حائضہ عورت کے پکائے ہوئے کھانے پر فاتحہ کرنا کیسا ہے ؟

حائضہ عورت کے پکائے ہوئے کھانے پر فاتحہ کرنا کیسا ہے ؟

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ ایک شخص ( زید) یہ کہتا ہے کہ حائضہ عورت کو برتن چھونا یہاں تک کہ ایسا کھانا بنانا جس پر فاتحہ پڑھنا ہو جائز نہیں ہے ۔ دوسرا بنانے پر پابندی نہیں زید کی بات عورت پر زیادتی ہے، اسلام کے اندر حائضہ عورت کو صرف چند عبادت جیسے نماز ،روزہ ،حج، طواف اور تلاوت قرآن وغیرہ سے منع کیا گیا ہے ہمارے لئے الگ سے کسی چیز کی شمولیت جائز نہیں ہے ۔
مزید یہ کہتا ہے کہ چونکہ یہ کھانا اولیاء اللہ کا فاتحہ کے لیے بنایا گیا اس لیے بہتر ہے کہ حائضہ عورت نہ بنائے ان کا بنانا مکروہ ہے۔ برائے کرم از روئے شرع یہ بتایا جائے کہ ان دونوں میں سے کس کی بات مانی جائے واضح ہو کہ یہ دونوں سنی صحیح العقیدہ ہے؟

الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

زيد نے غلط کہا ،اسلام پر زیادتی کی ، حائضہ عورت کو کھانا پکانے سے قرآن و حدیث میں کہیں ممانعت نہیں کی گئی ہے، بکر کا قول صحیح و درست ہے حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا” إن حيضتك ليست في يدك ” اے عائشہ تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ۔ (مشکوۃ ص: 56 باب الحیض )

اس کا کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ تیرا ہاتھ پاک ہے ،صحیح مسلم میں انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی فرماتے ہیں، کہ یہودیوں میں جب کسی عورت کو حیض آتا تو اسے نہ اپنے ساتھ کھلاتے، نہ اپنے ساتھ گھروں میں رکھتے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت” ويسئلونك عن المحيض” نازل فرمائی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جماع کے سوا ہر شی کرو اس کی خبر یہود کو پہنچی تو کہنے لگے یہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) ہماری ہر بات کا خلاف کرنا چاہتے ہیں، اسید بن مضر ، اور عباس بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آکر عرض کی یہود ایسا ایسا کہتے ہیں، تو کیا ہم ان سے جماع نہ کریں ،  ( کہ پوری مخالفت ہوجائے)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے مبارک متغیر ہو گیا یہاں تک کہ ہم کو گمان ہوا کہ ان دونوں پر غضب فرمایا،وہ دونوں چلے گئے اور ان کے بعد دودھ کا ہدیہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ۔ حضور نے آدمی بھیج کر ان کو بلوایا اور دودھ پلایا تو وہ سمجھے کہ حضور نے ان پر غضب نہیں فرمایا ۔

صحیح مسلم میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں: میں زمانہ حیض میں پانی پیتی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتی تو جس جگہ میرا منہ لگا ہوتا حضور وہی دہن مبارک رکھ کر پیتے اور حالت حیض میں ہڈی سے گوشت نوچ کر کھاتی پھر حضور کو دے دیتی حضور اپنا دہن شریف اس جگہ پر رکھتے جہاں میرا منہ لگا تھا۔

یہاں سے معلوم ہوا زید نے جو بات کہی وہ یہودیوں کا مذہب ہے اور مسلمانوں کا مذہب وہ ہے جو ان حدیثوں سے آشکارا ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جماع کے سوا ہر چیز کی اجازت دے دی تو اس میں کھانا پکانا بھی شامل ہے چاہے وہ کھانا اولیاء اللہ کی نیاز فاتحہ کے لئے تیار کیا جائے یا خود کھانے یا دوسروں کو کھلانے کے لیے ، اس میں شرعاً کوئی کراہت نہیں ہے۔ زید پر فرض ہے کہ فوراً اس برے اعتقاد سے توبہ کرے اور آئندہ بچے ۔
حیض والی عورت کے لیے طلاق کی عدت تین حیض ہے ، یعنی تین بار حیض آکر گزر جائے۔۔

والله تعالى اعلم بالصواب

کتبـــــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارک پور 

Leave a Reply