دیہات میں جمعہ قائم کرنے کا حکم از علامہ کمال احمد علیمی نظامی

دیہات میں جمعہ قائم کرنے کا حکم، اس کے متعلق ایک ضروری مسئلہ

حضرت مفتی صاحب قبلہ

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ شیتلاپور گاؤں میں دو مسجد ہے ایک پرانی اور دوسری نئ ، حضور افتخار الاولیاء حضرت علامہ ومولانا افتخار احمد اعظمی رحمۃ الله عليه کے دور حیات میں ایک ہی مسجد تھی سارے لوگ اس میں جمعہ کی نماز ادا کرتے تھے ، پھردوسری مسجد تعمیر ہوئی لیکن حضرت کی وفات تک اس میں جمعہ قائم نہیں ہوا. اور حضرت کی وفات کے بعد لوگ اس دوسری مسجد میں جمعہ قائم کر لیے ۔ اور اب ان دونوں مسجدوں میں جمعہ کی نماز بھی قائم ہے تو کیا جمعہ کی نماز پڑھ لینے سے ظہر کی نماز ساقط ہوجائے گی یا نہیں ؟ اور ان دونوں مسجدوں میں جمعہ کی نماز پڑھ سکتےہیں ؟ یا صرف ایک ہی مسجد میں ؟ ایک مسجد کے امام صاحب نے عوام کو اس مسئلہ سے آگاہ کیا کہ گاوں میں جمعہ کے شرائط نہیں پائے جارہے ہیں لہٰذا یہاں جمعہ کے بعد چار رکعت ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں ۔

لیکن امام صاحب نے جمعہ پڑھنے سے منع نہیں کیا بس جمعہ کے بعد ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی تلقین کی ہے ۔ تو اب گاوں کے کچھ لوگوں نے دوسرے علماء سے اس مسئلہ کو دریافت کیا تو انہوں نے جمعہ کو جائز کہا اور حوالہ یہ دیا کہ اس گاوں میں ایک عالم دین بزرگ رہتے تھے اور ان کا مزار شریف بھی ہے حضرت علامہ ومولانا افتخار احمد اعظمی رحمۃ الله عليه لیکن حضرت نے جمعہ کے بعد ظہر کی نماز پڑھنے کو نہیں فرمایا وہ اتنے بڑے عالم دین تھے ۔تو کیا مسجد کا امام ان سے بڑا عالم ہے کہ جمعہ کے بعد ظہر کی نماز پڑھنے کو بتارہے ہیں ؟

اب سوال یہ ہے کہ کیا مسجد کے امام صاحب نے عوام الناس کو مسئلہ بتا کر غلطی کی ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو جن علماء نے یہاں پر جمعہ پڑھنے کو جائز کہا تو ان پر حکم شرع کیا ہے ؟

بینوا تو اجرو.

العارض امام مسجد شیتلا پور ضلع مہراج گنج یوپی فقط والسلام

الجواب بعون الملک الوھاب۔

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

سوال سے ظاہر ہے کہ مذکورہ گاؤں دیہات ہے، اس لیے مذہب حنفی میں اس میں جمعہ قائم کرنا ناجائز ہے، ہاں اگر جمعہ پہلے سے قائم ہو تو اسے بند بھی نہیں کیا جائے گا کہ عوام جس طرح سے بھی اللہ ورسول کا نام لیں بہتر ہے. چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

"لا جمعة و لا تشريق إلا في مصر”(درایہ ص ١٣١)

ہدایہ میں ہے :

"لا تجوز فی القری” (ج 1 ص 148)

دیہاتوں میں جمعہ جائز نہیں

در مختار میں ہے:

” تکرہ تحریما ای لانہ اشتغال بما لا یصح لان المصر شرط الصحۃ”

دیہات میں جمعہ کی نماز مکروہ تحریمی ہے، کیوں کہ یہ ایک غیر صحیح عمل میں مشغول ہونا ہے، اس لیے کہ صحت جمعہ کے لئے شہر کا ہونا شرط ہے.

فتاوی فیض الرسول میں ہے:

” دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھنا مذہب حنفی میں جائز نہیں، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو منع نہ کریں گے کہ شاید اس طرح اللہ و رسول کا نام لے لینا ان کے لیے ذریعہ نجات ہو جائے گا”

اسی صفحہ پر ہے:

” دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو انہیں منع نہ کیا جائے، کہ وہ جس طرح بھی اللہ و رسول کا نام لیں غنیمت ہے، ھکذا قال الامام احمد رضا، وھو تعالیٰ اعلم” (ص 406 ج1)

بہار شریعت میں ہے:

” لہٰذا جمعہ یا شہر میں پڑھا جائے یا قصبہ میں یا ان کی فنا میں اور گاؤں میں جائز نہیں”

(ج 1ص 763)

مذکورہ نصوص سے ثابت ہوا کہ سوال میں مذکور گاؤں میں جمعہ کی نماز قائم کرنا ناجائز ہے، لیکن چوں کہ عوام نے قائم کرلی ہے اس لیے اب اسے روکا بھی نہیں جائے گا.

رہا یہ سوال کہ جمعہ کی نماز دونوں مسجدوں میں جائز ہے یا نا جائز تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال دوسری مسجد میں جمعہ قائم کرنے سے پہلے کرنا چاہئے تھا ، اب جب کہ دونوں میں جمعہ قائم ہے تو دونوں میں سے کسی میں بھی نماز جمعہ پڑھنے سے نہیں روکا جائے گا۔

قرآن کریم میں ہے:

أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صَلَّى (علق : 10/9)

دوسری جگہ ارشاد ہے:

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا

(البقرہ: 114)

جمعہ کے بعد باجماعت ظہر پڑھنے میں کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو نہ ہی یہ خوف ہو کہ عوام ظہر کے ساتھ جمعہ پڑھنا بند کر دیں گے تو وہاں پر باجماعت ظہر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، ہاں جہاں فتنے کا اندیشہ یا یہ ڈر ہو کہ عوام ظہر کی نماز کے ساتھ جمعہ بھی ترک کردیں گے تو وہاں تقاضائے مصلحت یہ ہے کہ باجماعت ظہر قائم کرنے سے بچا جائے اور پابند نماز اور بغیر فتنہ انگیزی کے حق قبول کرنے والے افراد کو جمعہ کے ساتھ حکیمانہ طریقہ پر ظہر پڑھنے کی تلقین کی جائے اور اگر بغیر فتنہ انگیزی کے ظہر باجماعت کے لیے ماحول سازگار ہونا مظنون بہ ظن غالب ہو تو ظہر کی نماز باجماعت ادا کرسکتے ہیں۔

فتاوی مفتی اعظم ہند میں ہے:

گاؤں میں جمعہ ناجائز ہے، جہاں ہوتا ہو وہاں روکا نہ جائے کہ فتنہ ہے، نیز یہ کہ وہ اتنے سے بھی جائیں گے واللہ تعالیٰ اعلم. انہیں آہستہ آہستہ اس کی تلقین کی جائے کہ وہ ظہر بھی پڑھ لیں.

مزید ارشاد ہے :

وہ ظہر بھی جماعت ہی سے پڑھنے کو کہا جائے کہ بے عذر ترک جماعت گناہ ہے. (ج ٣ص١٢٣-١٢٤)

فتاوی فیض الرسول میں ہے:

دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھ لینے سے ظہر کی فرض نماز ساقط نہیں ہوتی لہذا دوسرے ایام کی طرح جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز با جماعت پڑھنا واجب ہے. (فتاویٰ فیض الرسول ج ١ص٤٠٦)

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ : کمال احمد علیمی نظامی* جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی

١٢ صفر المظفر ١٤٤٣/ ٢٠ ستمبر ٢٠٢١

الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری خادم درس و افتا جامعہ علیمیہ جمدا شاہی

Leave a Reply