ایک ساتھ تین طلاقوں کا کیا حکم ہے ؟ مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

ایک ساتھ تین طلاقوں کا کیا حکم ہے ؟

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سائل عامر اقبال نے انتہائی غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو کہا :

"تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے۔”

اب اس بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے ؟

یہ الفاظ کہتے ہوئے سائل سخت غصے میں تھا اور اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا، پاس گواہ بھی تھے، وہ بھی کہتے ہیں کہ عامر اقبال انتہائی غصے میں تھا اور اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، انتہائی طیش میں آ کر اس نے یہ کلمات کہہ ڈالے۔

قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ مذکورہ کا حکم بیان فرمائیں ؟

سائل : عامر اقبال اور عطاء محمد ساکن عیسیٰ خیل، ضلع میانوالی

بسمہ تعالیٰ

الجواب بعون الملک الوھّاب

اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

اگر سائل (عامر اقبال) اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ طلاق دیتے وقت وہ جنون (پاگل پن) کی حالت میں تھا اور کچھ پتہ چلا کہ اس نے کیا کہا ہے اور اُس کے دعویٰ کی گواہی ایسے گواہ دیں جو کہ عادل(یعنی متقی و پابندِ شرع) ہوں تو پھر سائل (عامر اقبال) کا دعویٰ مان لیا جائے گا اور طلاق واقع نہ ہوگی اور اگر وہ اپنے اس دعویٰ پر عادل گواہوں کی گواہی نہ دے سکے تو اس صورت اگر یہ بات لوگوں میں معلوم و مشہور ہو کہ اسے (عامر اقبال کو) جب غصّہ آتا ہے تو یہ عقل سے باہر ہو جاتا ہے اور پاگلوں والی حرکتیں اس سے صادر ہوتی ہیں تو اس حالت میں اگر یہ (عامر اقبال) قسم کھا کر کہہ دے کہ اس وقت میرا یہی حال تھا اور میں عقل سے بالکل خالی تھا اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں تو پھر بھی اس (عامر اقبال) کے دعویٰ کو قبول کر لیں گے اور طلاق کا حکم نہ دیں گے اور اگر یہ (عامر اقبال) جُھوٹی قسم کھائے گا تو اس کا وبال خود اسی (عامر اقبال) کے سر پر ہوگا ۔

اور اگر ان دونوں طریقوں سے بوقتِ طلاق اس (عامر اقبال) کا جنون ثابت نہ ہو سکا تو پھر اس (عامر اقبال) کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور اب وہ (عامر اقبال) اس سے حلالہ شرعیہ کے بغیر نکاح نہیں کرسکتا ۔

چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

"کل طلاق جائز، الا طلاق المعتوہ المغلوب علی عقلہ”

یعنی ہر طلاق واقع ہوجاتی ہے سوائے مدحوش جس کی عقل مغلوب ہو۔

(سنن الترمذی، کتاب الطلاق و اللعان، باب ما جاء فی طلاق المعتوہ، صفحہ 311، رقم الحدیث : 1191، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

"رفع القلم، عن الصبی حتی یبلغ، و المجنون حتی یفیق، والنائم حتی یستیقظ”

یعنی قلم اٹھا لیا گیا ہے بچے سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے اور پاگل سے یہاں تک کہ وہ افاقے (ہوش) میں آجائے اور سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے۔

(معرفۃ السنن و الآثار، کتاب الخلع و الطلاق، جلد 11، صفحہ 76، جامعۃ الدراسات الاسلامیہ، کراچی)

حضرت ابوبکر بن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ صحیح سند کے ساتھ "مصنف ابن ابی شیبہ” میں روایت کرتے ہیں :

"حدثنا ابو بکر قال : نا وکیع، عن الاعمش، عن ابراھیم، عن عابس بن ربیعۃ، عن علی، قال : کل طلاق جائز الا طلاق المعتوہ”

یعنی حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم نے فرمایا : ہر طلاق جائز ہے سوائے پاگل کے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الطلاق، ماقالوا : فی طلاق المعتوہ، جلد 4، صفحہ 72، مکتبۃ الرشد، الریاض)

عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین شامی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ "خیریہ” کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں :

"الدھش من اقسام فلایقع و اذا کان یعتادہ بان عرج ھذا الدھش مرّۃ یصدق بلا برھان”

مدہوشی، جنون کی قسم ہے۔لہذا طلاق نہ ہوگی، جب عادت بن چکی ہو اور ایک مرتبہ مدہوشی معلوم ہو چکی ہو تو خاوند کی بات بلادلیل مان لی جائے گی۔

(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الطلاق، جلد 2، صفحہ 427، داراحیاء التراث العربی بیروت)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"غصّہ مانع وقوعِ طلاق نہیں بلکہ اکثر وہی طلاق پر حامل ہوتا ہے، تو اسے مانع قرار دینا گویا حکمِ طلاق کا راسًا ابطال ہے، ہاں اگر شدّتِ غیظ و جوشِ غضب اس حد کو پہنچ جائے کہ اس سے عقل زائل ہو جائے، خبر نہ رہے، کیا کہتا ہوں زبان سے کیا نکلتا ہے، تو بیشک ایسی حالت کی طلاق ہرگز واقع نہ ہوگی، پس صورتِ مستفسرہ میں اگر زید اس حالت تک نہ پہنچا تھا تو صرف غصّہ ہونا اسے مفید نہیں ۔

اور اگر وہ دعوٰی کرے کہ اس تحریر کے وقت میرا غصہ ایسی ہی حالت کو پہنچا ہوا تھا کہ میری عقل بالکل زائل ہوگئی تھی اور مجھے نہ معلوم تھا کہ میں کیا کہتا ہوں کیا میرے منہ سے نکلتا ہے، تو اطمینانِ ہندہ کے لئے اس کا ثبوت گواہانِ عادل سے دے کہ اگرچہ عندﷲ وہ اپنے بیان میں سچا ہو اور اسے عورت کے پاس جانا دیانتًا روا ہو مگر عورت کو بے ثبوت بقائے نکاح اس کے پاس رہنا ہرگز حلال نہیں ہوسکتا، تو ضرور ہوا کہ زید اپنے دعوٰی پر گواہ دےیا اگر معلوم و معروف ہے کہ اسے پہلے بھی کبھی اس کی ایسی حالت ہو گئی تھی تو گواہوں کی کچھ حاجت نہیں مجرد قسم کھا کر بیان کرے ورنہ مقبول نہیں۔”

(فتاویٰ رضویہ، جلد 12، صفحہ 383، 384، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :

"غضب اگر واقعی اس درجہ شدّت پر ہو کہ حدِّ جنون تک پہنچا دے تو طلاق نہ ہوگی اور یہ کہ غضب اس شدت پر تھا، یا تو گواہانِ عادل سے ثابت ہو یا وہ اس کا دعوٰی کرے اور اس کی یہ عادت معہود و معروف ہو تو قسم کے ساتھ اس کا قول مان لیں گے ورنہ مجرد دعوٰی معتبر نہیں، یوں تو ہر شخص اس کا ادعا کرے اور غصّہ کی طلاق واقع ہی نہ ہو حالانکہ غالبًا طلاق نہیں ہوتی مگر بحالتِ غضب ۔ "

(فتاویٰ رضویہ، جلد 12، صفحہ 378، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"سرسام و برسام (بیماریوں کے نام) یا کسی اور بیماری میں جس میں عقل جاتی رہی یا غشی کی حالت میں یا سوتے میں طلاق دے دی تو واقع نہ ہوگی۔ یوہیں اگر غصہ اس حد کا ہو کہ عقل جاتی رہے تو واقع نہ ہوگی۔ (درمختار ، ردالمحتار) آج کل اکثر لوگ طلاق دے بیٹھتے ہیں بعد کو افسوس کرتے اور طرح طرح کے حیلہ سے یہ فتویٰ لیا چاہتے ہیں کہ طلاق واقع نہ ہو۔ ایک عذر اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ غصہ میں طلاق دی تھی ۔

مفتی کو چاہیے یہ امر ملحوظ رکھے کہ مطلقاً غصہ کا اعتبار نہیں۔ معمولی غصہ میں طلاق ہو جاتی ہے۔ وہ صورت کہ عقل غصہ سے جاتی رہے بہت نادر ہے، لہٰذا جب تک اس کا ثبوت نہ ہو، محض سائل کے کہہ دینے پر اعتماد نہ کرے ۔”

(بہارشریعت، جلد 2، حصہ 8، صفحہ 113، مکتبۃ المدینہ کراچی)

حلالہ شرعیہ کی صورت یہ ہے کہ طلاق کی عدت پوری ہو جانے کے بعد وہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاحِ صحیح کرے اور دوسرا شوہر اس سے صحبت کرنے کے بعد اسے طلاق دیدے یا دوسرا شوہر صحبت کرنے کے بعد فوت ہوجائے تو عورت پہلی صورت عدتِ طلاق اور دوسری صورت میں عدتِ وفات گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔

چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :

"فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَا”

ترجمہ : پھر اگر تیسری طلاق اسے دی، تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی، جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے، پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں ۔

(پارہ 2، سورۃالبقرہ : 230)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے :

"أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم : أتحل للأول ؟ قال : لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول”

یعنی کہ ایک مرد نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، پس عورت نے (دوسرے شوہر سے) نکاح کیا تو دوسرے شوہر نے (اسے) طلاق دیدی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو گئی ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں! یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی اس کے شید کا ذائقہ چکھ لے جس طرح پہلے شوہر نے چکھا ہے ۔

(صحیح البخاری، كتاب الطلاق، باب من أجاز طلاق الثلاث، صفحہ 988، رقم الحدیث : 5261، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

فتاوى عالمگیری میں ہے :

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة و ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية”

یعنی اور اگر طلاق آزاد عورت میں تیسری ہو اور لونڈی میں دوسری ہو تو وہ عورت اس شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ اس (پہلے شوہر) کے علاوہ کسی اور سے نکاحِ صحیح کر لے اور وہ دوسرا شوہر اس سے ہمبستری کرلے پھر وہ اسے طلاق دیدے یا اسے چھوڑ کر مر جائے (تو وہ طلاق یا وفات کی عدت گزار کر پہلے سے نکاح کر سکتی ہے)، ایسے ہی "ھدایہ” میں ہے۔

(فتاوی عالمگیری، كِتَابُ الطلاق، الْبَابُ السَّادِسُ فِي الرَّجْعَةِ وَ فِيمَا تَحِلُّ بِهِ الْمُطَلَّقَةُ وَ مَا يَتَّصِلُ بِهِ، فَصْلٌ فِيمَا تَحِلُّ بِهِ الْمُطَلَّقَةُ وَمَا يَتَّصِلُ بِهِ، جلد 1، صفحہ 473 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply