حق چھپانے والے اوردین بیان نہ کرنے والوں کارد

حق چھپانے والے اوردین بیان نہ کرنے والوں کارد

اس آیت مبارکہ کی مناسبت سے ہم چند احادیث شریفہ نقل کرتے ہیں :
بدعقیدگی جب ظاہرہو
حَدَّثَنَا أَبُو الْفَضْلِ الْعَبَّاسُ بْنُ یُوسُفَ الشِّکْلِیُّ قَال حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرَجِ الْبَزَّارُ قَالَ:حَدَّثَنِی خَلَفُ بْنُ تَمِیمٍ قَالَ:حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ السَّرِّیِّ قَالَ:حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَظْہَرَتْ أُمَّتِی الْبِدَعَ وَشُتِمَ أَصْحَابِی فَلْیُظْہِرِ الْعَالِمُ عِلْمَہُ فَإِنَّ کَاتِمَ الْعِلْمِ یَوْمَئِذٍ کَکَاتِمِ مَا أَنْزَلَ اللَّہُ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب بدعقیدگی ظاہرہواورمیرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کی جائے تواس وقت ہرعالم پر لازم ہے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے بے شک ایسے وقت میں علم کو چھپانے والاایساہے جورسول اللہ ﷺ پرنازل ہونے والے قرآن کریم کو چھپانے والاہو۔
الشریعۃ: أبو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ الآجُرِّیُّ البغدادی (۵:۲۴۹۷)دار الوطن الریاض السعودیۃ

عالم جو صحابہ کرام کادفاع نہ کرے وہ لعنتی ہے

عن معاذِ بنِ جبلٍ رضی اللہُ عنہ قالَ:قالَ رسولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم: إذا ظَہرَت الفتنُ – أو قالَ: البدع وسُبَّ أَصحابی فلْیُظہِر العالمُ علمَہُ، فمَن لم یفعلْ ذلکَ، فعلیہِ لعنۃُ اللہِ والملائکۃِ والناسِ أجمعینَ، ولا یَقبلُ اللہُ مِنہ صرفاً ولا عدلاً۔
ترجمہ :حضرت سیدنامعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جب میری امت میں بدعقیدگی ظاہرہواورمیرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کی جائے تواس وقت عالم پر ضروری ہے کہ وہ اپناعلم ظاہرکرے اگراس نے ایسانہ کیاتو اس پر اللہ تعالی کی اورملائکہ کرام علیہم السلام اورتمام لوگوں کی لعنت ہے ۔اوراللہ تعالی اس کے نہ فرض قبول فرمائے گااورنہ ہی نفل ۔
(الشریعۃ:أبو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ الآجُرِّیُّ البغدادی (۵:۲۵۶۲)

ان دونوں روایات سے ثابت ہواکہ آجکل کے دورمیں علماء دین پر حق کو واضح کرنا،اپناعلم پھیلانا، ملحدوں اوربے دینوں کے دلائل کی تردیداورلبرل وسیکولرلوگوں کارد فرض ہے اوران کے لئے خاموشی اختیارکرناحرام اشدحرام اورجہنم میں لے جانے والاکام ہے ۔ہر عالم دین پر لازم ہے کہ وہ بقدراستطاعت ان کارد کرے ۔

جو رد سے منع کرے اس کاحال

اس حدیث مبارک کے تحت امام اہل سنت امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ جب بدمذہبوں کو دفع نہ کرنے والے پر اتنی لعنتیں ہیں توجو خبیث ان کے دفع کرنے سے روکے اس پر کس قدراشدغضب ولعنت اکبرہوگی ۔
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاخان رحمۃ اللہ تعالی علیہ ( ۲۱: ۲۵۷)
امام احمدرضاخان حنفی الماتریدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے نزدیک جو شخص گستاخوں کے رد سے منع کرے وہ سب سے بڑالعنتی ہے ۔
مولاعلی رضی اللہ عنہ کو گستاخوں کے قتل پرمامورفرمایا
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ مَیْمُونٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سَعِیدٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَسْعَدَ التَّغْلِبِیُّ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ أَبُو زُبَیْدٍ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیِّ، عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :سَیَأْتِی بَعْدِی قَوْمٌ لَہُمْ نَبَزٌ یُقَالُ لَہُم:الرَّافِضَۃُ، فَإِذَا لَقِیتُمُوہُمْ فَاقْتُلُوہُمْ، فَإِنَّہُمْ مُشْرِکُونَ ۔قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا الْعَلَامَۃُ فِیہِمْ؟ قَالَ:یُقَرِّضُونَکَ بِمَا لَیْسَ فِیکَ، وَیَطْعَنُونَ عَلَی أَصْحَابِی وَیَشْتُمُونَہُمْ۔

ترجمہ:حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: عنقریب میرے بعد ایک جماعت رونماہوگی ، ان کے لئے ایک برالقب ہوگا، ان کو رافضی کہاجائے گا، اے علی ! اگرتم ان کو پاناتو ان کے ساتھ جنگ کرنا، اس لئے کہ وہ مرتد ہیں ۔ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ! ان کانام تومعلوم ہوگیاان کی علامت بھی ارشادفرمادیں ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ان کی علامت یہ ہوگی کہ وہ لوگ تمھاری تعریف ایسی کریں گے جو تم میں نہیں ہے ( جیساکہ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کو انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل بتانا، یاآپ رضی اللہ عنہ کو خداکہنا یاخلافت راشدہ کے لئے حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اورکو حقدار نہ سمجھنایاخلافت بلافصل کے لئے آپ رضی اللہ عنہ کاوصی ہوناوغیرہ وغیرہ ) اورپہلوں یعنی خلفاء ثلثہ ( حضرت سیدناابوبکر صدیق ،حضرت سیدناعمر بن خطاب اورحضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہم ) پر طعن کریں گے۔
(السنۃ:أبو بکر بن أبی عاصم وہو أحمد بن عمرو بن الضحاک بن مخلد الشیبانی (۲:۴۷۴)
اس حدیث مبارک سے واضح ہواکہ جو شخص حضرات خلفاء ثلثہ رضی اللہ عنہم پر زبان طعن کھولتاہے وہ مرتداورمشرک ہے تو جو شخص رسول اللہ ﷺکی توہین کرے اس کاکیاحکم ہوگااوریہ بھی ذہن میں رہے کہ رسول اللہ ﷺنے حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے گستاخوں کے لئے قتل اوران کے مرتدہونے کافیصلہ فرمایاتوجو شخص رسول اللہ ﷺکاگستاخ ہے وہ کیسے مسلمان ہوسکتاہے اوروہ کیسے قتل سے بچ سکتاہے ۔

ناموس رسالت پر نہ بولنے والے بندراورخنزیرکی شکل میں اٹھائے جائیں گے۔

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قَانِعٍ، ثنا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحُسَیْنِ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ، ثنا سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِیہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، لَیَخْرُجَنَّ مِنْ أُمَّتِی مِنْ قُبُورِہُمْ فِی صُورَۃِ الْقِرَدَۃِ وَالْخَنَازِیرِ بِإِدْمَانِہِمْ عَنِ الْمَعَاصِی عَنْ نَہْیِہِمْ وَہُمْ یَسْتَطِیعُونَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوسلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا: اللہ تعالی کی قسم ! ضرور کچھ لوگ میری امت کے اپنی قبروں سے بندروں اور خنزیروں کی شکل میں نکلیں گے ، گناہوں میں پالیسی بازی کرنے اورمداہنت برتنے اورنہی عن المعاصی سے چپ رہنے کے سبب باوجودیکہ وہ حق بات کہنے اوربری بات سے منع کرنے کی طاقت رکھتے تھے ۔
(کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال:علاء الدین علی بن حسام الدین ابن قاضی خان القادری ا (۳:۸۳)

جوعالم دین وشیخ عام گناہ ہوتادیکھ کر اس کو منع نہ کرے اوراس پر نہ بولے وہ قیامت کے دن اپنی قبرسے خنزیراوربندرکی شکل میں برآمد ہوگاتوجوشخص رسول اللہ ﷺکی عزت وناموس کے لئے نہ بولے اوراپنی تنخواہ بچاتارہے اوراپنے پیٹ کی طرف دیکھتارہے اس کاکیابنے گا؟

مولاناروم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کافرمان شریف

اندریں امت نشد مسخ ِ بدن لیک مسخ بود اے ابو الفتن
ترجمہ :یعنی اس امت میں جسموں کامسخ تو رسول اللہ ﷺکے طفیل عام طور پرنہ ہوگا۔ لیکن حق کو حق نہ کہنے والے اورباطل کو باطل کہنے سے باز رہنے والوں کے دل بندروں اورخنزیروں جیسے بنادئیے جائیں گے ۔ العیاذ باللہ ۔
اب جس کادل بندراورخنزیرجیساہوچکاہواس سے یہ امیدکرناکہ یہ رسول اللہ ﷺکے دین مبین کی حمایت میں بولے گایارسول اللہ ﷺکی ناموس کے لئے کام کرے گا عبث کام ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو دن رات اقامت دین کے لئے کام کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔

جتنی تم دین سے وفاکروگے اتنی عزت ملے گی

حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ قَالَ:نا أَبُو عُمَرَ الضَّرِیرُ قَالَ:نا بِشْرُ بْنُ الْمفَضْلِ قَالَ:نا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ، مَوْلَی غُفْرَۃَ، عَنْ أَیُّوبَ بْنِ خَالِدِ بْنِ صَفْوَانَ الْأَنْصَارِیِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ لِلَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی سَرَایَا مِنَ الْمَلَائِکَۃِ تَحِلُّ وَتَقِفُ عَلَی مَجَالِسِ الذِّکْرِ فِی الْأَرْضِ، فَاغْدُوا وَرُحُوا فِی ذِکْرِ اللَّہِ، وَذَکِّرُوا اللَّہَ بِأَنْفُسِکُمْ، مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَعْلَمَ مَنْزِلَتَہُ عِنْدَ اللَّہِ فَلْیَنْظُرْ کَیْفَ مَنْزِلَۃُ اللَّہِ عِنْدَہُ، فَإِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ یُنْزِلُ الْعَبْدَ مِنْہُ حَیْثُ أَنْزَلَہُ مِنْ نَفْسِہِ۔

ترجمہ :حضرت سیدناجابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص یہ جانناپسندکرے کہ اللہ تعالی کے ہاں اس کامرتبہ کتناہے وہ یہ دیکھے کہ اس کے دل میں اللہ تعالی کی قدرکیسی ہے ؟ کہ بندے کے دل میں جتنی عظمت اللہ تعالی کی ہوتی ہے اللہ تعالی اسی کے لائق اسے اپنے ہاں مرتبہ دیتاہے ۔
(المعجم الأوسط سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۳:۶۷)

اب ہر بندے کو خود غورکرلیناچاہئے کہ وہ اللہ تعالی کے دین متین اوررسول اللہ ﷺکی ناموس کے لئے کتناکام کرتاہے یااس کے ہاں اللہ تعالی کے دین اوررسول اللہ ﷺکی عزت وناموس کامسئلہ کتنااہمیت رکھتاہے اسی حساب سے وہ یہ بھی اندازہ کرلے کہ اس کی عزت بھی اللہ تعالی اوراس کے حبیب ﷺکے ہاں اتنی ہی ہے ۔ اگرتویہ شخص اللہ تعالی کے دین پر حملے ہوتے دیکھ کر خاموش ہوجاتاہے توسمجھ لے کہ اللہ تعالی کے ہاںاس کی کوئی عزت نہیں ہے اورجب کوئی دین پر اوررسول اللہ ﷺکی ناموس پر حملہ کرے توکمینہ پن کامظاہرہ کرتے ہوئے ان کاہمنوابن جائے اورکفارسے پیسے لیکر دین کے خلاف باتیں کرے تویقین کرلے کہ اللہ تعالی اوررسول ﷺکے ہاں اس سے بڑھ کرکوئی ذلیل نہیں ہے ۔
آج لوگ دین پر حملے ہوتے دیکھ کرخاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اورانہیں لوگوں کاگمان ہوتاہے کہ اللہ تعالی کے بڑے قریبی یہی لوگ ہیں العیاذ باللہ ۔ یہی حال یہودونصاری کاہے کہ وہ بھی اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ دشمنی کرکے اوراس کے دین میں تحریفیں کرکے بھی کہتے ہیں کہ ’’ہم اللہ تعالی کے پیارے ہیں ‘‘ ۔
اسی طرح وہ لوگ جن کے سامنے اللہ تعالی کے دین کامذاق اڑایاجائے اوردینی احکامات کالعدم قراردئیے جائیں اوراحکامات شرعیہ کو معطل کردیاجائے مگریہ لوگ پرامن بن کر بیٹھے رہیں اوراس پرمستزاد یہ کہ یہ بھی ان کے ہمنوابن جائیں اگرکوئی پیرہوتواپنی گدی بچانے کے لئے پالیسی باز ی کرتے ہوئے دین دشمنوں کے ساتھ کھڑاہوجائے اوراگرکوئی وظیفہ خورملاہے تووہ بھی دین دشمنوں کے ساتھ کھڑاہوجائے توان کویقین کرلیناچاہئے کہ انہوںنے اللہ تعالی کے دین اوررسول اللہ ﷺکی ناموس کے ساتھ جتنی وفاکی ہے اورجتنی ان کو قدردی ہے ان کی بھی عزت اللہ تعالی اوراس کے رسولﷺ کے ہاں اتنی ہی ہے ۔

پیسے کی خاطردین چھپانے والوں کی ذلت

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْمَوَیْہِ الْجَوْہَرِیُّ، نَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِیُّ، ثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ خِرَاشٍ،عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:عُلَمَاء ُ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ رَجُلَانِ، رَجُلٌ آتَاہُ اللَّہُ عِلْمًا، فَبَذَلَہُ لِلنَّاسِ وَلَمْ یَأْخُذْ عَلَیْہِ طُمْعًا، وَلَمْ یَشْتَرِ بِہِ ثَمَنًا، فَذَلِکَ تَسْتَغْفِرُ لَہُ حِیتَانُ الْبَحْرِ، وَدَوَابُّ الْبَرِّ، وَالطَّیْرُ فِی جَوِّ السَّمَاء ِ، وَیَقْدُمُ عَلَی اللَّہِ سَیِّدًا شَرِیفًا حَتَّی یُرَافِقَ الْمُرْسَلِینَ، وَرَجُلٌ آتَاہُ اللَّہُ عِلْمًا، فَبَخِلَ بِہِ عَنْ عِبَادِ اللَّہِ، وَأَخَذَ عَلَیْہِ طُمْعًا، وَاشْتَرَی بِہِ ثَمَنًا، فَذَاکَ یُلْجَمُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ، وَیُنَادِی مُنَادٍ، ہَذَا الَّذِی آتَاہُ اللَّہُ عِلْمًا فَبَخِلَ بِہِ عَنْ عِبَادِ اللَّہِ، وَأَخَذَ عَلَیْہِ طُمْعًا، وَاشْتَرَی بِہِ ثَمَنًا، وَکَذَلِکَ حَتَّی یَفْرُغَ مِنَ الْحِسَابِ۔

ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا: اس امت کے علماء کے دومردہیں ایک وہ مرد جس کو اللہ تعالی نے علم کی دولت عطافرمائی تواس نے وہ علم لوگوں پر خرچ کیا( یعنی لوگوں کوعلم سے آگاہ کیا)اوراس علم سکھانے پر اس نے لوگوں سے کسی طرح کاکوئی لالچ نہیں رکھااورنہ ہی اس علم کاعوض طلب کیاایسے عالم کے لئے سمندرکی مچھلیاں زمین کے جانوراورہواکے پرندے بخشش کی دعاکرتے ہیں اورجب یہ عالم دین اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضرہوگاتوانتہائی عزت وشرف کے ساتھ حاضرہوگایہاں تک کہ اس کو اللہ تعالی اپنے رسل عظام علیہم السلام کی رفاقت عطافرمائے گا۔اورایک وہ مرد جس کو اللہ تعالی نے علم عطافرمایااس نے اللہ تعالی کے بندوں کو علم دینے میں بخل سے کام لیااوراس علم پر لوگوں سے لالچ بھی رکھااوراس علم کو فروخت کیاتوایسے شخص کو قیامت کے دن دوزخ کی آگ کی لگام ڈالی جائے گی اورمنادی نداء کرے گایہ ہے وہ شخص جس کو اللہ تعالی نے علم عطافرمایاتھااس نے اللہ تعالی کے بندوں کو علم دینے میں بخل سے کام لیااور لالچ کیاکرتااورعلم دیتابھی تھاتواس کاعوض لیاکرتایہی اعلان ہوتارہے گایہاں تک کہ لوگ حساب سے فارغ ہوجائیں ۔

(المعجم الأوسط:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۷:۱۷۱)
اس حدیث شریف پر غورفرمائیں پیسے لیکر تقریرکرنے والے لوگ جب تقریرکرتے ہیں تووہ لوگوں کی پسندکی تقریرکرتے ہیں وہاں دین بیان نہیں کرتے ۔ انہوںنے صرف اورصرف وہی بات کرنی ہے جس سے لوگ راضی ہوجائیںا ورلوگ دین خالص سننے کو تیار نہیں ہیں اورادھرمولوی صاحب نے بھی لوگوں کو راضی کرناہے اوراپنے پیسے بڑھانے ہیں تودین توبیان نہیں ہوسکے گا۔
امام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ کافرمان شریف ہے کہ جب تک تم لوگوں کو راضی کرنے کی فکر میں رہوگے توتم حق بات نہیں کہہ سکتے ۔

معارف ومسائل

(۱)اللہ تعالی نے بنی اسرائیل پر جوانعامات فرمائے ہیں ان میں تورات ، انجیل اورزبور ہیں جورسول اللہ ﷺکی رسالت کے حق ہونے کی تصدیق کرتی ہیں۔
(۲) اس سے معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺکی نبوت کامسئلہ چھپانایارسول اللہ ﷺکی ناموس کامسئلہ چھپانایہودیت کاشیوہ ہے اورجوکوئی یہ حرکت کرے وہ ان کاپیروکارہے۔
(۳) اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتیں یادکروائیں تاکہ وہ رسول اللہ ﷺکی مخالفت سے باز آجائیں ۔
(۴) اللہ تعالی نے اپنی نعمتیں ان کو اس لئے یادکروائیں تاکہ ان کو رسول اللہ ﷺکی مخالفت کرتے ہوئے حیاء آئے ۔
(۵)اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو نعمتیں ان کے آبائواجداد پرہوئیں وہ ان کو یاد کروائی جارہی ہیں ، وہ دراصل ان پر بھی انعام خداوندی ہے کیونکہ اگروہ نہ ہوتے تویہ بھی نہ ہوتے ۔
(۶)اس سے معلوم ہواکہ یہودیت وعیسائیت کو دین حق کے ساتھ نہ ملائو ۔ آج جولوگ نعوذباللہ من ذلک دین حق کویہودیت ونصرانیت کے تابع کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں وہ یہودیوں کی طرح مغضوب علیہم ہیں۔
(۷) اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ رسول اللہ ﷺکی صرف معرفت حاصل کرلیناایمان نہیں ہے بلکہ رسول اللہ ﷺکو اللہ تعالی کاسچارسول مانناایمان ہے ۔
(۸) ان آیات میں خطاب بھی یہودیوں کو ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺکے زمانہ اقدس میں یہ موجود تھے اورمدینہ منور ہ کے اردگرد رہائش پذیر تھے جیسے بنوقریظہ ، بنونضیراوربنوقینقاع وغیرہ یہی لوگ حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام کی اولاد سے تھے۔
(۹) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ یہ لوگ اس وقت بھی نعمتوں سے مالامال تھے اورانہیں سے کفران نعمت بھی بہت زیادہ ہوا۔
(۱۰) اس سے معلوم ہواکہ یہودی علماء صرف ایک صاع جواورچارگزکپڑے پر بک جاتے تھے جیسے آج ہمارے یہاں ہورہاہے کہ مولوی صاحب کو سوسائٹی کی مسجد میں امام لگاکر اس کی تنخواہ ۴۰۰۰۰ مقررکردو پھریہ ساری زندگی حق نہیں بولے گا جو بھی کہیں گے اسی طرح بیان کرے گا۔
(۱۱) اس سے معلوم ہواکہ جولوگ پیسے لے کر دین میں ہیرپھیرکردیں وہ یہودیوں کے سچے پیروکار ہیں۔ اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ایسے بے ضمیرلوگ ہر زمانے میں موجود رہے ہیں جو صرف دنیوی لالچ کی خاطردین فروشی کامکروہ دھندہ کرتے رہے ہیں۔
(۱۲) اس سے معلوم ہواکہ علماء یہود سے جب کوئی خفیہ طور پر پوچھتاکہ تم محمدﷺکے بارے میں کیاکہتے ہوتو اس کو یہی کہتے تھے کہ وہ سچے ہیں تم ایمان قبول کرلو مگر خود اپنے نذرانے جانے کے ڈر سے ایمان نہ لاتے ۔ یہی حال آج کے ان نام نہاد مشائخ اورمولویوں کاہے جو اپنے گھروں میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہﷺکی عزت وناموس کے لئے اوراقامت دین کے لئے کام کررہے ہیں وہ حق پر ہیں مگر جب مجمع میں ہوتے ہیں تو پھراپنے کرم فرمائوں سے ڈر کروہی بات کہتے ہیں جو یہودی کہاکرتے تھے۔

{أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ}
اس آیت کریمہ کایہ مطلب نہیں ہے کہ وہ عالم جو باعمل نہیں ہے وہ کسی کو نیکی کاحکم نہ کرے یاکسی کو حق کارہ نہ بتائے بلکہ اس آیت کامقصد یہ ہے کہ خود بھی ضرورعمل کرے ، عالم ہوکر بے عمل نہ رہے بلکہ باعمل عالم بنے ۔جب وہ دوسروں کو امربالمعروف ونہی عن المنکرکرتاہے تواس کو یہ سوچ لیناچاہئے کہ سب سے پہلے میرانفس امر باالمعروف اورنہی المنکرکامحتاج ہے ۔

عالم دین پردوچیزیںلازم ہیںایک ترک معصیت یعنی خود گناہوں سے بچنااوردوسرایہ ہے کہ دوسروں کومعصیت سے منع کرنااگردونوں فرض نہیں پورے کرسکتاتو دونوں کوچھوڑنابھی جائز نہیں ۔طبیب اگرکسی بیماری میں خود مبتلاء ہوتو اسی مرض کے مریض کاعلاج کرسکتاہے لیکن خود اس کامرض تبھی زائل ہوگاجب وہ خود دوائی کااستعمال کرے گا۔ دوسرے مریض کو دواکابتانابلاشبہ لازمی ہے ۔ کیونکہ آجکل لبرل لوگ بہت زیادہ یہ مسئلہ کھڑاکرتے ہیں کہ ہم نیکی والے کام اس لئے نہیں کرتے کہ علماء کون سے نیک ہیں کیونکہ وہ بھی نیک کام نہیں کرتے توہم کیوں کریں یاوہ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ جب مولوی لوگ خود نیک کام نہیں کرتے تو ہم کو کیوں کہتے ہیں؟
حضرت سیدنامفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں وعظ کہنے کی برائی معلوم نہیں ہوئی بلکہ عمل نہ کرنے کی ، واعظ کوچاہئے کہ وہ وعظ بندنہ کرے بلکہ عمل کرناشروع کردے اگرخود عامل نہ بھی ہوتب بھی دین کی تبلیغ کرتارہے کیونکہ ابھی توایک گناہ کررہاہے اوروعظ بند کرنے پر دوگناہ ایک بدعملی اوردوسرادین کو چھپانا۔
(تفسیر نعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی (۱: ۳۴۷)

رسول اللہ ﷺکافرمان عالی شان
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ:قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، لَا نَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ حَتَّی نَعْمَلَ بِہِ، وَلَا نَنْہَی عَنِ الْمُنْکَرِ حَتَّی نَجْتَنِبَہُ کُلَّہُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:بَلْ مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ، وَإِنْ لَمْ تَعْمَلُوا بِہِ کُلِّہِ، وَانْہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ، وَإِنْ لَمْ تَجْتَنِبُوہُ کُلَّہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ ہم نے رسول اللہ ﷺکی بارگاہ میں عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!کیاہم تب تک نیکی کاحکم نہ کریں جب تک خود مکمل طور پر نیکی پر عمل نہ کریں اورکیاتب تک لوگوں کو گناہوں سے منع نہ کریں جب تک خود گناہوں سے مکمل اجتناب نہ کرلیں ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: بلکہ تم لوگوں کو نیکی کاحکم کرو اگرچہ تم خود مکمل طور پرعمل نہیں کررہے اوراسی طرح لوگوں کو برائی سے منع کروچاہے تم خود مکمل طور پر گناہ سے اجتناب نہیں کررہے ۔
(المعجم الأوسط:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۶:۶۶۵)
حافظ ابن کثیر المتوفی : ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول

فَکُلٌّ مِنَ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَفِعْلِہِ وَاجِبٌ لَا یَسْقُطُ أَحَدُہُمَا بِتَرْکِ الْآخَرِ عَلَی أَصَحِّ قَوْلَیِ الْعُلَمَاء ِ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ وَذَہَبَ بَعْضُہُمْ إِلَی أَنَّ مُرْتَکِبَ الْمَعَاصِی لَا یَنْہَی غَیْرَہُ عَنْہَا وَہَذَا ضَعِیفٌ، وَأَضْعَفُ مِنْہُ تَمَسُّکُہُمْ بِہَذِہِ الْآیَۃِ فَإِنَّہُ لَا حُجَّۃَ لَہُمْ فِیہَا، وَالصَّحِیحُ: أَنَّ الْعَالِمَ یَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَإِنْ لَمْ یَفْعَلْہُ، وَیَنْہَی عَنِ الْمُنْکَرِ وَإِنِ ارْتَکَبَہُ۔

ترجمہ :حافظ ابن کثیر المتوفی : ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ پس نیک کاموں کے کرنے کے لئے کہنابھی واجب ہے اورخود کرنابھی واجب ہے ، ایک کوترک کرنے سے دوسرے کو بھی ترک نہیں کرناچاہئے ، علماء سلف وخلف کاقول یہی ہے گوکہ بعض کاضعیف قول یہ بھی ہے کہ جو شخص گناہ میں مبتلاہے وہ نیکی کاحکم نہ کرے لیکن یہ قول درست نہیں ہے، پھران حضرات کااس آیت سے دلیل پکڑنادرست نہیں ہے بلکہ صحیح یہی ہے جو شخص گناہ میں مبتلا ہووہ بھی نیکی کاحکم کرے اوربرائی سے منع کرے۔اگردونوں کو ترک کرے گاتودوہراگناہگارہوگا، ایک کے ترک پر ایک گناہ اوردوسرے کے ترک پردوہراگناہ لازم آئے گا۔
(تفسیر القرآن العظیم :أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۱:۱۵۲)

امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کافرمان شریف
وَقَالَ الْحَسَنُ لِمُطِّرِفِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ: عِظْ أَصْحَابَکَ، فَقَالَ إِنِّی أَخَافُ أَنْ أَقُولَ مَا لَا أَفْعَلُ، قَالَ: یَرْحَمُکَ اللَّہُ! وَأَیُّنَا یَفْعَلُ مَا یَقُولُ! وَیَوَدُّ الشَّیْطَانُ أَنَّہُ قَدْ ظَفِرَ بِہَذَا، فَلَمْ یَأْمُرْ أَحَدٌ بِمَعْرُوفٍ وَلَمْ یَنْہَ عَنْ مُنْکَرٍ.
ترجمہ :امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا مطرف رضی اللہ عنہ کو کہاکہ لوگوں کو وعظ کہوتوانہوں نے فرمایاکہ میں وہ کہنے سے ڈرتاہوں جو میں خود نہیں کرتا، امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالی تجھ پر رحم فرمائے ہم میں سے کون ہے جو وہی کرتاہے جووہ کہتاہے ۔ شیطان توچاہتاہی یہی ہے کہ وہ اپنے اس فریب میں کامیاب ہوجائے کہ کوئی بھی شخص نیکی کاحکم نہ کرے اوربرائی سے منع نہ کرے ۔
(الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن:أبو زید عبد الرحمن بن محمد بن مخلوف الثعالبی (۵:۴۲۵)

قاضی بیضاوی رحمہ اللہ تعالی کاقول
قُلْنَا قَالَ الْبَیْضَاوِیُّ فِی الْآیَۃِ الْأَخِیرَۃِ وَالْآیَۃُ نَاہِیَۃٌ عَلَی مَنْ یَعِظُ غَیْرَہُ وَلَا یَعِظُ نَفْسَہُ سُوء َ صَنِیعِہِ وَخُبْثَ نَفْسِہِ وَإِنْ فَعَلَہُ فِعْلَ الْجَاہِلِ بِالشَّرْعِ أَوْ الْأَحْمَقِ الْخَالِی عَنْ الْعَقْلِ فَإِنَّ الْجَامِعَ بَیْنَہُمَا عِزُّ شَکِیمَتِہِ وَالْمُرَادُ بِہَا حَثُّ الْوَاعِظِ عَلَی تَزْکِیَۃِ النَّفْسِ وَالْإِقْبَالِ عَلَیْہَا بِالتَّکْمِیلِ لِیَقُومَ فَیُقِیمَ بِہِ لَا مَنْعُ الْفَاسِقِ عَنْ الْوَعْظِ فَإِنَّ الْإِخْلَالَ بِأَحَدِ الْأَمْرَیْنِ الْمَأْمُورِ بِہِمَا لَا یُوجِبُ الْإِخْلَالَ بِالْآخَرِ.
ترجمہ :امام بیضاوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ اس آیت شریفہ سے مقصود یہ ہے کہ عالم کو چاہئے کہ وہ خود بھی نیکی کرے اوراپنے نفس کی اصلاح کرے اورخود اپنے وعظ پر عمل پیراہو، اسے وعظ ونصیحت سے منع کرنامراد نہیں ہے کیونکہ لوگوں کووعظ کہنااورتبلیغ کرنایہ بھی اللہ تعالی کاحکم ہے اوراپنے نفس کی اصلاح کرنابھی اللہ تعالی کاہی حکم ہے اوراسی طرح اپنے آپ کو معاصی سے بچانااورگناہ سے روکنابھی اللہ تعالی کاہی حکم ہے اوردوسروں کو گناہوں سے بچانابھی اللہ تعالی کا حکم ہے ، پس ایک حکم پر عمل نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتاکہ دوسرے حکم کو چھوڑ بیٹھے ، اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی کہے کہ جب ہم غیبت اورحق تلفیاں کرتے ہیں تو نماز کیوں پڑھیں ؟ ظاہرہے کہ ایساشخص سب کے نزدیک بے وقوف ہوگا۔
(بریقۃ محمودیۃ :محمد بن محمد بن مصطفی بن عثمان، أبو سعید الخادمی الحنفی (۳:۲۴۷)

فلاں عالم تونیک عمل نہیں کرتاتومیں کیوں کروں؟
ولانقول : لانعمل بکلامھم حتی یعلموا ہم فان ذلک حجۃ فی قلۃ الدین من قائلہ ولیس لمسلم ان یترک سنۃ نبیہ لاجل کون غیرہ لم یعمل بہا۔ وقدکثرمن اہل ھذاالزمان ھذالقول ، فصرت تامراحدہم بصدقۃ او خیرفیقول : قل ذلک للعالم الفلانی الذی لہ فی مصرکل یوم نحواربعین نصفاوابعین رغیفاً لایعطی درہماً واحداً منہالاعمی ولامسکین ۔ فایاک ان تقول ذلک فیفوتک خیرکثیرواللہ تعالی اعلم ۔
ترجمہ :امام عبدالوہاب الشعرانی المتوفی : ۹۷۳ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہم سے یہ عہد لیاگیاہے کہ ہم یہ بات نہ کریں کہ جب تک وہ علماء کرام اپنے علم پر عمل نہیں کریں گے ہم بھی عمل نہیں کریں گے ، ایسا کہنے والے شخص کے خلاف یہ بات حجت ہے کہ وہ اپنے دین میں ناقص ہے کیونکہ کسی بھی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کے عمل نہ کرنے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺکی سنت کو ترک کرناشروع کردے ۔ ہماے زمانے میں تویہ وبابہت پھیل چکی ہے کہ اگرآپ کسی کو نیکی کاحکم کریں آگے سے کہے گاکہ پہلے جاکر فلاں عالم کو کہوکہ وہ صدقہ کرے کیونکہ اس کے پاس اتنااتناکھاناوراتنے پیسے روزانہ آتے ہیں لیکن وہ کسی مسکین کو یااندھے کو کوئی ایک درہم بھی نہیں دیتاتومیں کیوں دوں۔ امام الشعرانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تم یہ بات کہنے سے بچوکیونکہ یہی بات کرکے آپ بہت سی خیر کی باتوں سے محروم ہوجاتے ہو۔
(البحرالمورود فی المواثیق والعہود لامام عبدالوہاب الشعرانی : ۱۴۶)
امام مالک رضی اللہ عنہ کاقول شریف
وَقَالَ مَالِکٌ عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَمِعْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ یَقُولُ: لَوْ کَانَ الْمَرْء ُ لَا یَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا یَنْہَی عَنِ الْمُنْکَرِ حتی لا یکون فیہ شی، ما أمرأَحَدٌ بِمَعْرُوفٍ وَلَا نَہَی عَنْ مُنْکَرٍ. قَالَ مَالِکٌ: وَصَدَقَ، مَنْ ذَا الَّذِی لَیْسَ فِیہِ شی۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام مالک رضی اللہ عنہ حضرت سیدناربیعہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوںنے سیدناسعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی بھی شخص صرف اس لئے نیکی کاحکم کرنااوربرائی سے منع کرناترک نہ کرے کہ وہ خود گناہ میں مبتلا ہے ۔ امام مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سیدناسعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے درست فرمایاہے کیونکہ کون ہے ایساشخص جو جس میں کوئی نہ کوئی ایسی بات نہ ہو۔ ( یعنی ہر شخص نیکی کاحکم کرتاہے اورخود نیکی مکمل طور پر نہیں کرپاتا۔)
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۱:۳۶۶)
اگریہی بات ہوکہ کوئی بھی شخص اس وقت تک نیکی کاحکم نہ کرے اوربرائی سے منع نہ کرے جب تک وہ خود مکمل طورپر نیکی نہ کرے اورجب تک خود مکمل طور پرگناہ سے رک نہ جائے تو اس طرح یہ شعبہ ہی بے معنی ہوکر رہ جائے گاکیونکہ اس جہاں میں انبیاء کرام علیہم السلام کی ہی جماعت ہے جو معصوم ہے ان کے علاوہ ہر ہر شخص کسی نہ کسی عیب میں مبتلاء ہوتاہے الاماشاء اللہ ۔
ابوالعون محمدبن احمدالحنبلی المتوفی : ۱۱۸۸ھ) کاقول
وَنَحْنُ نَقُولُ یَجِبُ عَلَی کُلِّ مُؤْمِنٍ أَنْ یَکُونَ تَقِیًّا عَدْلًا، وَلَکِنْ فَلَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیِ عَنْ الْمُنْکَرِ. وَلَوْ لَمْ یَعِظْ النَّاسَ إلَّا مَعْصُومٌ أَوْ مَحْفُوظٌ لَتَعَطَّلَ الْأَمْرُ وَالنَّہْیُ مَعَ کَوْنِہِ دِعَامَۃَ الدِّینِ، وَقَدْ قِیلَ:
إذَا لَمْ یَعِظْ النَّاسَ مَنْ ہُوَ مُذْنِبٌ … فَمَنْ یَعِظُ الْعَاصِینَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ
ترجمہ :ابوالعون محمدبن احمدالحنبلی المتوفی : ۱۱۸۸ھ) لکھتے ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ ہرمومن شخص پرواجب ہے کہ وہ متقی وپرہیزگارہو لیکن تمام لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ نیکی کاحکم کریں اوربرائی سے منع کریں ، اگریہ کہاجائے کہ نیکی کاحکم صرف وہی لوگ کریں جو معصوم ہوں یاگناہوں سے محفوظ ہوں تو پھرامر بالمعروف ونہی عن المنکرکاشعبہ ہی معطل ہوکر رہ جائے گاباوجود اس کے کہ یہی شعبہ دین کاستون ہے ۔ اورتحقیق کہاگیاہے کہ جب ایساشخص جو گناہ گار ہوکو نیکی کاحکم کرنے سے منع کردیاجائے توپھرانبیاء کرام علیہم السلام کے بعد کون ایساشخص ہوگاجو نیکی کاحکم کرے گا؟
(غذاء الألباب فی شرح منظومۃ الآداب:شمس الدین، أبو العون محمد السفارینی الحنبلی (۱:۲۱۸)
نیکی کاحکم دینے پرکہیں بھی زجرنہیں فرمائی گئی
اعْلَمْ وَفَّقَکَ اللَّہُ تَعَالَی أَنَّ التَّوْبِیخَ فِی الْآیَۃِ بِسَبَبِ تَرْکِ فِعْلِ الْبِرِّ لَا بِسَبَبِ الْأَمْرِ بِالْبِرِّ وَلِہَذَا ذَمَّ اللَّہُ تَعَالَی فِی کِتَابِہِ قَوْمًا کَانُوا یَأْمُرُونَ بِأَعْمَالِ الْبِرِّ وَلَا یَعْمَلُونَ بِہَا وَبَّخَہُمْ بِہِ تَوْبِیخًا یُتْلَی عَلَی طُولِ الدَّہْرِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَقَالَ:أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ۔الْآیَۃَ.۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمد القرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ اے سننے والے اللہ تعالی تجھے توفیق دے توجان لے کہ اس آیت مبارکہ میں توبیخ اس کے لئے ہے جو نیکی کاکام نہیں کرتااس کے لئے نہیں جو نیکی کاحکم کرتاہے اسی وجہ سے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ان کی مذمت بیان کی ہے جو نیک اعمال کاحکم دیتے ہیں اورخود عمل نہیں کرتے انہیں سخت توبیخ فرمائی ہے جو قیامت تک سارازمانہ پڑھی جائے گی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۱:۳۶۶)

Leave a Reply

%d bloggers like this: