گروی والا مکان کرایہ پر دینا کیسا ہے ؟ از مفتی محمد رضا مرکزی
حضرت ایک مسٔلہ ہے کہ ایک بھائی نے مکان گروی لیا ہے اور وہ اس مکان کا مالک نہیں ہے ۔ یہ جانتے ہوئے بھی وہ اس مکان کو کراۓ پر دینا چاہتا ہے تو اس کے لئے شریعت میں کیا حکم ہے؟
مکان گروی لینا شریعت میں کیسا ہے اس کے بھی متعلق کچھ معلومات عنایت فرمائیں؟
سائل: ڈاکٹر فیروز، برہان پور ایم پی ۔
الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
حدیث پاک ہے
کل قرضٍ جَرَّ نَفعَةً فهو ربا ۔
ہر وہ قرض جو ساتھ نفع دے وہ سود ہے ۔
گروی کا مطلب بھی یہ ہے کہ ایک شخص کو رقم کی ضرورت ہے تو وہ اپنی چیز کو اعتماد کے لیے دوسرے کے پاس رکھتا ہے اور وہ شخص کچھ مدت کے لیے اسے رقم دیتا ہے ۔ جب یہ رقم واپس کرے گا وہ شخص متعلقہ چیز واپس دے گا ۔ مثلاً مکان، سونا اور جائیداد وغیرہ ۔
اب اس مکان سے فائدہ حاصل کرنا یہ سود ہے ۔ اس لیے کہ یہ قرض کے بدلے بطور امانت آپکے پاس ہے ۔
البتہ اگر آپ مالک مکان کو کچھ ماہانہ کرایہ دیتے ہوں چاہے وہ عرف سے کم بھی ہو تو اس وقت جائز ہے ۔ لیکن مالک مکان کو راضی کرے تو یہ بہتر صورت ہے ۔ مکان کی حفاظت آپ پر لازم ہے اس لیے کہ یہ آپ کے پاس امانت ہے ۔
اور وضاحت پیش ہے ۔
قرض دینے والا اپنے قرض کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے مقروض سے بطور رھن مکان وغیرہ لے سکتا ہے لیکن اس سے بلا عوضِ معروف نفع حاصل کرنا سود اور ناجائز ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص کو قرض دے کر مکان گروی کے طور پر رکھ لیا تو اس گھر میں رہنا یا کسی اور استعمال میں لانا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک بازار کے ریٹ کے مطابق اس کا پورا کرایہ ادا نہ کیا جائے۔اور اس کرائے کے معاملے کو رہن کے ساتھ مشروط نہ کیا جائے بلکہ یہ معاملہ الگ سے کیا جائے۔
لا الانتفاع بہ مطلقًا الاباذن ۔ وقیل ان شرطہ کان ربًا والا لا وفی الشامیہ رأیت فی الجواھر الفتاویٰ واذا کان مشروطًا صار قرضًا فیہ منفعۃً وھو ربا والا فلابأس ۔ اقول مافی الجواھر یصلح للتوفیق وھو وجیہ ۔ قلت والغالب من احوال الناس انھم یریدون عندالدفع الانتفاع ولو لاہ لما اعطاہ الدراھم وھذا بمنزلۃ الشرط لان لمعروف کا لمشروط وھو مما یعین المنع الخ ۔
(شامیہ ص ۳۴۳، ج ۵)
وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم
کتبــــــــــــــہ : محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں