کیا حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ نے دریا سے ڈوبی ہوئی بارات کو نکالا تھا ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
علمائے کرام یہ ارشاد فرمائیں کہ یہ جو واقعہ ہے کہ غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بارہ سال کی ڈوبی ہوئی بارات کو دریا سے زندہ نکالا کیا یہ واقعہ سچ ہے یا مصنوعی اور اگر سچ ہے تو کس کتاب میں ہے جواب ارشاد فرماکر مشکوروممنون فرمائیں۔
سائل محمد ذاکر مراد آباد
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
مذکورہ سوال کردہ واقعہ بڑی مشہور و معروف اور صحیح و درست ہے،،
جیسا کہ شیخ محمد بن الھمدنی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ ایک بار سرکار بغداد حضور سیدنا غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دریا کی طرف تشریف لے گئے وہاں ایک ۹۰ سال کی بڑھیا کو دیکھا جو زار و قطار رورہی تھی ،ایک مریدنے بارگاہِ غوثیت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں عرض کیا:’مرشدی!اس ضعیفہ کا اکلوتا خوبرو بیٹا تھا، بیچاری نے اس کی شادی رچائی دولہا نکاح کرکے دلہن کو اسی دریا میں کشتی کے ذریعے اپنے گھر لارہاتھاکہ کشتی الٹ گئی اور دولہا دلہن سمیت ساری بارات ڈوب گئی، اس واقعہ کو آج بارہ سال گزر چکے ہیں مگر ماں کاجگر ہے ،بے چاری کاغم جاتا نہیں ہے،یہ روزانہ یہا ں دریا پر آتی ہے اور بارات کونہ پاکر رو دھو کر چلی جاتی ہے ۔
حضورِ غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس ضعیفہ پر بڑا ترس آیا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا دیئے، چند منٹ تک کچھ ظہورنہ ہوا،بے تاب ہوکر بارگاہِ الٰہی عزوجل میں عرض کی: ’’یااللہ عزوجل!اس قدر تاخیر کی کیاوجہ ہے؟‘‘ ارشادہوا :’’ اے میرے پیارے!یہ تاخیر خلافِ تقدیر نہیں ہے ،ہم چاہتے تو ایک حکم ’’کُنْ‘‘سے تمام زمین و آسمان پیدا کر دیتے مگر بمقتضائے حکمت چھ دن میں پیدا کئے، بارات کو ڈوبے ہوئے بارہ سال ہوچکے ہیں،اب نہ وہ کشتی باقی رہی ہے نہ ہی اس کی کوئی سواری، تمام انسانوں کا گوشت وغیرہ بھی دریائی جانور کھاچکے ہیں، ریزہ ریزہ کو اجزائے جسم میں اکٹھا کروا کر دوبارہ زندگی کے مرحلے میں داخل کر دیا ہے اب ان کی آمد کاوقت ہے۔‘‘ ابھی یہ کلام اختتام کو بھی نہ پہنچا تھاکہ یکایک وہ کشتی اپنے تمام ترسازو سامان کے ساتھ مع دولہا،دلہن وباراتی سطح آب پر نمودار ہوگئی اور چندہی لمحوں میں کنارے آلگی، تمام باراتی سرکار بغداد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دعائیں لے کرخوشی خوشی اپنے گھر پہنچے، اس کرامت کو سن کربے شمارکفّار نے آ آ کر سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دستِ حق پرست پراسلام قبول کیا ۔
(غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کے حالات صفحہ۔ (۶۳) ت(۶۴) المکتبۃ المدینۃ العلمیۃ دعوت اسلامی )
اور حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محقق بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان سے سوال کیا گیا کہ ایك بڑھا لبِ دریا بیٹھی روتی تھی،اتفاقا حضرت کا اس طرف سے گزرہوا۔حضرت نے فرمایا کہ اس قدر کیوں روتی ہو؟ بڑھیا نے عرض کیا:حضرت ! میرے لڑکے کی بارہ برس ہوئے یہاں دریا میں مع سامان کے برات ڈوبی ہے میں یہاں آکر روزانہ روتی ہوں،آپ نے دعا فرمائی آپ کی دعا کی برکت سے بارہ برس کی ڈوبی ہوئی برات مع کل سامان کے صحیح و سالم نکل آئی اور بڑھیا خوش و خرم اپنے مکان کو چلی گئی۔ شرعا اس روایت کو مجلس مولود شریف وغيرہ میں بیان کرنا کیسا ہے تو آپ نے تحریر فرمایا: اگرچہ یہ روایت نظر سے نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے اور اس میں کوئی امرخلافِ شرع نہیں، اس کا انکار نہ کیا جائے
(فتاوی رضویہ شریف جلد (۲۹) امور عشرین در امتیاز عقائد سنیین۔۔ صفحہ (۶۳۰)مکتبہ رضا فاٶنڈیشن لاھور )
مزید معلومات و تفصیل کیلئے۔ بڑھیا کا بیڑا اور کرامت غوث اعظم کا مطالعہ فرمائیں، تصنیف لطیف۔شیخ القران والحدیث صاحب تصانیف فیض ملت حضرت علامہ فیض احمد اویسی رضوی علیہ الرحمہ۔ مکتبہ اویسیہ رضویہ بہاولپور پاکستان
واللـہ تعــالیٰ اعلـم بالصــــواب
کتبـــــــــــــہ : محمد ارباز عالم نظــــامی ترکپٹی کوریاں کشی نگر یوپی الھــــــــند
۹ ربیع الاول ۱۴۴۳ھ بروز سوموار