گھوڑا اور گدھا کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں از مفتی محمد نظام الدین قادری جامعہ علیمیہ

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

عرض یہ ہے کہ گھوڑا اور گدھا کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں مدلل جواب عنایت فرمائیں

نوازش ہوگی

محمد علی دھولیا مہاراشٹر

الجواب:

            گدھے کا گوشت کھانا حرام ہے، امام ابو عیسی ترمذی رحمہ اللہ تعالی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے وقت نوکیلے دانت والے شکاری جانور، اور باندھ کر تیر اندازی کرکے مارے گیے جانور اور گدہے کو حرام فرمادیا۔("عن ابی ہریرة ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حرم یوم خیبر کل ذی ناب من السباع والمجثمة والحمار الانسی”)

[جامع الترمذی، باب ما جاء فی لحوم الحمر الاھلیة ]

اور در مختار میں ہے:وَلَا يَحِلُّ) (ذُو نَابٍ يَصِيدُ بِنَابِهِ) فَخَرَجَ نَحْوُ الْبَعِيرِ (أَوْ مِخْلَبٍ يَصِيدُ بِمِخْلَبِهِ) أَيْ ظُفْرِهِ فَخَرَجَ نَحْوُ الْحَمَامَةِ (مِنْ سَبُعٍ) بَيَانٌ لِذِي نَابٍ. وَالسَّبُعُ: كُلُّ مُخْتَطِفٍ مُنْتَهِبٍ جَارِحٍ قَاتِلٍ عَادَةً (أَوْ طَيْرٍ) بَيَانٌ لِذِي مِخْلَبٍ (وَلَا) (الْحَشَرَاتُ) هِيَ صِغَارُ دَوَابِّ الْأَرْضِ وَاحِدُهَا حَشَرَةٌ (وَالْحُمُرُ الْأَهْلِيَّةُ) بِخِلَافِ الْوَحْشِيَّةِ فَإِنَّهَا وَلَبَنَهَا حَلَالٌ”

(درمختار ج٩ص۴۴١، ۴۴٢)

اور گھوڑے کا گوشت کھانا قولِ اصح پر مکروہِ تحریمی ہے، حدیث میں اس کے کھانے سے ممانعت وارد ہے۔ امام ابن ماجہ قزوینی رحمہ اللہ تعالی اپنی سنن میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے گھوڑوں، خچروں اور گدہوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے("عن خالد بن الولید، قال: نہی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عن لحوم الخیل والبغال والحمیر”۔)

[سنن ابن ماجہ، باب لحوم البغال،ص ٢٣٠]

امامِ اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز گھوڑے کے گوشت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

"صاحبین کے نزدیک حلال ہے، اور امام مکروہ فرماتے ہیں، قول امام پر فتوٰی ہوا، کہ کراہت تنزیہی ہے یا تحریمی، اور اصح وراجح کراہت تحریم ہے۔صححہ الامام قاضی خاں فی فتاواہ، وقد قالوا انہ فقیہ النفس ، ولا یعدل عن تصحیحہ ۔وقال الشامی ثم نقل ای القہستانی تصحیح کراہۃ التحریم عن الخلاصۃ والہدایۃ والمحیط والمغنی و القاضی خاں والعمادیۃ وغیرہا وعلیہ المتون اھ ومعلوم ان الترجیح للمتون، وانہا الموضوعۃ لنقل المذہب،فلا یعارضہا ما فی کفایۃ البیہقی بخلاف انہ ظاہر الروایۃ و لافتوی الجمہور (عہ) المنقول بقیل بعد ما قدمنا(عہ) من التصحیحات الجلیلۃ للائمۃ الجلۃ”

(فتاوی رضویہ ج٨ص ٣٦۴ )

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ:محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی۔بستی۔

یوپی۔/غرة ذوالقعدة ١۴۴٢ھ//١٣/جون ٢٠٢١ء

Leave a Reply

%d