حائضہ عورت کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا پر فاتحہ درست ہے یا نہیں از علامہ کمال احمد علیمی

السلام علیکم ورحمةاللہ تعالی برکاتہ

عرض اینکہ

حائضہ عورت کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا پر فاتحہ درست ہے یا نہیں جیسا کہ عوام میں مشہور ہے کہ درست نہیں

جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں.

چارہ لگاکر شکار کی گئ مچھلی کا کھانااز روے شرع کیسا ہے۔

آگاہ فرمایں نوازش ہوگی

العارض محمد ابو قحافہ بلرامپور .

الجواب باسم الھادی الی الحق والصواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

١-حائضہ کے ہاتھ سے بنا ہوا کھانا بلا کراہت حلال ہے، یہ بہت ساری احادیث سے ثابت ہے :

حدیث شریف میں ہے:

"عن عروۃ انہ سئل اتخدمنی الحائض او تدنومنی المرأۃ و ھی جنب فقال عروۃ کل ذالک علی ھین و کل ذالک تخدمنی و لیس علی احد فی ذالک بأس اخبرتنی عائشۃ انھا کانت ترجل رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و ھی حائض و رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حینئذ مجاور فی المسجد یدنی لھا رأسہ و ھی فی حجرتھا فترجلہ و ھی حائض "

حضرت عروہ سے پوچھا گیا کہ کیا حائضہ عورت میری خدمت کرسکتی ہے یا جنبی خاتون مجھ سے قریب ہوسکتی ہے؟

حضرت نے فرمایا کہ یہ سب باتیں مجھ پر آسان ہیں، دونوں خدمت کر سکتی ہیں، اس میں کسی کے نزدیک حرج نہیں ہے، مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ آپ حالت حیض میں حضور کو کنگھی کرتی تھیں، اس وقت حضور مسجد میں معتکف ہوتے تھے، حضرت عائشہ سے اپنا سر قریب کردیتے، حضرت عائشہ اپنے حجرے میں رہتی تھیں، تو حالت حیض میں آپ سرکار علیہ السلام کے بالوں میں کنگھی کرتی تھیں.

(بخاری شریف ج:1/ص:43/ باب غسل الحائض راس زوجھا و ترجیلہ من کتاب الحیض)

دوسری حديث میں ہے:

"قَالَ لِي رَسُولُ اﷲِ نَاوِلِينِي الْخُمْرَةَ مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَتْ فَقُلْتُ إِنِّي حَائِضٌ فَقَالَ إِنَّ حَيْضَتَکِ لَيْسَتْ فِي يَدِکِ”

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھ سے حضور نے فرمایا کہ اے عائشہ! میرا کپڑا لاؤ، میں نے عرض کیا کہ میں حالت حیض میں ہوں، حضور نے فرمایا کہ تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے.

(مسلم، الصحيح، 1: 244، رقم: 298، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربی)

تیسری حدیث میں ہے :

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اﷲِ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ نَاوِلِينِي الثَّوْبَ فَقَالَتْ إِنِّي حَائِضٌ فَقَالَ إِنَّ حَيْضَتَکِ لَيْسَتْ فِي يَدِکِ فَنَاوَلَتْهُ”

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں بیٹھا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول علیہ السلام نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ میرا کپڑا لاؤ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا کہ میں حائضہ ہوں، حضور نے فرمایا تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے، تو حضرت عائشہ نے کپڑا دیا.

(مسلم، الصحيح، 1: 245، رقم: 299)

چوتھی حديث شريف میں ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَقِيَهُ فِي بَعْضِ طَرِيقِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ جُنُبٌ فَانْخَنَسْتُ مِنْهُ فَذَهَبَ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ أَيْنَ کُنْتَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ کُنْتُ جُنُبًا فَکَرِهْتُ أَنْ أُجَالِسَکَ وَأَنَا عَلَی غَيْرِ طَهَارَةٍ فَقَالَ سُبْحَانَ اﷲِ إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ”

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حالت جنابت میں ایک راستے میں ان کی ملاقات رسول اللہ علیہ السلام سے ہوئی، تو آپ کترا گئے، جاکر غسل کیا،پھر آئے تو حضور اکرم علیہ السلام نے پوچھا کہ کہاں تھے، عرض کیا کہ میں جنبی تھا اس لیے اس حالت میں آپ کی بارگاہ میں بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا،حضور نے فرمایا :سبحان اللہ، مسلمان ناپاک نہیں ہوتا ہے.

(بخاري، الصحيح، 1: 109، رقم: 279، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)

مذکورہ بالا احادیث شریفہ سے واضح ہوا کہ حائضہ عورت کے ہاتھ میں ظاہری نجاست نہیں ہوتی ہے، اس لیے اس کے ہاتھ سے لگا ہوا کوئی بھی سامان یا پکایا ہوا کھانا بلا کراہت پاک وحلال ہے.

چونکہ ہر پاک وحلال کھانے پر فاتحہ جائز ہے اس لئے حائضہ کے ہاتھ سے پکے ہوئے کھانے پر بھی فاتحہ جائز ہے اور اس کا کھانا بھی درست ہے.

چارہ لگاکر شکار کی گئ مچھلی کا کھانااز روے شرع کیسا ہے؟

٢-زندہ مینڈکی، مچھلی یا کیچوہ وغیرہ کانٹے میں لگا کر شکار کرنا منع ہے، مگر چارہ اگر مردہ ہے، یا گیلا آٹا وغیرہ ہے تو شکار میں کوئی حرج نہیں بشرطے کہ بطور لہو ولعب نہ ہو،چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

"واحل لکم صید البحر وطعامہ متاعا لکم وللسیارۃ”(المائدۃ:٩٦)

مزید ارشاد ہے :

"واذا حللتم فاصطادوا”(المائدۃ :٢)

حدیث شریف میں ہے :

’’ان الله كتب الاحسان على كل شيء، فاذا قتلتم فاحسنوا القتلة واذا ذبحتم فاحسنوا الذبح وليحد احدكم شفرته، فليرح ذبيحته”

اللہ تعالیٰ نے ہر شی کے ساتھ حسن سلوک کو فرض قرار دیا ہے،تو جب تم کسی کو قتل کرو تو اچھے سے کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھے سے کرو،چھری تیز کرو ذبیحہ کو آرام سے ذبح کرو.

(صحیح مسلم، کتاب الصید، باب الامر باحسان الذبح والقتل، جلد 2، صفحہ 152)

امام سرخسی المبسوط میں فرماتے ہیں :

"( كتاب الصيد ) قال الشيخ الإمام الأجل الزاهد شمس الأئمة وفخر الإسلام أبو بكر محمد بن أبي سهل السرخسي رحمه الله إملاءً: اعلم بأن الاصطياد مباح في الكتاب والسنة، أما الكتاب فقوله تعالى: {وإذا حللتم فاصطادوا} وأدنى درجات صفة الأمر الإباحة، وقال الله تعالى: {أحل لكم صيد البحر} الآية، والسنة قوله صلى الله عليه وسلم: {الصيد لمن أخذه}، فعلى هذا بيان أن الاصطياد مباح مشروع؛ لأن الملك حكم مشروع فسببه يكون مشروعاً، وهو نوع اكتساب وانتفاع بما هو مخلوق لذلك فكان مباحاً، ويستوي إن كان الصيد مأكول اللحم أو غير مأكول اللحم لما في اصطياده من تحصيل المنفعة بجلده أو دفع أذاه عن الناس”. (١١/٣٩٨)

امام اہل سنت ،اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں :

’’مچھلی کا شکار کہ جائز طور پر کریں، اس میں زندہ گھینسا پِرونا جائز نہیں ، ہاں مار کر ہو یا تلی وغیرہ بے جان چیز، تو مضائقہ نہیں ۔ ‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد20، صفحہ 343، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

حضور صدرالشریعہ علامہ مفتی حکیم محمد امجد علی علیہ الرحمہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:

’’بعض لوگ مچھلیوں کے شکار میں زندہ مچھلی یازندہ مینڈ کی، کانٹے میں پرو دیتے ہیں اور اس سے بڑی مچھلی پھنساتے ہیں، ایسا کرنا منع ہے کہ اُس جانور کو ایذا دینا ہے، اسی طرح زندہ گھینسا (پتلا لمبا زمینی کیڑا) کانٹے میں پِرو کر شکار کرتے ہیں، یہ بھی منع ہے ‘‘

(بہار شریعت، حصہ 17، جلد 3 ، صفحہ 694، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

مذکورہ حوالہ جات سے پتہ چلا کہ مچھلی کا شکار مردہ مینڈکی، مچھلی وغیرہ یا بے جان چیزوں سے کرنا جائز ہے، تو اس کا کھانا بھی جائز ہوگا.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ : کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی

٢٣ محرم الحرام ١٤٤٣/یکم ستمبر ٢٠٢١

الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی

1 thought on “حائضہ عورت کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا پر فاتحہ درست ہے یا نہیں از علامہ کمال احمد علیمی”

  1. ماشاءاللہ بہت عمدہ
    لا جواب انداز تحریر
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
    اللہ عزوجل خدمت دین کی مزید توفیق بخشے
    اور ایک جہان آپ سے مستفید ومستفیض ہو
    نورالدین احمد علیمی
    خادم دارالعلوم اہلسنت نورالعلوم قصبہ بانسی ضلع سدھارتھ نگر یوپی

    جواب دیں

Leave a Reply