گم شدہ بکری سے پیدا ہونے والے بکروں کی قربانی کا حکم

گم شدہ بکری سے پیدا ہونے والے بکروں کی قربانی کا حکم

کیا فرماتے ہیں حضرت مفتی محمد نظام الدین علیمی صاحب قبلہ مسئلہ ذیل میں کہ آج سے تقریباً 8سال قبل ایک بکری ایک صاحب کو ملی انہوں نے گاؤں میں خبرعام کہاوت اعلان بھی کرایامگر اس بکری کا مالک دستیاب نہ ہوا اور چند سال بعد وہ بکری راقم کے قریبی گاؤں میں آئی یہاں بھی اس بکری نے کئی سارے بچے دیئے مگر اب کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اس بکری سے جو بچے ہیں ان کی قربانی وغیرہ درست نہیں لہذا آپ مد ظلہ العالی سے گزارش ہے کہ تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں ۔

عرض گزار : آفتاب احمد علیمی

خطیب و امام نورانی جامع مسجد بابو پٹی بنجریا ،دیوریا ،یوپی


الجواب:

ایسی چیز جو کہیں پڑی مل جائے یا ایسا گم شدہ جانور جو کہیں مل جائے اور یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا مالک کون ہے "لُقٙطٙہ” کہلاتا ہے۔ اس کے کچھ خاص احکام ہیں_

(١) اٹھانے والا اس چیز کو مالک تک پہونچانے کی نیت سے اٹھائے۔

(٢) اگر وہاں کوئی موجود ہو تو گواہ بنا لینا ضروری ہے، اگر اس صورت میں گواہ نہ بنایا تو غصب ہوگا اور اس کے احکام جاری ہوں گے۔

(٣) اٹھانے والا اتنی مدت تک بازاروں، مساجد اور عام گزرگاہوں میں تشہیر واعلان کرے جتنی مدت تک مالک کے تلاش کرنے کا ظنِ غالب ہو۔ پھر جب یہ ظن غالب ہوجائے کہ اب اس کا مالک اس کو تلاش نہیں کر رہا ہوگا تو وہ کسی فقیر کو دیدے۔

(۴) اگر اعلان وتشہیر اور مذکورہ بالا ظن غالب ہونے کے بعد فقیر کو دے دیا، لیکن پھر مالک آگیا تو اس کو اختیار ہے کہ صدقہ کو جائز کردے اور اگر صدقہ جائز نہ کیا تو اگر فقیر کے پاس وہ چیز موجود ہو تو مالک لے لے گا اور اگر ہلاک ہوگئی ہو تو اس کو اختیار ہے کہ چیز اٹھانے والے یا فقیر دونوں میں سے جس کسی سے چاہے تاوان لے سکتاہے۔

(۵) اگر "لُقٙطہ” اٹھانے والا خود محتاج فقیر ہو تو مد تِ مذکورہ تک اعلان وتشہیر کے بعد خود بھی استعمال کرسکتاہے۔

اس لیے صورتِ مسئولہ میں اگر بکری ملنے کے مقام پر اس پکڑنے والے کے علاوہ کوئی نہ تھا جس کو گواہ بناتا یا اگر کوئی رہا ہو اور اس کو گواہ بنالیا ہو اور پھر دونوں صورتوں میں اتنی مدت تک اعلان کیا ہو کہ جس میں ظن غالب ہوگیا ہو کہ اب اس کا مالک اس کو تلاش نہیں کر ریا یوگا اس کے بعد محتاج فقیر ہونے کی وجہ سےخود رکھ لیا ہو تو وہ پکڑنے والا اس کا مالک ہوگیا، لہذا اس سے بکری خریدنے والا بھی بکری کا مالک ہوگا اور اس صورت میں بکری سے پیدا ہونے والے جانوروں کی قربانی درست ہے۔

لیکن اگر کسی کے وہاں موجود ہونے کی صورت میں گواہ نہ بنایا ہو یا مدتِ مذکورہ تک اعلان وتشہیر نہ کیا ہو یا خود مالدار ہونے کی صورت میں بکری کو رکھ لیا ہو اور فروخت کیا ہوتو چوں کہ ان صورتوں میں بکری لینے والا غاصب ہے اور غاصب مالک نہیں ہے لہذا اس سے خریدنے والا بھی بکری کا مالک نہ ہوگا اور قربانی جائز ہونے کے لیے قربانی کے جانور کا مالک ہونا ضروری ہے، اس لیے ان صورتوں میں اس بکری سے پیدا ہونے والے جانوروں کی قربانی جائز نہ ہوگی۔ ہاں! اگر اصل مالک کا پتہ لگ جائے اور وہ قربانی کرنے والوں سے تاوان وصول کرلے تو قربانیاں صحیح ہوجائیں گی۔

اب مذکورہ بالا مندرجات پر حوالے ملاحظہ کریں:

صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

” ہر قسم کی پڑی ہوئی چیز کا اُٹھا لانا جائز ہے مثلاً متاع،یا جانور بلکہ اُونٹ کو بھی لا سکتا ہے کیونکہ اب زمانہ خراب ہے یہ نہ لائے گا تو کوئی دوسرا لے جائے گا اور مالک کو نہ دے گا بلکہ ہضم کر جائیگا۔ "

(بہار شریعت ح ١٠ ص ۴٧٨)

نیز تحریر فرماتے ہیں:

"لقطہ، ملتقط کے ہاتھ میں امانت ہے، یعنی تلف ہو جائے، تو اس پر تاوان نہیں ، بشرطیکہ اُٹھا نے والا اُٹھانے کے وقت کسی کو گواہ بنادے یعنی لوگوں سے کہدے کہ اگر کوئی شخص اپنی گُمی ہوئی چیز تلاش کرتا آئے تو میرے پاس بھیج دینا اور گواہ نہ کیا تو تلف ہونے کی صورت میں تاوان دینا پڑے گا مگر جبکہ وہاں کوئی نہ ہواور گواہ بنانے کا موقع نہ ملا یا اندیشہ ہو کہ گواہ بنائے تو ظالم چھین لے گا تو ضمان نہیں”

(بہار شریعت ح ١٠ ص ۴٧٨)

اور تحریر فرماتے ہیں:

"ملتقط پر تشہیر لازم ہے یعنی بازاروں اور شارع عام اور مساجد میں اتنے زمانہ تک اعلان کرے کہ ظن غالب ہو جائے کہ مالک اب تلاش نہ کرتا ہوگا۔ یہ مدت پوری ہونے کے بعد اُسے اختیار ہے کہ لقطہ کی حفاظت کرے یا کسی مسکین پر تصد ق کردے ۔ مسکین کو دینے کے بعد اگر مالک آگیا تو اسے اختیار ہے کہ صدقہ کو جائز کردے یا نہ کرے اگر جائز کر دیا ثواب پائے گا اور جائز نہ کیا تو اگر وہ چیزموجود ہے اپنی چیز لے لے اور ہلاک ہوگئی ہے تو تاوان لے گا ۔ یہ اختیار ہے کہ ملتقط سے تاوان لے یا مسکین سے، جس سے بھی لے گا وہ دوسرے سے رجوع نہیں کرسکتا”۔

(بہار شریعت ح ١٠ ص۴٧٩)

ایک دوسرے مقام پر ہے:

"دوسرے کی بکری غصب کر لی اور اوس کی قربانی کر لی اگر مالک نے زندہ بکری کا اوس شخص سے تاوان لے لیا تو قربانی ہوگئی ، مگر یہ شخص گنہگار ہے اس پر توبہ و استغفار لازم ہے”۔

(بہار شریعت ح١۵ ص٣۵١)

نیز اسی میں ہے :

” مویشی خانہ کے جانور ایک مدت مقررہ کے بعد نیلام ہو جاتے ہیں اور بعض لوگ اوسے لے لیتے ہیں اس کی قربانی جائز نہیں کیونکہ یہ جانور اس کی مِلک نہیں”

(بہار شریعت ح١٠ ص٣۵١)

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔

یوپی۔٧/ذوالقعدہ ١۴۴٢ھ//١٩/جون٢٠٢١ء

2 thoughts on “گم شدہ بکری سے پیدا ہونے والے بکروں کی قربانی کا حکم”

Leave a Reply