غیر مسلم کے مکان ودکان پر قرآن خوانی کرنا کیسا ہے از علامہ کمال احمد علیمی

غیر مسلم کے مکان ودکان پر قرآن خوانی کرنا کیسا ہے

حضرت مفتی صاحب قبلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
سوال یہ ہے کہ کسی کافر مشرک کے گھر یا دکان پر قرآن خوانی کرنا کیسا ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں.
المستفتی:خالد رضا بلرام پور

الجواب بعون الھادی الی الحق والصواب

وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کسی کافر کے گھر یا دکان پر نفس قرآن خوانی کرنا جب کہ کسی محظور شرعی پر مشتمل نہ ہو جائز ہے ۔

فتاوی شارح بخاری میں ہے :

سوال :کیا کسی کافر کے گھر قرآن پڑھنا یا پڑھانا کفر ہے  ۔ یا کسی غیر مسلم کو ایصال کرنا یا کرانا جب کہ غیر مسلم جان کر کیا ہو یا بغیر جانے کیا ہو ۔ ہرایک صورت کا جواب با صواب تحریر فرمائیں ۔

جوابــــــــــــــــــــ:  یہاں اس زمانے میں ہندوؤں کے گھر کسی مباح کام کے لئے جانے کہ اجازت ہے ۔ تمام مسلمانوں کا اس پر عمل در آمد ہے اس لئے کسی ہندو کے گھر جا کر قرآن مجید پڑھنا اور کسی بزرگ یا مسلمان کے نام ایصال ثواب کرنا جائز و درست ہے ۔ کفر تو کیا ہوگا گناہ بھی نہیں جب کہ ہندو کے اس گھر میں جس میں قرآن خوانی ہوئی ہے دیوتاؤں کی تصویریں نہ ہوں ۔ اور کسی جاندار کی تصویر نہ ہو ۔ (ج دوم ص ٥٥٠)

مگر کافر کی دکان ومکان میں قرآن خوانی کے وقت چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے :

١) وہ جگہ نجاست و آلودگی سے پاک ہو،فتاوی ہندیہ میں ہے :
’’ و یکرہ ان یقرأ القرآن فی الحمام و موضع النجاسات و لا یقرأ فی بیت الخلاء ‘‘کذا فی فتاوی قاضیخان(ص٥/ ٣١٦)

٢)اس جگہ پر دیوی دیوتاؤں اور جان دار چیزوں کی تصویر یا مجسمہ نہ ہو جیسا کہ فتاوی شارح بخاری کی عبارت میں گزرا.

٣) کسی کافر مشرک کی روح کو ایصال ثواب کی نیت نہ ہو، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۗ
”اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی بخشش کی دعا کریں گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز نہ بخشے گا۔ یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے الله اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا۔“ [التوبه :80 ]

فتاوی شارح بخاری ہی میں ہے :
” کسی کافر کے لئے ایصال ثواب کرنا یہ جانتے ہوئے کہ یہ شخص کافر ہے ضرور کفر ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے کافر کو ثواب کا مستحق جانا اور یہ کثیر نصوص قطعیہ کے خلاف ہے. لیکن چونکہ یہ مسئلہ ضروریات دین سے نہیں اس لئے کافر کو ایصال ثواب کرنے والے کو قطعی طور پر کافر نہیں کہا جا سکتا اس کی نظیر دعائے مغفرت ہے کہ چونکہ علما کے مابین یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ کافر کے لئے دعائے مغفرت جائز ہے یا نہیں علما کی ایک جماعت نے فرمایا کہ جائز ہے، دوسری جماعت نے فرمایا کہ کفر ہے اور یہی صحیح ہے ۔

شامی میں ہے : قد علمت أن الصحیح خلافہ فالدعاء بہ کفر لعدم جوازہ عقلا ولا شرعا و لتکذیبہ النصوص القطعیہ ۔
آپ کو معلوم ہے کہ مذہب صحیح اس کے بر خلاف ہےلہذا کافر کے لئے دعائے مغفرت کرنا اس کے عقلاً و شرعا نا جائز ہونے اور نصوص قطعیہ کی تکذیب کو مستلزم ہونے کی وجہ سے کفر ہے ۔

تاہم کافر کے لئے اسے کافر جانتے ہوئے اس کے لئے دعائے مغفرت کرنا اسی طرح اس کے لئے ایصال ثواب کرنا حرام و گناہ ضرور ہے ۔ اور کرنے والے فاسق ہیں ۔ "(مصدر سابق)

٤) کافر کے گھر یا دوکان پر قرآن خوانی موقعِ تہمت نہ ہو، مثلا: کافر نے اپنے کسی قریبی کے مرنے کے بعد قرآن خوانی کا اہتمام کیا ہو یا کسی اور طریقہ سے بدگمانی کا محل بن سکے ۔

حدیث شریف میں ہے: اتقوا مواضع التہم (احیاء علوم الدین للغزالی ٣/ ٥٩)
حاصل یہ کہ مذکورہ شرطوں کے ساتھ کافر ومشرک کے مکان ودکان میں قرآن خوانی کرنا جائز ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی
١٣ جمادی الأولی ١٤٤٣/ ١٩ دسمبر ٢٠٢١.
الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی

Leave a Reply