مسجد حرام او مسجد نبوی کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے
سوال : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حرمین شریفین کے لئے حکمران کا انتخاب من جانب اللہ ہوتا ہے اس لیے وہاں کے وہابی امام
کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے، اور اگر ان کے پیچھے نماز صحیح نہ تو لازم آئے گا کہ عرصہ دراز سے مسجد حرام اور مسجد
نبوی بے نمازی ہوں ۔
الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پھر تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ عرصہ دراز تک وہاں شیعوں کے ایک خاص فرقے قرامطہ کی حکومت تھی تو ان کا انتخاب بھی
منجانب اللہ ہوا لہذا ان کے پیچھے بھی نماز ہونی چاہیے بلکہ ایک زمانے تک مکہ شریف پر مشرکوں کا تسلط تھا اور کعبۃ اللہ
شریف میں سینکڑوں بتوں کی پرستش ہوتی تھی تو ان کی امامت کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے؟ پھر ہمارے قبلہ اول
بیت المقدس پر آج بھی یہودیوں کی حکومت ہے تو چاہیئے یہ انتخاب بھی من جانب اللہ ہو اور ان کے پیچھے بھی نماز صحیح
ہو ایسی بے تکی دلیل اور غلط موقف سے عقل والوں کو بچنا چاہیے ۔
یوں ہی یہ بات بھی بیجا ہے کہ وہابی امام کے پیچھے نماز صحیح نہ ہو تو مسجد حرام اور مسجد نبوی شریف کا نماز و عبادت
سے خالی رہنا لازم آئے گا کیوں کہ ان مساجد میں روزانہ بہت سے علما و قراء وحفاظ الگ سے نماز قائم کرتے اور نماز ادا
کرتے ہیں جو دیکھنا چاہے وہاں جاکر اوقات نماز میں اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیں اور انفرادی طور پر نماز پڑھنے والے تو
بے شمار ہوتے ہیں ۔
ہم اہل حق اہلسنت و جماعت انبیاء اور اولیاء کو بارگاہ الہی میں وسیلہ بناتے اور اسے قبولیت دعا کے لئے مستحسن جانتے
ہیں جب کہ وہابی وسیلہ بنانے کو شرک اور وسیلہ کے قائلین کو مشرک کہتے ہیں تو جو ہم مسلمانوں کو عقیدہ حقہ رکھنے
کی وجہ سے مشرک کہے اس کے پیچھے ہماری نمازیں ہرگز صحیح نہیں ہو سکتیں حدیث نبوی کا مضمون ہے کہ جو کسی
مسلمان کو کافر کہے وہ خود کافر ہو جاتا ہے، ایسے میں ان کی اقتدا میں اہل سنت و جماعت کی نماز کیسے درست ہوگی؟
نماز کے صحیح ہونے کی بنیاد عقیدے کی خرابی پر ہے نہ کہ حرمین شریفین کا حکمران ہونے نہ ہونے پر اللہ تعالی سب کو
دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔
و اللہ تعالی اعلم ۔
کتبہ : محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارکپور
میں یہ پوچھنا چاہتا ہو کہ شیعہ اور مشرکین رسول کریم کے زمانہ سے پہلے تھے رسول کریم کے بعد اس جگہ کافروں کا ہونا کیوں کر ہو سکتا ہے اور کیا رب کریم نعوذباﷲ اتنا کمزور ہے کہ اپنے حبیب کے مصلے پر کسی کافر کو کھڑا دے….یا کعبہ میں کافر کو کھڑا کر دے….یہ بعد از رسالت مآب کی بات کر رہا ہوں۔
اگر ایسا ہے تو جب یزیدیوں نے مدینہ منورہ پر چڑھائی کیا قتل و غارت گری اور طرح طرح کے مظالم کا بازار گرم کیا ۔ لوگوں کے گھروں کو لوٹ لیا 700 صحابہ کرام کو بے گناہ شہید کیا اور تابعین وغیرہ کو ملا کر کل 10 ہزار سے زیادہ شہید کیا لڑکوں کو قید کر لیا اور مکہ یہاں تک ظلم کیا کہ وہاں کی پاک دامن پارسا عورتوں کو تین شبانہ روز اپنے اوپر حلال کر لیا حضور کے روضہ مقدسہ کی سخت بے حرمتی کی مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے ان کی لید اور پیشاب منبر اطہر پر پڑے تین دن تک لوگ مسجد میں نماز سے مشرف نہ ہو سکے تو ان بد بختوں کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے؟
ماشاءاللہ