غسل کے دوران پاؤں دھولینا کیسا ہے ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ غسل میں جو نماز کا وضو کیا جاتا ہے اس میں ہی پاؤں دھونے لینے میں کوئی حرج تو نہیں یا مکمل غسل کے طریقے کے مطابق آخر میں پاؤں دھونے ہیں کیونکہ آج کے دور میں تقریباً تمام غسل خانے پتھر پکے فرش کے ہوتے ہیں؟
(سائل محمد طیب رضا ضلع سرگودھا تحصیل بھلوال)
الجـــــوابــــــــــــ بعون الملک الوھّاب
غسلِ جنابت ہو یا عام غسل اگر مسنون طریقہ پر کیا جائے جو فرائضِ غسل ہیں ان کو پورا کیا جائے تو غسل ہوجائے گا، رہا مسئلہ پاؤں دھونے کا تو ابتدا میں جو وضو کیا جاتا ہے اگر زمین پکی ہو اور پانی آگے گزر جاتا ہے تو اسی وضو میں پاؤں دھونے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ پاؤں بعد میں دھوئے جائیں-
(حدیث شریف میں ہے، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَتْ مَيْمُونَةُ وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا فَسَتَرْتُهُ بِثَوْبٍ وَصَبَّ عَلَی يَدَيْهِ فَغَسَلَهُمَا ثُمَّ صَبَّ بِيَمِينِهِ عَلَی شِمَالِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ فَضَرَبَ بِيَدِهِ الْأَرْضَ فَمَسَحَهَا ثُمَّ غَسَلَهَا فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ ثُمَّ صَبَّ عَلَی رَأْسِهِ وَأَفَاضَ عَلَی جَسَدِهِ ثُمَّ تَنَحَّی فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ فَنَاوَلْتُهُ ثَوْبًا فَلَمْ يَأْخُذْهُ فَانْطَلَقَ وَهُوَ يَنْفُضُ يَدَيْهِ-
(یعنی: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت میمونہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے لئے غسل کا پانی رکھ دیا اور آپ ﷺ کے لئے پردہ ڈال دیا، آپ نے اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور ان کو دھویا، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور استنجا کیا، پھر اپنا ہاتھ زمین پر مار کر اس کو ملا، پھر اسے دھویا اس کے بعد کلی کی اور ناک میں پانی لیا اور منہ اور ہاتھوں کو دھویا پھر اپنے سر پر پانی ڈالا اور باقی بدن پر پانی بہایا اس کے بعد وہاں سے ہٹ گئے اور اپنے دونوں پیر دھوئے پھر میں نے ایک کپڑا (بدن پو نچھنے کے لئے آپ ﷺ کی طرف بڑھایا، مگر آپ ﷺ نے اسے نہیں لیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے بدن کو جھاڑ تے ہوئے چلے آئے-
(صحیح البخاری کتاب غسل کا بیان، رقم، 276)
اس حدیثِ مبارکہ کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں، کہ غسل کی ترتیب یہ ہوئی کہ پہلے ہاتھ دھوئے جائیں، پھر استنجاء، پھر وضو کیا جائے، پھر جسم پر بہایا جائے، چونکہ کچی زمین پر غسل فرمایا تھا اس لیے وضو کے ساتھ پاؤں نہ دھوئے بلکہ بعد میں دھوئے اگر پختہ زمین پر غسل ہو تو پاؤں پہلے دھولیے جائیں-
(مرآۃ المناجیح جلد1،صفحہ285- مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
کتبــــــہ :ابورضا محمد عمران عطاری عفی عنہ متخصص فی الفقہ