حافظ ابن کثیر کا عقیدہ کیا تھا
سوال : حضور والا سے عرض یہ ہے البدایہ و النھایہ کے مصنف حافظ ابن کثیر کا عقیدہ کیا تھا اور انکی تفسیر ابن کثیر اور البدایہ و النھایہ قابل اعتماد کتاب ہیں کہ نہیں ۔
برائے مہربانی مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں میں آپ کا مشکور ہوں گا–
سائل:- محمد توصیف رضا ( کالپی شریف )
باسمہ تعالیٰ وتقدس
الجواب (1)۔ اللھم ھدایت الحق والصواب
صاحب ‘ البدایہ و النھایہ، علامہ امام حافظ ابنِ کثیر علیہ الرحمہ بہت ہی متبحر اور جید عالم دین تھے ۔ عالم اسلام کے معروف محدث، مفسر، فقیہ، محقق اور مورخ تھے۔ پورا نام اسماعیل بن عمر بن کثیر، لقب عماد الدین اور عرفیت ابن کثیر ہے۔ آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ ان کے والد شیخ ابو حفص شہاب الدین عمر اپنی بستی کے خطیب تھے اور بڑے بھائی شیخ عبد الوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہہ تھے ۔
گرجیکہ آپ ایک ممتاز عالمِ دین علم کا کوہِ نور اور ایک قیمتی ہیرا تھے آپ کے معاصر علماء حافظ ابنِ حجر و ابنِ حبیب وغیرہ نے آپ محاسن و توصیف بیان کئے ہیں۔
آپ کی قابلیت ہی کے وجہ سے انہیں وہابیہ دیابنہ نے اپنا اور غیر مقلد و شیعہ نے اپنا امام بنالیا اور سب یہی کہنے لگے کہ یہ ہمارے امام ہیں۔
پر صحیح معنوں میں ان بد عقیدوں اور باطل پرستوں کے مکتبِ فکر اور عقائد و نظریات سے آپ کا کوئی تعلق نہ تھا۔ آپ ایک سنی صحیح العقیدہ اور حق پرست عالم تھے ۔ بسیار تلاش و تتبع کے بعد بھی کوئی ایسی بات آپ کے متعلق نہ مل سکی جس سے یہ ظاہر ہو کہ آپ صحیح العقیدہ نہ تھے۔ بلکہ جو بھی باتیں آپ کی مکتوبات و مخطوطات سے ملتی ہیں ان سب سے آپ کا صحیح العقیدہ ہونا ہی معلوم ہوتاہے ۔مثلاً
میلاد نگاروں میں صاحبِ ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘۔ اِمام حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر۔ کا نام بھی شامل ہے۔ اِمام ابن کثیر نے ’’ذکر مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ورضاعہ‘‘ کے نام سے میلاد شریف کے موضوع پر کتاب لکھی ہے۔
اور اپنی شاہکار تصنیف ‘البدایہ و النھایہ، میں سلطان الاولیاء حضور سید شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی بغدادی رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل و مناقب اور سیرتِ طیبہ کا بھی تذکرہ کیا ہے ۔ چناچہ آپ کی ان مصروفیات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”آپ نے بغداد آنے کے بعد ابوسعید مخرمی حنبلی ؒ سے حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ ابوسعید مخرمی کا ایک مدرسہ تھا جو انہوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کے سپرد کردیا۔ اس مدرسہ میں شیخ لوگوں کے ساتھ وعظ و نصیحت اور تعلیم و تربیت کی مجالس منعقدکرتے اور لوگ آپ سے بڑے مستفید ہوتے۔” (البدایہ والنھایہ:۱۲؍۲۵۲)
اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ کہ کیا کوئی بدعقیدہ دشمن اولیاء کسی ولی اللہ کی تعریف کرسکتا ہے ، یقیناً کبھی نہیں کرسکتا۔ اور آپ اس طرح حضور محی الملت والدین شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ وہابی دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق نہ رکھتے تھے۔
اور اہلِ تشیع کا بھی رد بلیغ آپ نے اپنی تفسیر ابنِ کثیر میں فرمائی ہے ۔ چنانچہ آیتِ مقدسہ
(وَالسَّابِقُونَ الْـأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْـأَنْصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِّإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَہَا الْـأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا ذَالِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ)(سورۃ التوبۃ : ١٠٠)
”ایمان میں سبقت و اولیت حاصل کرنے والے مہاجرین و انصار اور احسان کے ساتھ ان کی پیرو ی کرنے والوں سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ ابدالاباد تک ان کے لیے ایسے باغات کا انتظام کیا ہے، جن کے نیچے دریا جاری ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔”
کے تحت تفسیر فرماتے ہیں :
”اللہ عظیم و کریم نے اس آیت کریمہ میں خبر دی ہے کہ وہ ایمان میں سبقت و اولیت حاصل کرنے والے مہاجرین و انصار اور احسان کے ساتھ ان کی پیرو ی کرنے والوں سے راضی ہو گیا ہے۔ افسوس اس پر جو تمام صحابہ کرام سے بغض رکھتا ہے اور انہیں سب و شتم کا نشانہ بناتا ہے یا بعض نفوس قدسیہ پر ہی اکتفا کرتا ہے۔ خاص کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کے سردار، افضل الصحابہ اور پسند یدہ ترین ہستی میری مراد صدیق اکبر، خلیفہئ اعظم ابو بکربن ابو قحافہ رضی اللہ عنہما کو شیعہ کا ایک ذلیل و قبیح گروہ اپنے بغض و عناد اور سب و شتم کا نشانہ بناتا ہے۔ العیاذ باللہ! اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی عقلیں ٹیڑی ہیں اور دل الٹے ہیں۔ اللہ کی پسندیدہ شخصیات سے بغض رکھتے ہیں، ان کا قرآن کیسے ایمان ہو سکتا ہے؟ اہل سنت تو ہر اس سے راضی ہے، جن سے اللہ راضی ہے۔ ہر اس کو برا کہتے ہیں، جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے برا کہا، اللہ کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہیں۔ یہ متبع سنت ہیں، بدعتی نہیں، قرآن و حدیث کی پیروی کرتے ہیں، بدعات جاری نہیںکرتے۔ اس بنا پر یہ اللہ کا گروہ ہیں، فوز و فلاح ان کا مقدر ہے اور یہی اللہ کے مومن بندے ہیں۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٤/٢٠٣)
اور فرماتے ہیں :
”روافض مقتل حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق ذکر کرتے ہیں کہ اس روز جس پتھر کو بھی الٹا کیا جاتا، نیچے تازہ خون نظر آتا، سورج بے نور ہو گیا، افق زرد ہو گیا اور پتھروں کی بارش ہونے لگی۔ یہ تمام باتیں بے بنیاد ہیں۔ یقینا یہ شیعہ کا لچر پن اور جھوٹ ہے۔ تاکہ اس واقعہ کو ہوا دیں، اگرچہ یہ سانحہ بہت عظیم ہے، لیکن جو جھوٹ انہوں نے گھڑ لیے ہیں، وہ تو وقوع پذیر نہیں ہوا۔ جب کہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ تو اس سے بڑا سانحہ ہے، لیکن ان کے ذکر کردہ جھوٹ موٹ کا واقع ہونا ثابت نہیں۔ ان کے والد گرامی سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، جو بالاجماع ان سے افضل ہیں، بھی رتبہ شہادت نوش فرما گئے، لیکن جو شیعہ نے ذکر کیا وہ تو اس دن بھی واقع نہیں ہوا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھ لیجئے کہ جو محصور اور مظلوم شہید کر دیے گئے، ان کے یوم شہادت ان میں سے کچھ بھی رونما نہیں ہوا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ محراب میں دوران نماز فجر منصب شہادت پر فائز ہوئے، یوں لگا جیسے مسلمانوں پر اس سے بڑی کبھی مصیبت آئی ہی نہیں، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سب کو چھوڑیے دنیا و آخر میں پو ری انسانیت کے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات والے دن وہ کچھ نہیں ہوا، جو شیعہ یوم شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے دن بیان کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ کے وفات والے دن سورج گرہن لگ گیا، لوگوں نے کہا : ابراہیم کی وفات نے سورج کو بھی بے نور کر دیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف پڑھا کر خطبہ دیا اور فرمایا : قمرین (سورج اور چاند) کو کسی کی موت یا حیات سے گرہن نہیں لگتا۔
اور سب بڑی واضح اور روشن دلیل علامہ امام ابنِ کثیر کے صحیح العقیدہ ہونے کی یہ ہے کہ امامِ اہلسنت مجدد دین و ملت سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے انہیں امام، محدث، فقیہ و محقق فرمایا ہے اور یہی نہیں بلکہ اکابر محدثین و محققین سے شمار کیا ہے ۔ اور یہ بات بتانے کی نہیں کہ اعلیٰ حضرت جیسی محتاط و عظیم شخصیت کسی بد دین بد مذہب بدعقیدہ کی نہ تو کبھی تعریف کرسکتی ہے اور نہ ہی آپ اس کے قول و عمل کو کبھی دلیل بنا سکتے ہیں ۔ چناچہ آپ فتاویٰ رضویہ شریف میں امام ابنِ کثیر کا قول متعدد مقامات پر نقل فرمائے ہیں۔ بارہویں جلد، ص25-28۔ چھٹی جلد ،ص179پر ایک نہیں چار جگہ نقل فرمایا ہے۔ فقیر کو فقط یہی دو جلدیں دیکھنے کا اتفاق ہوا مگر اس کے علاوہ اور بھی جلدوں میں حوالے ہوسکتے ہیں۔
البدایہ والنہایہ
تاریخ اسلام کی یہ مشہور و معروف کتاب عماد الدين ابو الفداء اسماعيل بن عمر بن كثير بن ضو بن كثير قرشی دمشقی شافعی المعروف ابن کثیر کی تصنیف ہے۔ اس میں 767ھ / 1357ء تک کے واقعات جمع ہیں۔ حافظ ابن کثیر کی یہ تاریخ علماء میں بڑی مستند تصور کی جاتی ہے۔ اس میں عام تاریخی واقعات کے علاوہ مشاہیر، علما و عرفاء کے حالات بھی عمدگی سے بیان کیے گئے ہیں۔
علمائے اہلسنت کے نزدیک یہ کتاب بڑی ہی معتبر و مستند مانی جاتی ہے اور اس سے استفادہ کا معمول بھی اب تک ما بین العلماء جاری و ساری ہے۔
تفسیر ابنِ کثیر
علامہ ابن کثیر کی بلند پایۂ تفسیر قرآن کا مکمل ترجمہ تفسیر ابن کثیر, اردو, جس کو ہر زمانہ کے علماء کرام کی قبولیت کا شرف حاصل ہے. تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ سب سے زیادہ قرآن کریم کو بطریق سلف صالحین سمجھانے والی تفسیر تفسیر ابن کثیر ہے اور اس کے بعد تمام عربی و اردو تفاسیر اسی سے ماخوذ ہیں۔
علامہ حافظ ابن کثیر نے آیات کی تفسیر کرتے ہوئے تفسیر القرآن بالقرآن کے انداز کوبھی سامنے رکھا ہے۔ وہ قرآنی آیات کی تشریح میں دوسری آیات سے بھی استدال کرتے ہیں۔ ،یہ ’’تفسیر ابن جریر‘‘ سے مستفاد اور گویا اس کا مصفی ایڈیشن ہے، محدثین کی تفاسیر میں روایت و درایت کے اعتبار سے کوئی اس تفسیر کے مقابل نہیں، اگر کوئی کتاب کسی دوسری کتاب سے مستغنی کرنے والی ہے تو وہ تفسیر ابن کثیر ہے جو تفسیر ابن جریر سے مستغنی کرنے والی ہے۔
یہاں پر ایک بات بتا دینا نہایت ضروری سمجھتا ہوں کہ تفسیر ابنِ کثیر زیادہ تر مستفاد از ‘تفسیر جریر، ہے ۔ اور تفسیر جریر اکابر علماء میں بہت ہی معتبر مانی گئی ہے حتی کہ سیدی اعلیحضرت محدث بریلوی علیہ الرحمة والرضوان نے فتاویٰ رضویہ میں زیادہ تر اس کا حوالہ نقل فرمایا ہے ۔ اب اس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے ہے کہ تفسیر ابنِ کثیر جو تفسیر جریر سے مستفاد ہے اس کی اہمیت و قدر و منزلت کیا ہوسکتی ہے۔
واللہ تعالیٰ و رسولہ الاعلیٰ اعلم و اتم بالصواب ۔
کتبہ✍ العبد العاصی محمد امیر حسن امجدی رضوی
خادم الافتا و التدریس الجامعة الصابریہ الرضویہ پریم نگر نگرہ جھانسی یوپی
یہ تو ابن تیمیہ کیا شاگرد تھا