر واجب ہوگاکہ ان اعمال میں بھی ان کی اطاعت کی جائے پھراس طرح معصیت میں بھی ان کی اطاعت کرنالازم آئے گا۔اوراس کامعصیت ہونااس کے حرام ہونے کاتقاضہ کرے گا، پھراس طرح لازم آئے گاکہ ایک چیز حرام بھی ہواورواجب بھی اورایساہونامحال ہے۔لھذااس سے معلوم ہواکہ اللہ تعالی کے تمام انبیاء کرام علیہم السلام ہر طرح کی معصیت سے معصوم ہیں۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۰:۱۲۶)

امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
مَعْصُومُونَ مِنَ الْکَبَائِرِ وَمِنْ کُلِّ رَذِیلَۃٍ فِیہَا شَیْنٌ وَنَقْصٌ إِجْمَاعًا۔
ترجمہ :انبیاء کرام علیہم السلام بالاجماع ہر طرح کے کبیرہ اورہر اس رزیل کام سے پاک ہیں جس میں نقص اورعیب ہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۱:۳۰۸)
امام علاء الدین الخازن المتوفی : ۷۴۱ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
لأن الأنبیاء معصومون فی کل حال من الأحوال ۔
ترجمہ :اس لئے کہ انبیاء کرام علیہم السلام ہر حال میں معصوم ہیں۔( قبل از اعلان نبوت یابعد از اعلان نبوت اورہر طرح کے گناہ سے معصوم ہیں صغیرہ ہویاکبیرہ )۔
(لباب التأویل فی معانی التنزیل:علاء الدین علی بن محمد أبو الحسن، المعروف بالخازن (۲:۱۲۸)
امام ابوحیان الاندلسی المتوفی : ۷۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
وَعُلِمَ أَنَّ الْأَنْبِیَاء َ، عَلَیْہِمُ السَّلَامُ، مَعْصُومُونَ مِنَ الْکَبَائِرِ وَالصَّغَائِرِ الَّتِی فِیہَا رَذِیلَۃٌ إِجْمَاعًا۔
ترجمہ :اوریہ بات یقینی طور پر معلوم ہے کہ اللہ تعالی کے تمام انبیاء کرام علیہم السلام صغیرہ وکبیرہ گناہوں سے بالاجماع معصوم ہیں۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی (۲:۶۴۲)
امام ابوالعباس شہاب الدین الحلبی المتوفی : ۷۵۶ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
لأنَّ المرسلین مَعْصُومون من المعاصی وہذا ہو الظاہرُ الصحیحُ۔
ترجمہ :اس لئے کہ تمام رسل کرام (علیہم السلام)ہر طرح کی معاصی سے معصوم ہیں اوریہی ظاہرہے اوریہی صحیح ہے ۔
(الدر المصون فی علوم الکتاب المکنون:أبو العباس، شہاب الدین المعروف بالسمین الحلبی (۸:۵۷۷)
حافظ ابن کثیر المتوفی : ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
قُلْتُ:أَمَّا الْأَنْبِیَاء ُ، عَلَیْہِمُ السَّلَامُ، فَکُلُّہُمْ مَعْصُومُونَ مُؤیَّدون مِنَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَہَذَا مِمَّا لَا خِلَاف فِیہِ بَیْنَ الْعُلَمَاء ِ الْمُحَقِّقِینَ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ۔
ترجمہ :میں نے کہاکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہیں اوراللہ تعالی کی طرف سے موید ہیں اوراس میں تمام محققین علماء سلف ہوں یاخلف کسی کاکوئی اختلاف نہیں ہے ۔
(تفسیر القرآن العظیم: أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۵:۳۵۶)
امام ابوحفص الحنبلی المتوفی : ۷۷۵ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
أن الأنْبِیَاء (علیہم الصلاۃ والسلام)مَعْصُومُون عن الذنُوبِ۔
ترجمہ :بے شک تمام انبیاء کرام علیہم السلام ہر طرح کے گناہوں سے معصوم ہیں۔
(اللباب فی علوم الکتاب:أبو حفص سراج الدین عمر بن علی بن عادل الحنبلی الدمشقی النعمانی (۶:۴۶۵)
امام ابوالعباس التونسی المتوفی : ۸۳۰ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
اعْلمْ أن الأنبیاء علیْہِمُ السلامُ مَنَزَّہونَ عنِ الفواحِش، معْصومونَ منَ الکبَائِرِ.
ترجمہ :تویہ بات جان لے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام ہر طرح کے فواحش سے پاک ہیں اورتمام گناہوں سے معصوم ہیں۔
(نکت وتنبیہات فی تفسیر القرآن المجید: أبو العباس البسیلی التونسی (۲:۲۴۴)

حضرت ملاعلی قاری حنفی المتوفی : ۱۰۱۴ھ) رحمۃ اللہ تعالی کاقول

اِجْمَاعُ الصَّحَابَۃِرضی اللہ عنہم عَلَی التَّاِسِّیْ بِہٖ صلی اللہ علیہ و سلم فِیْ اَقْوَالِہٖ وَاَفْعَالِہٖ وَسَائِرِ اَحْوَالِہٖ حَتّٰی فِیْ کُلِّ حَالَا تِہٖ مِنْ غَیْرِبَحْثٍ وَلَا تَفَکُّرٍبَلْ بِمُجَرَّدِ عِلْمِھِمْ اَوْظَنِّھِمْ بِصُدُوْرِذٰلِکَ عَنْہُ دَلِیْلٌ قَاطِعٌ عَلٰی اِجْمَاعِھِمْ عِلٰی عِصْمَتِہٖ وَتَنَزُّھِہٖ عَنْ اَنْ یَّجْرِیَ عَلٰی ظَاہِرِہٖ اَوْبَاطِنِہٖ شَیْ ء ٌلَایُتَاَ سّٰی بِہٖ فِیْہٖ مِمَّالَمْ یَقُمْ دَلِیْلٌ عَلَی اخْتِصَاصِہٖ.
ترجمہ:تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاآپ ﷺ کے اقوال،افعال اورتمام احوال میں بغیرکسی بحث وتفکر کے محض یہ جانتے ہوئے کہ یہ عمل آپﷺنے کیاہے آپﷺ کی اتباع پرمتفق ہوجاناواضح دلیل ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا آپﷺ کی عصمت پر اجماع ہے اوراس پربھی کہ آپ ﷺسے ظاہراًوباطناًایسی کوئی چیز صادرنہیں ہوسکتی جس کی اتباع نہ کی جا سکتی ہوجب تک آپﷺ کی خصوصیت پر دلیل قائم نہ ہوجائے۔
(مرقاۃ شرح المشکوۃ لملاعلی قاری (۱:۲۲۰)

تمام فقہاء کرام کاقول

قال القاضی عیاض ذھب طائفۃ من محقق الفقہاء والمتکلمین الی العصمۃ عن الصغائر کالعصمۃ فی الکبائر.
ترجمہ:علامہ عبد العزیز پرہاروی رحمہ اللہ قاضی عیاض مالکی اور محقق فقہاء و متکلمین سے نقل کرتے ہیں: حضرت قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ تعالی اور محقق فقہاء و متکلمین کا موقف یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام جس طرح کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں اسی طرح صغیرہ گناہوں سے بھی معصوم ہیں۔
(النبراس شرح شرح العقائد:لشیخ عبدالعزیزپرہاروی:۲۲۸۲)
انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف معصیت کی نسبت کرناحرام ہے
لا ینبغی لأحد أن ینسب إلیہ العصیان الیوم، وأن یخبر بذلک، إلا أن یکون تألیاً لما تضمن ذلک، أو راویاً لہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واما أن یکون مبتدئاً من قبل نفسہ فلا.
ترجمہ :ابوالبرکات خیرالدین الآلوسی المتوفی : ۱۳۱۷ھ) لکھتے ہیں کہ کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ آج معصیت کی نسبت اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف کرے ، مگریہ کہ ایساقصہ قرآن کریم میں دوران تلاوت پڑھے یاپھرحدیث شریف میں ہوتو وہاں پڑھے اس کے علاوہ اگروہ خود اس کو بیان کرتاہے تو یہ جائز نہیں ہے ۔
(جلاء العینین فی محاکمۃ الأحمدین:نعمان بن محمود بن عبد اللہ، أبو البرکات خیر الدین، الآلوسی (۴۹۲)
حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی طرف معصیت کی نسبت کرناحرام ہے
قَالَ الْقَاضِی أَبُو بَکْرِ بْنُ الْعَرَبِیِّ: لَا یَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنَّا الْیَوْمَ أَنْ یُخْبِرَ بِذَلِکَ عَنْ آدَمَ إِلَّا إِذَا ذَکَرْنَاہُ فِی أَثْنَاء ِ قَوْلِہِ تَعَالَی عَنْہُ، أَوْ قَوْلِ نَبِیِّہِ، فَأَمَّا أَنْ یَبْتَدِئَ ذَلِکَ مِنْ قِبَلِ نَفْسِہِ فَلَیْسَ بِجَائِزٍ لَنَا فِی آبَائِنَا الْأَدْنِینَ إِلَیْنَا، الْمُمَاثِلِینَ لَنَا، فَکَیْفَ فِی أَبِینَا الْأَقْدَمِ الْأَعْظَمِ الْأَکْرَمِ النَّبِیِّ الْمُقَدَّمِ، الَّذِی عَذَرَہُ اللَّہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی وَتَابَ عَلَیْہِ وَغَفَرَ لَہُ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابوبکرابن العربی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ آج ہم میں سے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے بارے میں کوئی ایسی بات کریں مگریہ کہ جب ان کاذکرکریں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے یا رسول اللہ ﷺکی حدیث شریف بیان کرتے ہوئے ۔ اپنی طرف سے ان کی شان میں کچھ کہناقطعاً جائز نہیں ہے ، ہمارے جو قریبی آباء گزرے ہیں جو ہماری ہی مثل تھے ان کے بارے میں ہتک آمیز یاتوہین آمیز کچھ کہنادرست نہیں ہے تو اپنے عظیم المرتبت نبی مکرم ومقدم باپ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے متعلق اس طرح کی باتیں کرناکیسے جائز ہوجائے گاجن کاعذ راللہ تعالی نے خود بیان کیااوران کی توبہ کو بھی قبول فرمایااوران کی بخشش تام فرمادی۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۱۱:۲۵۵)

معصیت ترک اولی کے معنی میں ہوگا

وتفسیر العصیان بأنہ راجع إلی ترک الأولی، وہو لیس بذنب فی الحقیقۃ نعم یسمی معصیۃ وذنباً وسیئۃ إذا صدر من أصحاب المراتب العالیۃ فی القرب من اللہ عز وجل کالنبیین، ولہذا ورد: حسنات الأبرار سیئات المقربین۔
ترجمہ :الشیخ الدکتورعلی بن احمدعلی السالوس لکھتے ہیں کہ اورجب معصیت کالفظ اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف منسوب ہوتو اس کامعنی ترک اولی ہوگااوریہ ترک اولی حقیقت میں کوئی گناہ نہیں ہے ، جی ہاں اسے معصیت ، ذنب اورسیئہ کانام تب دیاجاتاہے جب صادرہواللہ تعالی کے ان برگزیدہ اوراس کے قرب میں رہنے والے اصحاب مراتب لوگوں سے جیسے انبیاء کرام علیہم السلام سے ۔ اسی وجہ سے کہتے ہیں نیکوں کی نیکیاں مقربین بارگاہ الہ کے سیئات شمارہوتے ہیں۔
(مع الاثنی عشریۃ فی الأصول والفروع :د علی بن أحمد علی السالوس:۲۹۸)

بزرگوں کی بھول بھی باعث رحمت ہے
انبیاء کرام علیہم السلام کی بھول باعث عطاہوتی ہے

حضرت سیدنامفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اورسچ تویہ ہے کہ سارے عالم کاظہور حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی برکت سے ہے ، ان حضرات کی خطائیں ہماری عبادتوں سے افضل ہیں ۔ کیونکہ ان کی خطاسے رب تعالی کی عطاہوتی ہے ، حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی خطاسے قیامت تک کے مسلمانوں کو رمضان المبارک کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع کرنے کی اجازت ملی ، حضرت سیدناابوامیہ ضمری رضی اللہ عنہ کے منہ سے مجبوراًکلمہ کفرنکل جانے کی برکت سے ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کوایسی مجبوری میں اس کی اجازت ملی ۔
(تفسیر نعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی ( ۱: ۳۰۰)

حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کابھولنا

{اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ عَلِمَ اللہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ فَالْـٰنَ بٰشِرُوْہُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللہُ لَکُمْ }
ترجمہ کنزالایمان :روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لئے حلال ہوا وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا تو اب ان سے صحبت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھا ہو۔(سورۃ البقرہ : ۱۸۷)
صدرالافاضل سیدنعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ شرائع سابقہ میں افطار کے بعد کھانا پینا مجامعت کرنا نمازِ عشاء تک حلال تھا۔ بعد نماز عشا ء یہ سب چیزیں شب میں بھی حرام ہوجاتی تھیں یہ حکم زمانہ اقدس تک باقی تھا بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رمضان کی راتوں میں بعدِعشاء مباشرت وقوع میں آئی ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے اس پروہ حضرات نادم ہوئے اور بارگاہ رسالت ﷺ میں عرض حال کیا اللہ تعالیٰ نے معاف فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی اور بیان کردیا گیا کہ آئندہ کے لئے رمضان کی راتوں میں مغرب سے صبح صادق تک مجامعت کرنا حلال کیا گیاہے۔
(خزائن العرفان از سید نعیم الدین مراد آبادی : ۶۲)
یہ حدیث شریف ملاحظہ ہو
حَدَّثَنِی مُوسَی بْنُ جُبَیْرٍ، مَوْلَی بَنِی سَلِمَۃَ، أَنَّہُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: کَانَ النَّاسُ فِی رَمَضَانَ إِذَا صَامَ الرَّجُلُ، فَأَمْسَی فَنَامَ حَرُمَ عَلَیْہِ الطَّعَامُ، وَالشَّرَابُ، وَالنِّسَاء ُ حَتَّی یُفْطِرَ مِنَ الْغَدِ، فَرَجَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنْ عِنْدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، وَقَدْ سَہِرَ عِنْدَہُ فَوَجَدَ امْرَأَتَہُ قَدْ نَامَتْ، فَأَرَادَہَا فَقَالَتْ: إِنِّی قَدْ نِمْتُ، قَالَ: مَا نِمْتِ ثُمَّ وَقَعَ بِہَا، وَصَنَعَ کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ مِثْلَ ذَلِکَ، فَغَدَا عُمَرُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَہُ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی:(عَلِمَ اللَّہُ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ) (البقرہ۱۸۷)
ترجمہ :حضرت سیدناکعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ رمضان المبارک میں جب روزہ رکھ لیتے اورپھرافطاری کے وقت سوجاتے توان پر کھاناپینااورخواتین کے ساتھ مجامعت حرام ہوجاتی تھی۔ حتی کہ پھردوسرے دن شام کو افطار کرتے ۔ حضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک رات رسول اللہ ﷺکی خدمت اقدس میں دیرتک بیٹھے رہے ۔ جب وہاں سے واپس پلٹے تو اپنی زوجہ محترمہ کو سویاہواپایا، آپ نے حقوق زوجیت اداکرناچاہے مگر وہ توآرام کررہی تھیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کو بیدارکیااورحقوق زوجیت اداکرناچاہے تو انہوںنے عرض کی کہ میں توسوچکی تھی ؟ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں تونہیں سویاتھا، پھرآپ رضی اللہ عنہ نے حقوق زوجیت اداکئے ۔ اسی رات حضرت سیدناکعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کیا۔ پھرحضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اورسارامعاملہ عرض کیاتواللہ تعالی نے پھرتمام اہل ایمان کو اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲۵:۸۶)
اس سے معلوم ہواکہ بزرگوں کابھولنابھی نفع مندثابت ہوتاہے ۔ لھذانہ توان پر انکارکیاجاسکتاہے اورنہ ہی ان کی بھول کو اپنی بھول جیساسمجھاجاسکتاہے۔

امور واقعیہ کابیان کرناکیسا؟

حضور تاجدارختم نبوتﷺنے بکریاں چرائیں۔آپ ﷺکی ولادت باسعادت جب ہوئی توآپ ﷺکے والدماجد حضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ اس دارفانی سے تشریف لے جاچکے تھے ۔کاشانہ اقدس میں فقروفاقہ رہتا ۔آپ ﷺ سیدۃ نساء العالمین حضرت فاطمۃ الزہرہ کے والد اور حضرات حسنین کریمین کے نانا ہیں۔آپ علیہ السلام کے بھیجے گئے بعض لشکر وں کو کہیں کہیں فتح نہ ہوئی۔

ان امور واقعیہ کی تحقیق یہ ہے۔کہ اہل عرب کے ہاںبکریاں چرانا عیب نہ سمجھا جاتا اور کاشانہ اقدس میں فقر اختیاری تھا ۔لیکن ہمارے دور میں علاقائی عرف میں بکریاں چرانا عیب سمجھا جاتا ہے اور ہمارے عرف میں فقر ،فاقہ کو تنگدستی ،جنگ میں فتح نہ ہونے کو شکست اوربے بسی سمجھا جاتا ہے۔
تو ان امور کو عوام کے سامنے بیان کرنے سے سید العا لمین ﷺ کی بے بسی ،تنگدستی مرشح ہونے کے خوف کی وجہ سے علماء امت کے نزدیک ان امور کا ذکر منع ہے۔اسی طرح سید العالمین ﷺ کی صفات مصطفویہ کو چھوڑ کر زہرا کے بابا ،حسنین کے نانا کے حوالے سے آپ علیہ السلام کا تعارف پیش کرنا بے ادبی ہے۔
امام شہاب الدین خفاجی رحمہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں
لَایَنْبَغِیْ ذِکْرُ مِثْلِہٖ وَ رِوَایَتِہٖ عِنْدَ الْعَوِامِ وَ لِہَذٰا اَفْتٰی بَعْضُ عُلَمَائِ الْعَصْرِ فَمَنْ قَالَ اِنَّہُ کَانَ یَدْھَنُ حَتّٰی کَانَ ثِیَابُہُ ثِیَابَ زِیَاتٍ مَعْ اَنَّہُ مَرْوِیّ’‘ فِی الشَّمَائِل ۔
ترجمہ :یعنی عوام کے سامنے ایسے امور کا ذکر اور روایت کرنا ہرگز درست نہیں ہے۔ اس لئے ہمارے دور کے بعض علماء نے اس شخص کے بارے (کفر اورقتل کا)فتویٰ دیا،جس نے کہا۔حضورﷺاتنا تیل لگاتے تھے۔کہ آپﷺ کے کپڑے تیلی کے کپڑوں کی طرح ہوجاتے۔حالانکہ یہ روایت شمائل میں موجود ہے۔
(نسیم الریاض فی شرح الشفاء للقاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالی علیہ (۴: ۳۴۱)

یہ بھی کہناجائز نہیں ہے

وَکَذَالِکَ حُکْمُ مَنْ غَمِصَہْ اَوْ عَیَّرَہُ بِرِعَایَۃِ الْغَنَمِ اَوِ السَّہْوِاَوِ النِّسْیَانِ اَوِ السِّحْرِ اَوْ مَا اَصَابَہُ مِنْ جَرْحٍ اَوْ ھَزِیْمَۃِ لِبَعْضِ جُیُوْشِہٖ۔الخ۔
ترجمہ:یعنی اسی طرح اس شخص کے بارے قتل کا حکم دیا ہے، جس نے سید العا لمین ﷺ کو بکریاں چرانے یا آپﷺ پر نسیان طاری ہونے یا آپ ﷺ پرجادو کا اثر ہونے یا آپ ﷺکے بھیجے گئے لشکروں کو فتح نہ ہونے وغیرہ کو ذکر کیا اور عوام سید العا لمین ﷺ کی بے بسی سمجھیں۔
(نسیم الریاض فی شرح الشفاء للقاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالی علیہ (۴: ۳۳۶)
ایک اور مقام پرفرماتے ہیں
لَا یَجُوْزُ اَنْ یُّقَالَ لَہ‘ ﷺ فَقِیْر’‘ اَوْ مِسْکِیْن’‘ ۔الخ۔
ترجمہ:یعنی آپﷺ کو فقیر یا مسکین (یتیم) کہنا جائز نہیں۔
یہ مثالیں ان امور کی ہیں۔جو ثابت الوقوع ہیں۔ لیکن اب ان امور کو حضورﷺ کی طر ف منسوب کر کے بیان کرنا شرعاً منع اور شرعی سزا ارتداد اورقتل کا موجب ہے۔
(نسیم الریاض فی شرح الشفاء للقاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالی علیہ (۴: ۳۳۶)

جویہ کہے کہ رسول اللہ ﷺکی فوج کو شکست ہوئی ؟

حضرت قاضی عیاض المتوفی ۵۴۴ھ) رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں
وَکَذَلِکَ أَقُولُ حُکْمُ مَنْ غَمَصَہُ أَوْ عَیَّرَہُ بِرِعَایَۃِ الْغَنَمِ أَوِ السَّہْوِ أَوِ النِّسْیَانِ أَوِ السِّحْرِ أَوْ مَا أَصَابَہُ مِنْ جرح أو ہزیمۃ لبعض جُیُوشِہِ، أَوْ أَذًی مِنْ عَدُوِّہِ، أَوْ شِدَّۃٍ مِنْ زَمَنِہِ، أَوْ بِالْمَیْلِ إِلَی نِسَائِہِ، فَحُکْمُ ہَذَا کُلِّہِ لِمَنْ قَصَدَ بِہِ نَقْصَہُ الْقَتْلُ۔
ترجمہ :اوریونہی جو رسول اللہ ﷺکی توہین کرے یارسول اللہ ﷺکوبکریاں چرانے کے سبب یاسہوونسیان کے سبب یاجادوکے سبب یااس زخم کی وجہ سے جو رسول اللہ ﷺکولگایارسول اللہ ﷺکی کسی فوج کی ہزیمت یادشمن کی جانب سے ایذارسانی کی وجہ سے یااپنے زمانہ کی کسی شدت کی وجہ سے یااپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی طرف میلان کی وجہ سے انہیں معیوب جانے تو ان سب صورتوں میں جو رسول اللہ ﷺکی توہین کاقصدکرے اس کے لئے حکم ِقتل ہے ۔
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی :عیاض بن موسی بن عیاض بن عمرون الیحصبی السبتی، أبو الفضل (۲:۴۸۳)
الامام القاضی ابوعبداللہ بن المرابط المتوفی ۲۷۶ھ) کاقول
قال الْقَاضِی أَبُو عَبْدِ اللَّہِ بْنُ الْمُرَابِطِ: مَنْ قَالَ: إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُزِمَ یُسْتَتَابُ فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا قُتِلَ لِأَنَّہُ تَنَقُّصٌ، إِذْ لَا یَجُوزُ ذَلِکَ عَلَیْہِ فِی خَاصَّتِہِ إِذْ ہُوَ عَلَی بَصِیرَۃٍ مِنْ أَمْرِہِ، وَیَقِینٍ مِنْ عِصْمَتِہِ۔
ترجمہ :اورحضرت قاضی ابوعبداللہ بن المرابط رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیںکہ جویوں کہے کہ ’’نبی کریم ﷺکو فلاں جنگ میں شکست ہوئی‘‘ اس سے توبہ کامطالبہ کیاجائے اوراگرتوبہ کرے تواس کی توبہ قبول کی جائے گی ورنہ اسے قتل کردیاجائے گااس لئے کہ اس نے رسول اللہ ﷺکی توہین کی ہے اوریہ شکست خاص رسول اللہ ﷺکے حق میں ناممکن ہے ، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺکو اپنے انجام کی بصیرت ہے اورشکست سے معصوم ہونے کایقین ہے ۔
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی:عیاض بن موسی بن عیاض بن عمرون الیحصبی السبتی، أبو الفضل (۲:۴۸۳)
حضرت مولاناشاہ فضل رسول حنفی لکھتے ہیں
وَکَذَلِکَ أَقُولُ حُکْمُ مَنْ غَمَصَہُ أَوْ عَیَّرَہُ بِرِعَایَۃِ الْغَنَمِ أَوِ السَّہْوِ أَوِ النِّسْیَانِ أَوِ السِّحْرِ أَوْ مَا أَصَابَہُ مِنْ جرح أو ہزیمۃ لبعض جُیُوشِہِ، أَوْ أَذًی مِنْ عَدُوِّہِ، أَوْ شِدَّۃٍ مِنْ زَمَنِہِ، أَوْ بِالْمَیْلِ إِلَی نِسَائِہِ، فَحُکْمُ ہَذَا کُلِّہِ لِمَنْ قَصَدَ بِہِ نَقْصَہُ الْقَتْلُ۔
ترجمہ :اوریونہی جو رسول اللہ ﷺکی توہین کرے یارسول اللہ ﷺکوبکری چرانے کے سبب یاسہوونسیان کے سبب یاجادوکے سبب یااس زخم کی وجہ سے جو رسول اللہ ﷺکولگایارسول اللہ ﷺکی کسی فوج کی ہزیمت یادشمن کی جانب سے ایذارسانی کی وجہ سے یااپنے زمانہ کی کسی شدت کی وجہ سے یااپنی عورتوں کی طرف میلان کی وجہ سے انہیں معیوب جانے تو ان سب صورتوں میں جو رسول اللہ ﷺکی توہین کاقصدکرے اس کے لئے حکم قتل ہے ۔
المعتقدالمنتقدلعلامہ مولاناشاہ فضل رسول حنفی قادری : ۲۰۱)
اس طرح کی روایات کو بیان نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں
لَکِنْ یَجِبُ أَنْ یَکُونَ الْکَلَامُ فِیہِ مَعَ أَہْلِ العلم وَفُہَمَاء ِ طَلَبَۃِ الدِّینِ مِمَّنْ یَفْہَمُ مَقَاصِدَہُ، وَیُحَقِّقُونَ فَوَائِدَہُ، وَیُجَنِّبُ ذَلِکَ مَنْ عَسَاہُ لَا یَفْقَہُ أَوْ یُخْشَی بِہِ فِتْنَتُہُ فَقَدْ کَرِہَ بَعْضُ السّلف تعلیم النساء سورۃ یُوسُفَ لِمَا انْطَوَتْ عَلَیْہِ مِنْ تِلْکَ الْقَصَصِ لِضَعْفِ مَعْرِفَتِہِنَّ وَنَقْصِ عُقُولِہِنَّ وَإِدْرَاکِہِنَّ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیںکہ لیکن یہ لازم ہے کہ ایسی گفتگواہل علم اورسمجھ دار طالب علم کے سامنے کی جائے جو اس کے مقصد کو سمجھ سکے ، اوراس کے فائدوں کی تحقیق کرسکے اورنادان لوگوں کو اس سے بچایاجائے جس سے فتنہ کاخوف ہو،چنانچہ بعض علماء سلف علیہم الرحمۃ نے عورتوں کے لئے سورۃ یوسف کی تعلیم کو مکروہ بتایاہے ، اس لئے کہ اس میں بہت سے ایسے قصے ہیں جو ان کی کمزورعقل ،سمجھ اورناقص ادراک سے باہر ہیں ۔
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی:عیاض بن موسی بن عیاض بن عمرون الیحصبی السبتی، أبو الفضل (۲:۵۳۷)
وہ روایات جن کا بیان کرنامنع ہے
وَکَذَلِکَ مَا وَرَدَ مِنْ أَخْبَارِہِ وَأَخْبَارِ سَائِرِ الْأَنْبِیَاء ِ عَلَیْہِمُ السَّلَامُ فِی الْأَحَادِیثِ مِمَّا فِی ظَاہِرِہِ إِشْکَالٌ یَقْتَضِی أُمُورًا لَا تَلِیقُ بِہِمْ بِحَالٍ وَتَحْتَاجُ إِلَی تَأْوِیلٍ، وَتَرَدُّدِ احْتِمَالٍ، فَلَا یَجِبُ أَنْ یَتَحَدَّثَ مِنْہَا إِلَّا بِالصَّحِیحِ وَلَا یُرْوَی مِنْہَا إِلَّا الْمَعْلُومُ الثَّابِتُ وَرَحِمَ اللَّہُ مَالِکًا فَلَقَدْ کَرِہَ التحدث بمثل ذلک من الأحادیث الموہمۃ للتشبیہ والمشکلۃ المعنی وقال: ما یدعو الناس إِلَی التَّحَدُّثِ بِمِثْلِ ہَذَا؟
ترجمہ :یہی حکم ان تمام روایات کے متعلق ہے جونبی کریم ﷺاوردیگرانبیاء کرام علیہم السلام کے بارے میں کتب احادیث میں مروی ہیں اوربظاہر مشکل نظرآتی ہیں ، جن میں کسی ایسی بات کاذکرجو انبیاء کرام علیہم السلام کی شایان شان نہیں ہے یاتووہ محتاج تاویل ہوں یاان میں احتمالات واردہوں ،توان میں سے بھی صرف اورصرف صحیح احادیث کو بیان کیاجائے اورسوائے مشہور اورثابت احادیث کے کوئی ضعیف حدیث روایت نہ کی جائے ۔
امام مالک رضی اللہ عنہ ان احادیث کو جو وہم ِ تشبیہ(تشبہ کاوہم ڈالتی ہوں ) اورجس کے معنی میں اشکال ہوان کے بیان کرنے کوناپسنداورمکروہ جانتے تھے ۔اوریہ بھی فرمایاکرتے تھے کہ لوگوں کو ایسی احادیث بیان کرنے کی کیاضرورت ہے ؟
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی: عیاض بن موسی بن عیاض بن عمرون الیحصبی السبتی، أبو الفضل (۲:۵۳۷)
امام نورالدین الحلبی المتوفی ( ۱۰۴۴ھ) کافتوی شریفہ
ینبغی لمن یکون فطنا أن یحذف من الخبرأی الحدیث ما یوہم فی المخبر عنہ نقصا ولا یضرہ ذلک، بل یجب کما وقع لإمامنا الشافعی رضی اللہ تعالی عنہ حیث قال فی بعض نصوصہ وقطع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امرأۃ لہا شرف فکلم فیہ، فقال:لو سرقت فلانۃ لامرأۃ شریفۃ لقطعتہا، یعنی فاطمۃ بنت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلم یصرح باسمہا تأدبا معہا أن تذکر فی ہذا المعرض وإن کان صلی اللہ علیہ وسلم ذکرہا۔لأن ذلک منہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن دلّ علی أن الخلق عندہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الشرع سواء ، فہذا من کمال أدب الإمام رضی اللہ تعالی عنہ وأرضاہ، ونفعنا ببرکاتہ:أی فإذا جاز حذف بعض الحدیث الموہم نقصا فی بعض أہل بیتہ، فما بالک بما یوہم النقص فیہ صلی اللہ علیہ وسلم، وہذا من الحافظ یدل علی أن إباء المراضع لہ صلی اللہ علیہ وسلم وارد حیث أقرہ ولم ینکرہ، واللہ أعلم.۔
ترجمہ :امام نورالدین الحلبی الشافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ المتوفی ( ۱۰۴۴ھ) فرماتے ہیں کہ ہر صاحب فہم کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر ایسی حدیث جو رسول اللہ ﷺکے حوالے سے موہم نقص ہوکو حذف کردے اورایساکرنے سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گابلکہ ایساکرنااس پر واجب ہے جیساکہ ہمارے امام شافعی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنی بعض کتابوں میں نقل کیاہے کہ جب رسول اللہ ﷺنے ایک خاتون کاہاتھ چوری کرنے کی وجہ سے کاٹاتھاتو بعض نے سفارش کی تورسول اللہ ﷺنے فرمایااگرفلاں شریفہ عورت بھی اگرچوری کرتی تو میں اس کاہاتھ بھی کاٹ دیتایعنی اس حدیث شریف کو بیان کیاتو اس میں کبھی حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہاکانام نہیں لیاآپ رضی اللہ عنہاکے ادب کی وجہ سے اگرچہ رسول اللہ ﷺنے ان کانام مبارک لیاتھا۔رسول اللہ ﷺنے حضرت سیدہ کائنات فاطمہ رضی اللہ عنہاکانام لیاتورسول اللہ ﷺکی ایک خوبی تھی جو اس بات پر دلالت کرتی ہے آقاﷺشریعت مبارکہ کے احکامات میں سب کو برابرسمجھتے تھے ۔اورامام شافعی رضی اللہ عنہ کاکمال ادب ملاحظہ فرمائیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے سیدہ کائنات رضی اللہ عنہاکانام نہ لیااورحذف کردیا۔
(السیرۃ الحلبیۃ :علی بن إبراہیم بن أحمد الحلبی، أبو الفرج، نور الدین ابن برہان الدین (ا:۱۳۵)
حضرت شیخ الاسلام مولاناانواراللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
سبحان اللہ !کیاادب تھا۔حالانکہ الفاظ حدیث کو بعینہ نقل کرناضروری سمجھاجاتاہے ، اورسیدہ کائنات رضی اللہ عنہاکانام مبارک حدیث مبارک میں واردہے وہ (لو) یعنی اگرکے ساتھ ہے ، جس کااطلاق کسی محال چیز پر برسبیل ِفرض محال ہوتاہے مگربایں ہمہ چونکہ حدیث شریف میں وہ مقام توہین میں واردتھااس لئے ادب نے اجازت نہ دی کہ اس نام مبارک کو صراحتہ ً ذکرکریں ، سچ کہاہے لوگوں نے کہ جو مقربین بارگاہ ہوتے ہیں انہیں کو ہی ادب نصیب ہوتاہے ، ہرکس وناکس میں یہ صلاحیت کہاں؟۔
(انوار احمدی از شیخ الاسلام مولاناانواراللہ رحمہ اللہ تعالی : ۲۳۳)
امام تقی الدین المقریزی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں
ورحم اللَّہ مالکا، فلقد کرہ التحدث بمثل ذلک من الأحادیث الموہمۃ للتشبیہ، والمشکلۃ المعنی، وقال:ما یدعو الناس إلی التحدث بمثل ہذا؟ فقیل لہ:إن ابن عجلان یحدث بہا، فقال:لم یکن من الفقہاء ۔
ترجمہ :اللہ تعالی امام مالک رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے کہ ان احادیث کو جو وہم ِ تشبیہ(تشبہ کاوہم ڈالتی ہوں ) اورجس کے معنی میں اشکال ہوان کے بیان کرنے کوناپسنداورمکروہ جانتے تھے ۔اوریہ بھی فرمایاکرتے تھے کہ لوگوں کو ایسی احادیث بیان کرنے کی کیاضرورت ہے؟اوریہ بھی فرماتے تھے کہ یہ لوگ اس طرح کی روایات کو ترک کیوں نہیں کردیتے ؟
آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی جاتی کہ حضور ! ابن عجلان (یہ آپ رضی اللہ عنہ کے مشائخ میں سے تھے )تواس طرح کی احادیث بیان کردیتے ہیں توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ وہ فقہاء میں سے نہیں ہیں۔
(إمتاع الأسماع:أحمد بن علی بن عبد القادر، أبو العباس الحسینی العبیدی، تقی الدین المقریزی (۱۴:۳۹۶)

ایک سوال اوراس کاجواب
اب یہ سوال پیداہوسکتاہے کہ کیااحادیث میں ایسی بات ہوسکتی ہے جس سے وہم منقصت پیداہو؟تو اس کے جواب میں امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:
وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْرَدَہَا عَلَی قَوْمٍ عَرَبٍ یَفْہَمُونَ کَلَامَ الْعَرَبِ عَلَی وَجْہِہِ. وَتَصَرُّفَاتِہِمْ فِی حَقِیقَتِہِ وَمَجَازِہِ، واستعارتہ وبلیغہ وإیجازہ فَلَمْ تَکُنْ فِی حَقِّہِمْ مُشْکِلَۃً ثُمَّ جَاء َ مَنْ غَلَبَتْ عَلَیْہِ الْعُجْمَۃُ وَدَاخَلَتْہُ الْأُمِّیَّۃُ، فَلَا یَکَادُ یَفْہَمُ مِنْ مَقَاصِدِ الْعَرَبِ إِلَّا نَصَّہَا وصریحہاولا یتحقق إشارتہا إِلَی غَرَضِ الْإِیجَازِ وَوَحْیِہَا وَتَبْلِیغِہَا وَتَلْوِیحِہَا۔فَتَفَرَّقُوا فی تأویلہا أو حملہا عَلَی ظَاہِرِہَا شَذَرَ مَذَرَمِنْہُمْ مَنْ آمَنَ بِہِ وَمِنْہُمْ مَنْ کَفَرَ۔
ترجمہ :کیونکہ رسول اللہ ﷺنے یہ تمام باتیں ان اہل عرب سے فرمائی ہیں جو اصلوبِ کلام کو خوب سمجھتے تھے ، اوران کے محل ِ استعمال کو جانتے تھے ، کہاں حقیقت ہے اورکہاں مجاز ؟اورکہاں استعارہ وبلاغت ہے اورکہاں ایجاز واختصار؟درحقیقت یہ ان کے لئے کوئی حیرت انگیزاورمشکل بات نہیں تھی ، اس کے بعد جب ان پر عجمیوں کاغلبہ ہوااوران پڑھ لوگ داخل ہوئے توان کی یہ حالت ہوگئی کہ عرب کے مقاصد سے ہی نابلد(ناواقف ہوگئے ) وہ صرف صاف اورصریح کو سمجھتے اوران اشارات کو جو بغرض ایجازوحی پنہاں تھے اورجن میں تبلیغ وتلویح مضمرتھی انہیں نہ سمجھ سکے ، چنانچہ وہ ان کے محل وتاویل میں ہر سومتفرق ومختلف ہوگئے ۔لھذاکچھ تووہ لوگ ہیں جو ان پر ایمان لے آئے اورکچھ وہ لوگ ہوئے جنہوںنے انکارکی راہ اختیارکی ۔
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی:عیاض بن موسی بن عیاض بن عمرون الیحصبی السبتی، أبو الفضل (۲:۵۳۷)
مولاناعبدالعزیز پرہاروی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں
فمانقل عن الانبیاء علیہم السلام ممایشعربکذب اومعصیۃ فماکان منقولاً بطریق الاحاد فمردود فقدصرح غیرواحد من الائمۃ بان نسبۃ الرواۃ الی الکذب اوالخطااولی من نسبۃ الانبیا ء الی المعاصی ۔
ترجمہ :جب کوئی ایسی بات انبیاء کرام علیہم السلام کے حوالے سے ذکرکی جائے جس سے کذ ب بیانی یامعصیت کے معنی ظاہرہوتے ہوں اوروہ خبرواحد کے طور پرہووہ روایت ہی مردوہے کیونکہ بہت سے ائمہ کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ راوی کو جھوٹااور خطاکارکہنازیادہ آسان ہے اس سے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف ان چیزوں کومنسوب کیاجائے۔
(النبراس لامام العلامہ مولاناعبدالعزیز پرہاروی رحمۃ اللہ تعالی علیہ : ۲۸۲)
حضرت امام سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں
فمانقل عن الانبیاء علیہم السلام ممایشعربکذب اومعصیۃ فماکان منقولاً بطریق الاحاد فمردود۔
ترجمہ:جب کوئی ایسی بات انبیاء کرام علیہم السلام کے حوالے سے ذکرکی جائے جس سے کذ ب بیانی یامعصیت کے معنی ظاہرہوتے ہوں اوروہ خبرواحد کے طور پرہووہ روایت ہی مردوہے ۔
(شرح عقائد لامام سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ : ۷۷)

حاشیہ شرح عقائد میں ہے
سواء بلغ حد الشہرۃ اولافمردود لان نسبۃ الٰخطاء الی الرواۃ اہون من نسبۃ المعاصی الی الانبیاء علیہم السلام۔
ترجمہ :وہ روایات جو خبرواحد ہیں چاہے وہ حد شہرت کو ہی کیوں نہ پہنچ جائیں توان کو رد کردیاجائے گا،اس لئے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف گناہ کی نسبت کرنے سے زیادہ آسان ہے کہ ہم اس حدیث کے راویوں کو ہی جھوٹاکہہ دیں ۔
(شرح عقائد لامام سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ : ۷۷)
امام فخرالدین الرازی المتوفی ( ۶۰۶ھ) لکھتے ہیں
وَاعْلَمْ أَنَّ بَعْضَ الْحَشْوِیَّۃِرُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ:مَا کَذَبَ إِبْرَاہِیمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ إِلَّا ثَلَاثَ کِذْبَاتٍفَقُلْتُ الْأَوْلَی أَنْ لَا نَقْبَلَ مِثْلَ ہَذِہِ الْأَخْبَارِ فَقَالَ عَلَی طَرِیقِ الِاسْتِنْکَارِ فَإِنْ لَمْ نَقْبَلْہُ لَزِمَنَا تَکْذِیبُ الرُّوَاۃِ فَقُلْتُ لَہُ:یَا مِسْکِینُ إِنْ قَبِلْنَاہُ لَزِمَنَا الْحُکْمُ بِتَکْذِیبِ إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَإِنْ رَدَدْنَاہُ لَزِمَنَا الْحُکْمُ بِتَکْذِیبِ الرُّوَاۃِ وَلَا شَکَّ أَنَّ صَوْنَ إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ عَنِ الْکَذِبِ أَوْلَی مِنْ صَوْنِ طَائِفَۃٍ مِنَ الْمَجَاہِیلِ عَنِ الْکَذِبِ.
ترجمہ :اس بات کایقین کرلے کہ بعض حشویہ نے یہ کہاہے کہ
مَا کَذَبَ إِبْرَاہِیمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ إِلَّا ثَلَاثَ کِذْبَاتٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام نے تین کذبات کہے ۔
تومیںنے ان کو کہاکہ بہترہے کہ ہم اس روایت کو قبول نہ کریں توحشویہ نے اسے برامحسوس کرتے ہوئے کہااگرہم اسے قبول نہ کریں تو ان راویوں کاجھوٹاہونالازم آئے گاتومیںنے کہا: ممکن ہے کہ اگرہم اس روایت کو قبول کریں توحضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے جھوٹے ہونے کاحکم لازم آئے گااوراگرہم اسے رد کردیں تو ان راویوں کاجھوٹاہونالازم آتاہے بلاشبہ حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کاجھوٹ سے محفوظ ہونااولی ہے ان مجاہلین راویوں کے گروہ کے کذب سے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۸:۴۳۹)
علامہ مولانافضل رسول حنفی قادری المتوفی ۲۷۰ٍ۱ھ) لکھتے ہیں
وقد ذکربعض من الف اجماع المسلمین علی تحریم روایۃ ماھجی بہ ﷺوکتابتہ وقراء تہ وترکہ متی وجد دون محو ونحوولوکتاب غیرہ وحصول ضررہ ۔
ترجمہ :بعض علماء کرام جنہوں نے اجماعی مسائل میں کتاب تالیف کی انہوںنے مسلمانوں کااس بات پر اجماع نقل کیاہے کہ جس بات سے نبی کریم ﷺکی توہین کی گئی ہواس کی روایت کرنااوراس کی کتابت کرنااوراس کو پڑھنااورجب کہیں ملے اس کو مٹائے بغیریااس کے مثل فعل کے( یاجلائے ) بغیر چھوڑ دیناحرام ہے اگرچہ اس گستاخی کو کسی دوسرے شخص کی کتاب میں پائے اگرچہ اس کو نقصان پہنچنے کاخطرہ ہو۔
( المعتقد المنتقد لعلامہ مولانافضل رسول بدایونی حنفی قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ : ۴۲۲)
علامہ فضل رسول قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے فرمان شریف کے مطابق کتاب چاہے کسی کی ہواس میں گستاخی کے کلمات ہوں ان کو مٹادیں یاکتاب کو جلادیں اگرچہ آپ کو اس کی جانب سے نقصان پہنچنے کاخطرہ ہو۔

گستاخی پر مبنی کتب کے متعلق امام احمدرضاحنفی کافتوی شریفہ

اقول : وذلک کاحراق الخمر وکسرالآلات التلہی بل اھم واعظم کمالایخفی فلیحفظ ۔ فان الناس یساہلون فی ذلک کثیراً ویتورعون منہ وماالمورع الافی افناء امثال الخبائث ولایختص بماقصد بہ الہجوبل فی حکمہ کلمات متہوری الشعراء فی النعت والمناقب ممافیہ توہین الانبیاء والملائکۃ علیہم الصلوۃ والسلام کماہومعروف من عادتھم فحکم کل تغییرہ بالیدبالمحو والاحراق والافناء لمن قدر، والافبلسانہ والافبقلبہ ولیس وراء ذلک حبۃ خردل من ایمان ۔
ترجمہ :انبیاء کرام اورملائکہ کرام علیہم السلام کی گستاخیوں پر مبنی کتب کو پھیلانے کے متعلق امام اہل سنت امام احمدرضاحنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ گستاخی والی کتب کو تلف کرنااوران کو جلادینااوران کو مٹادینابھی شراب کوبہانے اورآلات لہو کو توڑنے کی نظیر ہے بلکہ یہ گستاخی والی کتب کو ختم کرناان سے بھی زیادہ اہم اوراعظم ہے ۔ جیساکہ پوشیدہ نہیں ۔اسے یاد رکھ لے ۔اس لئے کہ لوگ اس معاملے میں سستی سے کام لیتے ہیں اوراس سے بچنے کو تقوی سمجھتے ہیں اوریہ تقوی نہیں بلکہ ایسی خبیث چیزوں کو ختم کرناتقوی ہے ۔ اوریہ حکم صرف اس کلام سے خاص نہیں ہے بلکہ حکم میں نعت ومنقبت میں سے بے باک شعراء کے وہ کلام بھی داخل ہیں جن میں انبیاء وملائکہ کرام علیہم السلام کی توہین ہے جیساکہ ان شاعروں کی عادت معلوم ہے توان تمام باتوں میں حکم ہے کہ اس کو اپنے ہاتھ سے مٹاکر ،جلاکراورفناکرکے بدلے جو اس کی قوت رکھتاہے ورنہ اپنی زبان سے اس کاانکارکرے اوراس پر بھی قدرت نہیں توپھردل سے اس کو براجانے اوراس کے آگے رائی کے برابربھی ایمان نہیں ہے ۔
(المستندالمعتمدبنانجاۃ الابدلامام الشاہ احمدرضاخان حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ : ۲۲۴)

اس عبارت سے معلوم ہواکہ گستاخوں کے خلاف نہ بولناتقوی نہیں ہے بلکہ گستاخوں کارد کرناتقوی ہے ۔
اس سے وہ لوگ بھی سبق حاصل کریں جو فیس بک پرگستاخی کے کلمات کو فوراً سے پہلے لوگوں تک پہنچاناشروع کردیتے ہیں اوریہی لوگ اپنی طرف سے ناموس رسالت (ﷺ) کے خلاف کام کرنے والے گستاخوں کے توہین آمیز کلمات لوگوں تک پہنچانے کاکام کررہے ہوتے ہیں ۔ اس عبارت سے معلوم ہواکہ اگرایسی گستاخی والی عبارت آپ کے سامنے آئے تو اس کو ختم کردیں نہ کہ اس کو آگے پھیلاناشروع کردیں ۔ اللہ تعالی ان کو ہدایت عطافرمائے ۔
ان شاء اللہ تعالی عنقریب اس موضوع پر ہماری کتاب جلد چھپ کرمنظرعام پر آئے گی ۔
جس کانام ’’ گستاخیوں کو پھیلانے کاشرعی حکم ‘‘ہے ۔

امام احمدالمعروف ملاجیون رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں
واذاتقررھذافمانقل عن انبیاء ممایشعروبکذب اومعصیۃ فماکان منقولاً بطریق الاحاد فمردود وماکان منقولاً بطریق التواترفمصروف عن ظاہرہ ان امکن والامحمول علی ترک الاولی او کونہ قبل البعث ۔
ترجمہ:حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے ایسی باتیں جو جھوٹ یامعصیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں ان میں سے جوخبر’’خبرواحد‘‘ کے طور پر منقول ہیں وہ مردود (ناقابل اعتبار) ہیں اوروہ جوبطریق تواترمنقول ہیںاوروہ اپنے ظاہری مفہوم سے دوسرے مفہوم کی طرف پھیردی جائیں گی اگران کاپھیردیناممکن ہواتو ،اگرظاہری مفہوم سے ان کاپھیراجاناناممکن ہوتووہ ترک اولی کے تحت آئیں گی یاقبل بعثت ان کاصدورہواہوگا۔
(التفسیرات احمدیہ لامام احمدالمعروف ملاجیون رحمۃ اللہ تعالی علیہ : ۳۳)

وہ مسائل جو صرف اہل فہم پر بیان کیے جائیں

علامہ مولانافضل رسول حنفی قادری المتوفی ۲۷۰ٍ۱ھ) لکھتے ہیں
ان یذکرہ مایجوز علی النبی ﷺ او یختلف فی جوازہ علیہ ومایطرئوہ من الامورالبشریۃ ویمکن اضافتہاالیہ او یذکرہ ماامتحن بہ وصبرفی ذات اللہ تعالی علی شدتہ کل ذلک علی طریق الروایۃ ومذاکرۃ العلم فھذا فن خارج عن ھذ ہ الفنتون الستۃ ، اذ لیس فیہاغمص ولانقص ، لکن یجب ان یکون الکام فیہ مع اہل العلم وفھماء طلبۃ الدین ، ویجتنب عن ذلک من عساہ لایفقہ او یخشی بہ فتنۃ
ترجمہ :ایسی بات کاذکرکرے جو نبی کریم ﷺکے حق میں جائز ہے یااس کے جائز ہونے میں اختلاف ہے اوربشریت کے وہ امور جو طاری ہوتے ہیں اورحضورنبی کریم ﷺکی طرف ان کی نسبت کرناممکن ہے ذکرکرے ۔ یااس آزمائش کاذکرکرے جو رسول اللہ ﷺپرہوئی اوررسول اللہ ﷺنے اللہ تعالی کی رضاکے لئے اس کی شدت کے باوجود اس پر صبرفرمایا۔ ان تمام باتوں کاذکر اگرروایت اورعلمی مذاکرے کے طورپرہوتویہ فن ان فنون ستہ سے خارج ہے اس لئے کہ اس میں نہ رسول اللہ ﷺکے مرتبہ میں کمی ہے اورنہ تنقیص ۔ لیکن واجب ہے کہ ان باتوں میں گفتگواہل علم اورسمجھدار طالب علم کے ساتھ ہواوراس کے تذکرہ میں اس سے اجتناب ہوجس پر اندیشہ ہوکہ وہ ناسمجھے گایااس کی گمراہی کاڈرہو۔
( المعتقد المنتقد لعلامہ مولانافضل رسول بدایونی حنفی قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ : ۲۲۴)

مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں
وہ احادیث جن سے پیغمبروں کاگناہ ثابت ہے اگرمتواتراورقطعی نہیں بلکہ مشہور احاد ہیں وہ سب مردود کوئی بھی قابل اعتبارنہیں ، اگرچہ صحیح ہی ہوں،تفسیر کبیرسورۃ یوسف کی تفسیر میں ہے کہ جو احاد یث خلاف انبیاء کرام علیہم السلام ہوں وہ قبول نہیں ، راوی کوجھوٹامانناپیغمبرکو گناہگارماننے سے آسان ہے ۔
اوروہ قرآنی آیات اورمتواترروایات جن سے ان حضرات علیہم السلام کاجھوٹ یاکوئی اورگناہ ثابت ہوتاہوسب واجب التاویل ہیں اوران کے ظاہری معنی مراد ہوںگے یاکہاجائے گاکہ یہ واقعات عطائے نبوت سے پہلے کے تھے۔

تفسیرات احمدیہ میں ہے
واذاتقررھذافمانقل عن انبیاء ممایشعروبکذب اومعصیۃ فماکان منقولاً بطریق الاحاد فمردود وماکان منقولاً بطریق التواترفمصروف عن ظاہرہ ان امکن والامحمول علی ترک الاولی او کونہ قبل البعث ۔
ترجمہ:حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے ایسی باتیں جو جھوٹ یامعصیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں ان میں سے جوخبر’’خبرواحد‘‘ کے طور پر منقول ہیں وہ مردود (ناقابل اعتبار) ہیں اوروہ جوبطریق تواترمنقول ہیں اوروہ اپنے ظاہری مفہوم سے دوسرے مفہوم کی طرف پھیردی جائیں گی اگران کاپھیردیناممکن ہواتو ،اگرظاہری مفہوم سے ان کاپھیراجاناناممکن ہوتووہ ترک اولی کے تحت آئیں گی یاقبل بعثت ان کاصدورہواہوگا۔
(جاء الحق از مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ :۴۳۸)
خبرواحد عصمت انبیاء علیہم السلام کے خلاف ہوتوواجب الرد ہے

ابن عاشورالتونسی المتوفی ( ۱۳۹۳ھ) لکھتے ہیں
وَمَا رُوِیَتْ إِلَّا بِأَسَانِیدَ وَاہِیَۃٍ وَمُنْتَہَاہَا إِلَی ذِکْرِ قِصَّۃٍ، وَلَیْسَ فِی أَحَدِ أَسَانِیدِہَا سَمَاعُ صَحَابِیٍّ لِشَیْء ٍ فِی مَجْلِسِ النَّبِیء ِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَنَدُہَا إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ سَنَدٌ مَطْعُونٌعَلَی أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ یَوْمَ نَزَلَتْ سُورَۃُ النَّجْمِ کَانَ لَا یَحْضُرُ مَجَالِسَ النَّبِیء ِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہِیَ أَخْبَارُ آحَادٍ تُعَارِضُ أُصُولَ الدِّینِ لِأَنَّہَا تُخَالِفُ أَصْلَ عصمَۃ الرَّسُول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا الْتِبَاسَ عَلَیْہِ فِی تَلَقِّی الْوَحْیِ. وَیَکْفِی تَکْذِیبًا لَہَا۔
ترجمہ :جتنی بھی روایات مروی ہیں سب کی سندیں واہیہ ہیں اوران کامنتہی ایک قصہ کاذکرہے اوران تمام اسانیدمیں کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کارسول اللہ ﷺکی مجلس سے سماع ثابت نہیں ہے ، اوران کی سند حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماتک منتہی ہوتی ہے اوریہ سند مطعون ہے ، اس وجہ سے کہ جب سورۃ النجم نازل ہوئی تو اس وقت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمارسول اللہ ﷺکی مجلس شریفہ میں حاضرہی نہیں ہوتے تھے ( اس وقت آپ کی عمر مبارک دوتین سال تھی ) اوردوسری بات یہ کہ یہ روایت ’’خبرواحد‘‘ ہے، اوریہ دین کے قطعی اصول کے خلاف ہے ، اوریہ رسول اللہ ﷺکے مقام عصمت کے خلاف ہے وحی کے حصول میں التباس پیداکرنے کی وجہ سے ،اس روایت کے جھوٹے ہونے کے لئے اتناہی کافی ہے ۔
(التحریر والتنویر :محمد الطاہر بن محمد بن محمد الطاہر بن عاشور التونسی (۱۷:۳۰۴)
تکذیب راوی آسان ہے تکذیب رسالت (ﷺ) سے

ابوزہرہ المتوفی (۱۳۹۴ھ)لکھتے ہیں
ویذکر بعض علماء الأثر قصۃ الغرانیق العلا الذی ادُّعیَ فیہا أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم سُحِر، وقال عن اللات والعزی: تلک الغرانیق العلا، وإن شفاعتہن لترتجی، فہی قصۃ باطلۃ کاذبۃ مہما یکن راویہا، ومنزلتہ فی الروایۃ، فتصدیقہا یؤدی إلی الطعن فی الرسالۃ المحمدیۃ، وتکذیب راوٍ فی قصۃ مہلہلۃ خیر من تکذیب الرسالۃ والرسول، ومن یقبلہا فہو فی غفلۃ لَا یلتفت إلیہ۔
أننا لَا نقدم ما یرویہ الراوی مہما یکن ثقۃ علی نص قطعی غیر قابل للتخصیص، فکیف نقدم روایۃ تؤدی إلی الطعن فی صدق الرسالۃ المحمدیۃ کلہا ککون النبی صلی اللہ علیہ وسلم سُحِر، وقال عن اللات والعزی: تلک الغرانیق العلا، فہذا کذب لَا یمترِی فی تکذیبہ مؤمن.
ترجمہ :بعض علماء الاثرنے یہ قصہ (تلک الغرانیق ) نقل کیاہے جس میں یہ دعوی کیاگیاہے کہ رسول اللہ ﷺپر جادوکردیاگیاتھااوراس کیفیت میں رسول اللہ ﷺنے لات وعزی بتوں کے متعلق تعریفی کلمات اداکردئیے ۔
تلک الغرانیق العلا وإن شفاعتہن لترتجی

یہ قصہ باطلہ اورجھوٹاہے چاہے جو بھی روایت کرے اورچاہے اس کاروایت حدیث میں جو بھی مقام ہو،اس کی تصدیق کرنارسول اللہ ﷺکی رسالت میں طعن کی طرف لے جاتاہے اوراس راوی کی تکذیب کرنااس قصہ میں یہ بہترہے رسول اللہ ﷺاورآپﷺ کی رسالت کی تکذیب سے اورجو بھی شخص اس روایت کو قبول کرتاہے وہ غفلت میں مبتلاء ہے ایسے شخص کی طرف توجہ ہی نہیں کی جائے گی ۔
ایسی نص قطعی جو تخصیص کو بھی قبول نہ کرے ہم اس کے خلاف کسی بھی راوی کی روایت کو قبول نہیں کریں گے چاہے وہ راوی کتناہی ثقہ ہو۔ہم اس روایت کو کیسے قبول کرلیںگے جو رسول اللہ ﷺکی رسالت کے صدق میں طعن کی موجب ہوجیسے یہ کہنارسول اللہﷺپرجادوکردیاگیاتورسول اللہ ﷺنے لات وعزی کی تعریف کردی اوریہ فرمایا: تلک الغرانیق العلا۔
یہ قصہ ایساجھوٹاہے جس کے جھوٹے ہونے میں کوئی بھی مومن شک نہیں کرے گا۔
(زہرۃ التفاسیر: محمد بن أحمد بن مصطفی بن أحمد المعروف بأبی زہرۃ (۹:۵۰۰۵)

Leave a Reply