غیر وارث کے لئے جائداد کی وصیت کرنا کیسا ہے ؟
سوال : حضرت مسئلہ یوں ہے کہ ایک شخص نے جس کی آنکھوں کی روشنی بھی چلی گئی ہے اور پیشاب کے لیے پائپ لگی ہوئی ہے اس کا
ایک لڑکا ہے جو باپ کو اپنے پاس رکھنے کے لئے تیار نہیں ہے اس شخص کا ایک بھانجا ہے جو اس شخص کو پناہ بھی دیتا ہے اور اس کا علاج بھی
کرواتا ہے، اس شخص کے پاس خالی تین مرلہ زمین ہے اور وہ اس شرط پر کہ بھانجا اس کے مرنے تک خدمت کر دینا چاہتا ہے تو عرض ہے کہ
شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے رہنمائی فرمائیں؟
الجوابــــــــــــــــــ
جب اس مریض کا بھانجا اسے پناہ بھی دیتا ہے اور اس کا علاج بھی کراتا ہے اور لڑکا نا خلف ہے ،تو بہتر یہ ہے کہ اپنے املاک کا ایک تہائی حصہ
اپنےبھانجے کو وصیت کر دے اور دو تہائی اپنے وارثین کے لیے چھوڑ دے، لڑکے اور دوسرے وارثین کو ترکہ سے حصہ اللہ نے دیا ہے تو وہ اس مریض
کی وفات کے بعد از خود حقدار ہو جائیں گے ۔ اور بھانجا تمام تر خدمت کے باوجود محروم ہو جائے گا ۔ اس لئے اس کے حق میں وصیت کر دے، وصیت
ترکے کی ایک تہائی تک ہوتی ہے ، مثلا اس کے پاس تین مرلہ زمین ہے اور اس کے ذمہ کسی کا کوئی قرض نہیں ہے اور تجہیز و تکفین کے لئے
لیے الگ سے انتظام ہے، تو بھانجے کے نام ایک مرلہ زمین وصیت کر سکتا ہے جو اس کی وفات کے بعد بھانجے کو مل جائے گا ۔ مناسب یہ ہے کہ
وصیت نامہ لکھ دے اور اس پر چند دیندار گواہوں کے دستخط بھی کرادے ۔
واللہ تعالی اعلم
کتبـــــــــــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارکپور