کیا کچھ ایسے ضابطے ہیں جن سے حرام جانوروں کی تفصیل معلوم ہوسکے؟
جواب:
فقہائے کرام نے مستند دلائل کی روشنی میں درج ذیل ضابطے بیان فرمائے ہیں، جن سے بہت سارے جانوروں کا حکم معلوم ہوسکتا ہے:
(١) پنجہ سے شکار کرنے والا ہر جانور اور پرندہ حرام ہے۔
(٢)نوکیلے دانتوں سے شکار کرنے والا ہر جانور حرام ہے
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"ہماری تمام کتبِ مذہب اور صحاحِ احادیثِ سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہم اجمعین میں صاف صریح حکمِ قطعی کلی بلااستثناء وتخصیص موجود ہے ، کہ ہر پرند اپنے پنجہ سے شکار کرنے والے حرام ہے، جیسے ہر درندہ دانتوں سے شکار کرنے والے۔عالمگیری میں بدائع سے ہے:”لایحلّ کل ذی مخلب من الطیر” ۔یعنی حرام ہے ہر پنچہ والا پرند۔ طحطاوی میں ہے :”لایحل سباع الوحوش والطیر” اھ ملخصا۔درندے وحشی وپرند سب حرام ہیں۔حموی پھر طحطاوی پھر شامی میں ہے :”الدلیل علیہ انہ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نہی عن اکل کل ذی ناب من السباع، وکل ذی مخلب من الطیر”، رواہ وابوداؤدوجماعۃ”*
(فتاوی رضویہ ج٨ص٣٦۵ ، ٣٦٦)
(٣) حشرات الارض(زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے) حرام ہیں۔
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"حشرات الارض حرام ہیں جیسے: چوہا، چھپکلی، گرگٹ، گھونس، سانپ، بچھو، مچھر، پسو، کٹھمل، مکھی، کلی، مینڈک وغیرہا۔”(بہارِ شریعت ح ١۵ ص٣٢٦)*
(۴) غلاظت خور جانور کھانا مکروہ ہے
فتاوی عالم گیری میں ہے:
"وَيُكْرَهُ أَكْلُ لُحُومِ الْإِبِلِ الْجَلَّالَةِ وَهِيَ الَّتِي الْأَغْلَبُ مِنْ أَكْلِهَا النَّجَاسَةُ، لِأَنَّهُ إذَا كَانَ غَالِبُ أَكْلِهَا النَّجَاسَةَ، يَتَغَيَّرُ لَحْمُهَا،وَيُنْتِنُ، فَيُكْرَهُ أَكْلُهُ كَالطَّعَامِ الْمُنْتِنِ "*
(ترجمہ:جلّالہ یعنی:غلاظت خور اونٹ کا کھانا مکروہ ہے، اور یہ (جلّالہ) وہ جانور ہے جو زیادہ تر نجاست کھاتا ہو، کیوں کہ زیادہ تر نجاست کھانے کی وجہ سے اس کا گوشت متغیر اور بد بو دار ہوجاتا ہے، لہذا بد بودار کھانے کی طرح وہ بھی مکروہ ہوگا۔)
(فتاوی عالم گیری)
(۵) مچھلی کے علاوہ پانی میں رہنے والے کسی جاندار کا کھانا جائز نہیں ہے۔
علامہ علاو الدین حصکفی رحمہ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں:
"(وَلَا) يَحِلُّ (حَيَوَانٌ مَائِيٌّ إلَّا السَّمَكُ) (در مختار مع شامی ج ٩ ص۴۴۴)
محمد نظام الدین قادری۔
خادم درس وافتاء: دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔)
بعض جانوروں کا گوشت کھانا حلال اور بعض کا حرام ہے تو اس میں کیا حکمت ہے؟