حمل گرانا کیسا ہے ؟ مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی

حمل گرانا کیسا ہے ؟

مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔

عرض ھیکہ عورت کو حمل گرانا درست ہے یا نہیں کسی مجبور کی وجہ سے مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
سائل نور احمد اسماعیلی فخر پور بہرائچ شریف یو پی انڈیا۔

الجواب بعون الملک الوھاب

اگر واقعتا مجبوری ہو اور حمل چار مہینے سے کم کا ہو تو اجازت ہے ورنہ ناجائز و گناہ کہ چار مہینے میں جان پڑ جاتی ہے اور جان پڑ جانے کے بعد ساقط کرانا بے گناہ کو قتل کرنا ہے اور اس سے کم کا ہو تو بھی بلا ضرورت گرانا گناہ ہے۔

سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں "جان پڑجانے کے بعد اسقاط حمل حرام ہے، اور ایساکرنے والا گویاقاتل ہے، اور جان پڑنے سے پہلے اگرکوئی ضرورت ہے تو حرج نہیں. (فتاوی رضویہ جدید، ج٢٤، ص٢٠٨، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

اور علامہ صد الشریعہ علیہ الرحمہ”ردالمحتار” کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں: "اسقاط حمل کے لئے دوا استعمال کرنا یا دائی سے حمل ساقط کرانا منع ہے۔ بچہ کی صورت بنی ہو یا نہ بنی ہو دونوں کا ایک حکم ہے، ہاں اگر عذر ہو مثلا عورت کے شیر خوار بچہ ہے اور باپ کے پاس اتنا نہیں کہ دایہ مقرر کرے یا دایہ دستیاب نہیں ہوتی اور حمل سے دودھ خشک ہوجائے گا اور بچہ کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہے تو اس مجبوری سے حمل ساقط کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ اس کے اعضا نہ بنے ہوں اور اس کی مدت ایک سو بیس دن ہے۔ (بہار شریعت، حصہ ١٦، ج٣، ص٥٠٧، عیادت و علاج کا بیان، مکتبۃ المدینہ کراچی)

فتاوی قاضی خان میں ہے:”واذا اسقطت الولد بالعلاج قالوا:ان لم یستبن شئ من خلقہ لا تاثم قال رضی اللہ عنہ: ولا اقول بہ فان المحرم اذاكسر بيض الصيد یکون ضامناً لانه اصل الصيد فلما كان مؤاخَذاً بالجزاء ثمّۃ فلا اقلّ من ان يلحقها اثم ھهنا اذا اسقطت بغير عذرالّالا تأثم اثم القتل“ اھ (فتاوی قاضی خان، ج٣، ص٣١٢، مطبوعہ کراچی)
یعنی عورت نے بذریعہ علاج حمل ساقط کروایا تو بعض نےفرمایا کہ اگر بچے کے اعضاء نہیں بنے تو گناہ گار نہ ہوگی،آپ(یعنی امام قاضی خان)رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں اس کا قائل نہیں کیونکہ جب احرام والا شخص ،شکاری جاندار کے انڈےتوڑ دے تو اس پر تاوان لازم آتا ہے کیونکہ انڈے جاندار کی اصل ہیں تو جب وہاں احرام والےسے انڈے ضائع کرنےپر جنایت کا حکم ہوگا تو یہاں کم از کم اتنا ہوگا کہبلاعذرِ شرعی حمل ساقط کرانے والی عورت گناہگار ہوگی البتہ اسے قتل کا گناہ نہیں ملے گا۔ واللہ تعالیٰ ورسولہ ﷺ اعلم بالصواب۔

کتبہ: محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔
٧ شوال المکرم ١٤٤٤ھ مطابق ٢٨ اپریل ٢٠٢٣ء

Leave a Reply