جنابت اور حیض ونفاس کی حالت ميں درود شريف اور ذکر وغیرہ پڑهنا كيسا ہے ؟

جنابت اور حیض ونفاس کی حالت ميں قرآن کی تلاوت درود شريف اور ذکر وغیرہ پڑهنا

سوال : جنابت اور حیض ونفاس کی حالت ميں درود شريف اور ذکر وغیرہ پڑهنا كيسا ہے ؟

سائل : محمد فیضان اشرف ناگپور

الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

جنابت یعنی غسل فرض ہونے اور حیض ونفاس کی حالت میں دوردِپاک , اوراد ، دعائیں اور اذکار پڑھنے میں کوئی حرج و ممانعت نہیں ہے.
چنانچہ شرح وقایہ میں ہے کہ :
"وسائرالادعیةوالاذکارلاباس بها”
یعنی تمام قسم کی دعائیں اور اذکار پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ”
( شرح وقایہ ج 116 )

اور فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ویجوز للجنب و الحائض الدعوات و جواب الاذان و نحو ذلک”
یعنی جنبی اورحائضہ کیلئے دعائیں پڑھنا اور اذان کا جواب دینا اور اس جیسے اذکار پڑھنا جائز ہے.”

(فتاوی عالمگیری کتاب الطھارۃ الفصل الرابع فی احکام الحیض و النفاس و الاستحاضة جلد 1 صفحہ 38 )

البتہ ان کے لئے مستحب اور بہتر ہے کہ وہ اذکار ، اوراد اور درودپاک وغیرہ پڑھنے کے وقت وضو کرلیں یاکم ازکم کلی کرلیں۔

چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے کہ:
” ( ولایکرہ النظر الیه ) ای القرآن ( لجنب و حائض و نفساء ) لان الجنابة لاتحل العین (ک) مالا تکرہ (ادعیة ) ای تحریما و الا فالوضوء لمطلق الذکر مندوب و ترکہ خلاف الاولی و هو مرجع الکراهة التنزیهیة”

یعنی جنبی و حیض و نفاس والی عورت کیلئے قرآن مجید کو دیکھنے میں کوئی کراہت نہیں کیونکہ جنابت و ناپاکی آنکھ میں سرایت نہیں کرتی جیسا کہ دعاؤں کا پڑھنا مکروہ تحریمی نہیں ہے البتہ مطلق ذکر کیلئے وضو کرلینا مستحب ہے اور بے وضو پڑھنا خلاف اولی اور مکروہ تنزیہی ہے ”
(درمختار معہ ردالمحتار جلد 1 صفحہ 122 )

اسی طرح نماز کے احکام میں ہے :
"جن پرغسل فرض ہو ان کو درودشریف اور دعائیں پڑھنے میں حرج نہیں مگر بہتر یہ ہے کہ وضو یا کلی کرکے پڑھیں. ”

دورانِ حیض (ماہ واری) عورت کے لیے قرآنِ کریم کی تلاوت منع ہے، البتہ تعلیمی ضرورت کی وجہ سے ایک آیت کی مقدار سے کم پڑھ کرسانس چھوڑ دینے کی حد تک فقہاءِ کرام نے جواز لکھا ہے؛ لہٰذا معلمہ طالبات کو پڑھائے یا خود طالبہ پڑھے، کلمہ کلمہ، لفظ لفظ الگ الگ کرکے پڑھے، یعنی ہجے کرکے پڑھیں، مثلا: الحمد ۔۔۔۔ للہ ۔۔۔۔ رب ۔۔۔ العالمین، مخصوص ایام میں خواتین کے لیے ہجے کرکے پڑھنا جائز ہے، البتہ مکمل آیت کا پڑھنا جائز نہیں، نیز یہ حکم میں پڑھانے والی اور پڑھنے والی دونوں کے لیے ہے۔

یہ یاد رہے کہ قرآن مجید کو براہِ راست بغیر غلاف کے ہاتھ لگانا اس حالت میں جائز نہیں، ہاں قاعدہ اور نماز کی کتاب وغیرہ کو ہاتھ لگایا جاسکتا ہے۔

اگر معلمہ ایام سے ہو تو وہ بچیوں سے سبق اور منزل وغیرہ زبانی سن سکتی ہے، اسی طرح مصحف بچی پکڑے اور معلمہ اس میں دیکھ کر سنے اس کی بھی گنجائش ہے۔ اسی طرح اگر حفظ بھولنے کا اندیشہ ہو تو فقہاءِ کرام نے یہ صورت لکھی ہے کہ حافظہ کسی پاک کپڑے وغیرہ سے مصحف کو پکڑ کر اس میں دیکھ کر دل دل میں دہراتی جائے، زبان سے بالکل بھی تلفظ نہ کرے، اس کی بھی گنجائش ہے، اور اس سے حفظ کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَإِذَا حَاضَتْ الْمُعَلِّمَةُ فَيَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُعَلِّمَ الصِّبْيَانَ كَلِمَةً كَلِمَةً وَتَقْطَعُ بَيْنَ الْكَلِمَتَيْنِ، وَلَايُكْرَهُ لَهَا التَّهَجِّي بِالْقُرْآنِ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ”. (الْفَصْلُ الرَّابِعُ فِي أَحْكَامِ الْحَيْضِ وَالنِّفَاسِ وَالِاسْتِحَاضَةِ،الْأَحْكَامُ الَّتِي يَشْتَرِكُ فِيهَا الْحَيْضُ وَالنِّفَاسُ ثَمَانِيَةٌ، ١/ ٣٨)
حاشية رد المحتار على الدر المختار (1/ 293)

’’( وقراءة قرآن ) أي ولو دون آية من المركبات لا المفردات؛ لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمةً كلمةً، كما قدمناه وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبور … (ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف؛ فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه، وقال بعضهم: يجوز، وهذا أقرب إلى القياس، والمنع أقرب إلى التعظيم، كما في البحر، أي والصحيح المنع كما نذكره، ومثل القرآن سائر الكتب السماوية كما قدمناه عن القهستاني وغيره .

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم ۔

کتبـــــہ : مفتی محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں

Leave a Reply