گارنٹی یا وارنٹی کی شرط کے ساتھ موبائل کی خرید و فروخت کرنا کیسا ہے ؟

گارنٹی یا وارنٹی کی شرط کے ساتھ موبائل کی خرید و فروخت

الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اصول فقہ کا یہ ضابطہ ہے کہ ” ہر وہ شرط جو بیع (خریدوفروخت) کے خلاف ہو اور اس میں عاقدین ( خریدنے اور بیچنے والے)میں سے کسی کا نفع ہو، وہ شرط بیع کو فاسد کردے گی ۔ اگر وہ شرط متعارف ہو اور اہل زمانہ کا اس پر تعامل ہو تو وہ بیع وعقد جائز رہے گا ۔ کیونکہ عرف وتعامل ، قیاس پر حجت ہے ، ان کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ دیا جائے گا۔”

علامہ برہان الدین مرغینانی رحمه الله تعالى فرماتے ہیں:
كل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين يفسده الا أن يكون متعارفا ؛ لأن العرف قاض علي القياس .”

اصل مذہب کے مطابق اور مذکورہ ضابطہ کے تحت” گاڑی یا وارنٹی کی شرط کے ساتھ موبائل کی خرید و فروخت ناجائز ہے۔ ” کیونکہ یہ شرط عقد بیع کے خلاف ہے اور اس سے عاقدین میں سے خریدار کو نفع پہنچتا ہے۔ لیکن اب عرف و تعامل کی وجہ سے اس شرط کے ساتھ موبائل کی خرید و فروخت جائز ہے ۔ کیوں کہ اس قسم کی خریدوفروخت پر اب لوگوں کا تعامل ہوچکا ہے اور عرف عام میں اس طریق بیع کو غلط نہیں سمجھا جاتا ہے۔

لہذا جس طرح گھڑی، انوائٹر، واشنگ مشین، فریج ، شوٹ کیس اور کولر وغیرہ مختلف قسم کی جدید مشینوں اور نئی ایجادات میں گارنٹی یا وارنٹی کی شرط اصل مذہب کے لحاظ سے ناجائز اور اب تعمل ناس کی وجہ سے جائز ہے۔ اسی طرح گارنٹی یا وارنٹی کی شرط کے ساتھ موبائل کی خرید و فروخت درست ہے ۔

بہار شریعت میں ہے:
” یا وہ شرط (بیع کی) ایسی ہے ، جس پر مسلمانوں کا عام طور پر عمل درآمد ہے۔ جیسے گھڑیوں میں آج کل سال دو سال کی گرنٹی ہوا کرتی ہے کہ اس مدت میں خراب ہوگئی تو درستی کا ذمہ بائع(دوکاندار)۔ ایسی شرط بھی ( بیع میں ) جائز ہے ۔”

کتبـــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارک پور 

Leave a Reply