حرام کمائ کے روپے کا استعمال ؟
(1) کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید گانا گاتا ہے اور ناچتا ہے ۔ ساتھ میں گانے اور ناچنے والی کو بھی رکھتا ہے جو ایک قسم کی تجارت تصور کرتاہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلاتا ہے ۔ اگر وہ میلاد شریف کرے تو اس میں شرکت کرنا اور اس کا نذرانہ لینا، اس کے بعد کھانا کھانا کیسا ہے؟
اس تجارت کی آمدنی میں سے مسجد میں دے تو مسجدوں میں لگانا درست ہے یا نہیں ۔ اگر اس میں اس قسم کی رقم لگا دی گئی ہے تو اس میں نماز پڑھنے سے ہوگی ، یا نہیں اور جو امام میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کا نذرانہ لیتے ہیں اور اس کے یہاں کھاتے پیتے ہیں ان کی اقتدا ہوگی یا نہیں؟
الجوابـــــــــــــــــــــــــــ
(1)گانے ، ناچنے ، باجا بجانے کا اجارہ :
گانے ،ناچنے، اور دوسرے لہو و لعب مثلاً: باجا بجانے پر اجارہ باطل ہے ۔ اس پر اجرت جو ملے وہ ناپاک و خبیث ہے ، ہدایہ آخرین میں ہے: قال ( القدوري) ولا يجوز الاستئجار علي الغناء والنوح وكذا سائر الملاهي . لأنه استئجار علي المعصية والمعصية لا تستحق بالعقد. 1 ھ (3/287 کتاب الاجارات)
زید کی آمدنی کا ذریعہ یہی فعل حرام ہے یا کچھ آمدنی بذریعہ حلال بھی ہے؟ اگر کچھ آمدنی بذریعہ حلال بھی ہو مثلاً تجارت، حرفت، زراعت، دست کاری وغیرہ تو اس کا نذرانہ لینا ، اس کے گھر کھانا کھانا ، مسجد میں اس کا عطیہ قبول کرنا ، اسے مسجد میں لگانا سب جائز ہے ۔ اور مانا یہ جائے گا کہ وہ سارے اخراجات حلال کمائی سے ہی کرتا ہے ۔ حمازا لفعل المسلم علي الصلاح و السداد ۔
اس کی نظیر یہ مسئلہ ہے کہ بازار میں مال حرام غالب اور مال حلال مغلوب ہو تو خریداری جائز ہے جیسا کہ اشتباہ میں قاعدہ: اذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام ۔ ( الاشباه والنظائر ، ص :301، بيروت) کی بحث میں اس کی صراحت ہے ۔ اور فتاوی رضویہ جلد دوم رسالہ ” الاحلی من السکر” اس کی پوری تفصیل ہے ۔ نیز اس طرح کے لوگوں کی عادت بھی سنی گئی کہ وہ اس طرح کے نیک کام حلال کمائی سے کرتے ہیں ۔
اور اگر اس کے پاس کوئی حلال ذریعہ آمدنی نہ ہو اور یہ یقین سے معلوم ہو کہ وہ نذرانے میں وہی مال حرام دے رہا ہے کہیں سے قرض وغیرہ لے کر نہیں دے رہاہے تو اسے لینا حرام ہے ۔ ارشاد باری ہے: ياايها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل ( النساء آيت: 29) اسے مسجد میں لینا حرام اور گناہ ہوگا۔
لیکن اگر وہ مال مسجد کے واسطے قبول کیا گیا پھر اس سے سامان خرید کر مسجد میں لگادیا گیا تو اس کے باعث مسجد کے مسجد ہونے میں کوئی اثر نہ پڑے گا، اور مسجد میں لگا ہوا سامان ناپاک وخبیث بھی نہ قرار پائے گا کیونکہ شریعت کا مسئلہ یہ ہےکہ مال حرام اگر کوئی چیز اس طور پر خریدی گئی کہ عقد ونقد دونوں مال حرام پر جمع نہ ہوں بلکہ صرف نقد میں اسے دے دیا جائے جیسا کہ آج کل تقریبا سو فیصد عقد اسی طور پر انجام پاتے ہیں تو خریدے ہوئے مال میں اس حرام روپے کی ناپاکی سرایت نہ کرے گی اور وہ مال پاک وطیب ہوگا ، لہذا اس طور پر خریدے ہوئے مال کو مسجد میں لگانا حلال و درست ہے اور اس مسجد میں نماز پڑھنا صحیح و درست اور اس طور پر تیار کیے ہوئے کو کھانا بھی جائز ہے۔ لیکن احتراز اولی ہے ۔
امام صاحب زید کے یہاں سے جو نذرانہ لیتے ہیں اگر یقین سے معلوم نہ ہو کہ یہ نذرانہ اسی مال حرام کا ہے ( اور اس کے معلوم ہونے کی صورت یہی ہے کہ زید بتادے کہ وہی مال حرام ہے یا امام صاحب کے سامنے ناچ ، گانے کے روپے ملے اور وہی روپے اس نے انہیں دیدئیے ) تو امام پر کوئی الزام نہیں سوائے اس کے کہ ایک غیر اولی کام کیا، لیکن اس سے ان کی امامت کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اور درج بالا کسی طریقے سے امام کو معلوم ہے کہ یہ نذرانہ وہی مال حرام ہے تو اسے لینا حرام اور علانیہ اس کا ارتکاب فسق، اور امام فاسق معلن ہوا، اس صورت میں ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے واجب الاعادۃ ہوگی ۔ لوگ اپنے ظنون وخیالات کو بھی یقین کا درجہ دے دیتے ہیں اس کا اعتبار نہ ہوگا۔
یہ حکم زید کے مال کا تھا ، اور اس کے گھر میلاد پڑھنے کا،لیکن جب وہ شخص اعلانیہ گناہ کے کاموں کا ارتکاب کرتا ہے ۔ تو اس کے ساتھ خلط ملط ، ممنوع اور اس کا نذرانہ لینا بھی ۔
واللہ تعالی اعلم
کتبـــــــــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارک پور