حالت حمل میں تین طلاق کا حکم از علامہ کمال احمد علیمی نظامی

حالت حمل میں تین طلاق کا حکم / Halat e Hamal Men Teen Talaq

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں زید کی بیوی حاملہ ھے زید نے تین طلاق دے دی ۔ اب زید اس کو دوبارہ اپنے نکاح میں لانا چاہتا ھے تواب کیا صورت ہوگی ۔ مکمل جواب عنایت فرمائیں

سائل ۔محمد نوشاد علیمی اشرفی میرانی ناسک مہاراشٹر

الجواب بعون الملک الوھاب

زید نے جب اپنی زوجہ کو حالت حمل میں تین طلاقیں دے دی تو اس کی بیوی پر طلاق مغلظہ پڑ گئی اور وہ اس پر حرام ہوگئی ۔ اب اگر وہ اپنے اس شوہر سے نکاح کرنا چاہتی ہے تو وضع حمل کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرے، بعد تحقق جماع شوہر ثانی اگر اس کو طلاق دے، یا پھر اس کی موت ہوجائے تو پھر وہ عورت عدت گزار کر شوہر اول سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے.

قرآن مجید میں ارشاد ہے :
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُۥ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يَتَرَاجَعَآ إِن ظَنَّآ أَن يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍۢ يَعْلَمُونَ (البقرۃ :، – ٢٣٠ _٢٢٩)
حدیث شریف میں ہے :
عن عائشة- رضي الله عنها- مرفوعاً: «جاءت امرأة رفاعة القرظي إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- فقالت: كنت عند رفاعة القرظي فطلقني فَبَتَّ طلاقي، فتزوجت بعده عبد الرحمن بن الزَّبير، وإنما معه مثل هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فتبسم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وقال: أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى تَذُوقي عُسَيْلَتَهُ، ويذوق عُسَيْلَتَكِ، قالت: وأبو بكر عنده، وخالد بن سعيد بالباب ينتظر أن يؤذن له، فنادى: يا أبا بكر، ألا تسمع إلى هذه: ما تَجْهَرُ به عند رسول الله -صلى الله عليه وسلم-».
[متفق عليه، صحيح مسلم حديث نمبر :٣٥٢٧]

قدوری میں ہے
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة أو اثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها”
(ج: ١، ص: ١٥٩، ط: دار الکتب العلمیۃ)

فتاویٰ رضویہ میں ہے : عورت کوحمل ہونا مانع وقوعِ طلاق نہیں”۔ ( ١٢/ ٣٧٥)
حاصل یہ کہ مذکورہ صورت میں زید کی بیوی زید پر حرام ہوگئی،بغیر حلالہ کے دوبارہ زید کے عقد میں نہیں آسکتی ہے ۔

کتبــــــــــــــــــہ: کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی
25جمادی الاولی 1443ھ 30 دسمبر 2021
الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی

Leave a Reply