مرد کے لئے قمیص وغیرہ میں چاندی کے بٹن لگانا کیسا ہے اور کیا ان میں بھی انگوٹھی کی طرح وزن کی قید ہے ؟
سائل : زرغم عطاریہ کراچی
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
مرد کے لئے قمیص وغیرہ میں چاندی کے بٹن لگانا جائز ہیں بشرطیکہ یہ بٹن زنجیر کے ساتھ بندھے ہوئے نہ ہوں ۔
اور ان میں انگوٹھی کی طرح ساڑھے چار ماشہ سے کم وزن ہونے کی شرعاً کوئی قید نہیں ہے ۔
چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے :
"فی السیر الکبیر لاباس بلبس الثوب فی غیر الحرب اذ اکان ازرارہ دیباجا اوذھبا کذا فی الذخیرۃ”
سیرکبیر میں ہے کہ جنگ کے علاوہ ایسا کپڑا پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے جس کے بٹن ریشم یا سونے کے ہوں، ایسے ہی "ذخیرہ” میں ہے۔
(فتاوی عالمگیری، کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع فی اللبس مایکرہ من ذلک و مالایکرہ، جلد 5، صفحہ 332، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
درمختار میں ہے :
"لاباس بعروۃ القمیص وزرہ من الحریر، لانہ تبع۔ و فی التتارخانیۃ عن السیر الکبیر : لاباس بازرار الدیباج و الذھب”
قمیص کا کاج اور اس کے بٹن ریشم کے ہوں تو کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ یہ تابع ہیں، اور تاتارخانیہ میں سیرکبیر سے ہے کہ ریشم اور سونے کے بٹنوں میں حرج نہیں ہے ۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الحظر و الإباحۃ، فصل في اللبس، جلد 9، صفحہ 586، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"زر (بٹن) کے لئے کپڑے میں سلا ہونا ضرور نہیں بلکہ مخیط و مربوط مغروز و مرکوز سب کو عام ہے ولہذا ائمہ لغت میں اس کی تعریف میں صرف لفظ وضع اخذ کیا جس مں اصل تخصیص خیاطت نہیں ۔”
(فتاویٰ رضویہ، جلد 22، صفحہ 117، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید تحریر فرماتے ہیں :
"زنجیروں کے لئے نہ زر کی طرح کوئی نص فقیر نے پایا نہ جواز پر کوئی صاف دلیل بلکہ وہ بظاہر مقصود بنفسہا ہیں۔ نہ زر کی طرح کپڑے کی کوئی غرض ان سے متعلق، نہ علم کی طرح ثوب میں مستہلک کہ تابع ثواب ٹھہریں، نہ ان سے سنگار اور زینت کے سوا کوئی فائدہ مقصود اور وہ زیور زناں سے کمال مشابہ ہیں۔ ان کی ہیئت و حالت بالکل سہاروں کی سی ہے کہ ایک طرف ان کے کنڈوں میں بالیاں پروکر ان کو دونوں جانب سے پیشانی کے بالوں میں لاکر کانٹا ڈال کر ملا دیتے ہیں وہ بھی ان زنجیروں کی طرح لڑیاں ہی ہیں بلکہ ان سے علاوہ تزین ایک فائدہ بھی مقصود ہوتا ہے کہ بالیوں کا بوجھ کانوں پر نہ پڑے یہ انھیں اٹھا کر سہارا دئے رہیں، اسی لئے ان کو "سہارے” کہتے ہیں ۔
اور ان زنجیروں کی لڑیاں سوا زینت کے کوئی فائدہ نہیں دیتیں تو بہ نسبت سہاروں کے ان کی لڑیاں جھومر کی لڑیوں سے اشبہ ہیں اور سہاروں کی طرح یہ بھی داخل ملبوس ہیں بلکہ ان کا صرف زینت کے لئے بالذات مقصود اور کپڑے کی اغراض سے محض بے تعلق و نامستہلک ہونا جھومر کی طرح ان کے اور بھی زیادہ لبس مستقل کا مقتضی ہے ۔ اور ذہب و فضہ میں اصل حرمت ہے تو جب تک صریح دلیل سے جواز ثابت نہ ہو زنجیروں پر عدم جواز ہی کا حکم دیں گے ۔
ہدایہ میں ہے :
"الاصل فیہ التحریم”
اصل اس کی حرمت ہے (یعنی سونے، چاندی میں اصل یہ ہے کہ دونوں مردوں کے لئے حرام ہیں اور عورتوں کے لئے جواز ہے ۔
(الہدایۃ، کتاب الکراھیۃ، فصل فی اللبس، جلد 4، صفحہ 455، مطبع یوسفی لکھنؤ)
تبیین الحقائق میں ہے :
"الفضۃ و الذھب من جنس واحد و الاصل الحرمۃ فیہما”
سونا،چاندی ایک ہی جنس ہیں۔اور ان دونوں میں اصل حرمت ہے۔ (یعنی بلحاظ اصل دونوں حرام ہیں ۔)
(تبیین الحقائق، کتاب الکراھیۃ، فصل فی اللبس، جلد 6، صفحہ 16، المطبعۃ الکبرٰی الامیریۃ بولاق مصر)
(فتاویٰ رضویہ، جلد 22، صفحہ 125، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"سونے چاندی کے بٹن کرتے یا اچکن میں لگانا جائز ہے، جس طرح ریشم کی گھنڈی جائز ہے۔ (درمختار) یعنی جبکہ بٹن بغیر زنجیر ہوں اور اگر زنجیر والے بٹن ہوں تو ان کا استعمال ناجائز ہے کہ یہ زنجیر زیور کے حکم میں ہے، جس کا استعمال مرد کو ناجائز ہے۔”
(بہارشریعت، لباس کا بیان، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 415، مکتبۃ المدینہ کراچی)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی